تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     11-06-2022

ملکہ برطانیہ کے اعزاز میں

ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کو جو ستر سال ہوئے ہیں اور جو دھوم دھام سے تقریبات اس سلسلے میںبرطانیہ میں منائی گئی ہیں‘ ہم نے بھی ان میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ملکہ کی تاج پوشی کے حوالے سے برطانوی ہائی کمیشن نے جس دن ایک تقریب منعقد کی‘ اُسی دن اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے مقام پر یادگارِ پاکستان کو اس سلسلے میں منور کیا گیا۔ تقریب میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے شرکت کی اور برطانوی ہائی کمشنر کے ساتھ کھڑے ہوکر کیک کاٹا۔ پوچھنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں کو تو یہ تقریبات جچتی ہیں‘ اُن کی ملکہ ہے اور اس بابت وہ جو بھی کریں‘ جشن منائیں‘ خوشیاں منائیں‘ یہ اُن کی صوابدید ہے لیکن ملکہ کی تاج پوشی کی پلاٹینم جوبلی سے ہمارا کیا رشتہ بنتا ہے؟
شکر پڑیاں پہ واقع پاکستان مونومینٹ پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا تھا اور اسے پاکستان مونومینٹ کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے حوالے سے یہاں جو بھی کیا جائے درست ہے لیکن ہم جو نکھٹو ٹھہرے‘ ہم سے کوئی پوچھے کہ ملکہ برطانیہ کا اپنا مقام ہے‘ بڑی عظیم خاتون ہیں لیکن ہمارا اُن سے کیا لینا دینا؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ امریکہ اور چین کی کوئی قومی تقریب ہو اور ہم اُسے یہاں منانے بیٹھ جائیں۔ شکر پڑیاں کی یادگارِ پاکستان کو منور کرنا کس کا فیصلہ تھا؟ اور کیونکر یہ فیصلہ لیا گیا؟ اِس کے پیچھے منطق کیا تھی؟
جہاں تک برطانوی ہائی کمیشن کی تقریب میں وزیراعظم کا جانا ہے‘ وہ اتنی انوکھی بات نہیں لیکن کئی سال پہلے پرویز مشرف کے دور میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ایسی سفارتی تقاریب میں سربراہِ مملکت یا وزیراعظم نہیں جایا کریں گے۔ اور اگر پاکستان کی نمائندگی ایسی تقاریب میں ضروری ہو تو ایک آدھ وزیرکا چلے جانا زیادہ مناسب ہوگا۔ وزیراعظم صاحب پھر فرطِ جذبات میں مغلوب ہوکر برطانوی سفارت خانے کیوں پہنچ گئے؟ لیکن یہ فضول کا سوال ہے۔ سوچا جائے تو موجودہ وزیراعظم کا وہاں جانا نہایت موزوں تھا کیونکہ وزیراعظم اور اُن کے وسیع تر خاندان کے برطانیہ سے بڑے گہرے تعلقات ہیں۔ ان کی جائیدادیں وہاں‘ ان کے کئی کاروبار وہاں‘ جسم میں کہیں درد ہو یا کوئی بیماری ہو تو علاج ان کا وہیں ہوتا ہے۔ پناہ لینی ہو تو پسندیدہ ملک ان کا وہی ٹھہرتا ہے۔ شہباز شریف تو وزیراعظم ہوں گے لیکن بڑے بھائی عدالت سے مفروری کے عالم میں بھی لندن میں مقیم ہیں۔ جب بیماری کی بنا پر لاہور سے لندن منتقل ہوئے تھے تو شہزادہ چارلس جو کہ ملکہ برطانیہ کے بیٹے اور جانشین ہیں‘ نے اُن کی عیادت کی۔ بالمشافہ ملاقات نہ ہوئی لیکن مشہورِ زمانہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے نیچے پرنس چارلس تشریف لے گئے اور تحفتاً ایک بوتل شہد کی میاں نوازشریف کو پیش کی‘ جو ظاہرہے اُن تک پہنچائی گئی ہوگی۔ یہ ہوئے نا تعلقات ،اور ایسے تعلقات ہوں تو شکر پڑیاں کی یادگارِ پاکستان ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کی یاد میں منور کیوں نہ ہو؟ اور تقریب میں حاضری دینے وزیراعظم پاکستان برطانوی ہائی کمیشن کیوں نہ جائیں؟
شریفوں کو کیا نشانہ بنانا‘ ہم پاکستانی ویسے ہی انگلستان سے مرعوب رہتے ہیں۔ صاحبِ استطاعت لوگوں نے چھٹیاں منانی ہوں تو انگلستان کا رخ کرتے ہیں۔ جن کی جیبوں میں کچھ مال وغیرہ ہو انہوں نے اولادوں کو تعلیم دلانی ہو تو پہلا انتخاب انگلستان کا ہوتا ہے۔ یہ تو ہم نے دیکھا ہی ہے کہ ہمارے اوپر والے طبقات کے گھروں میں پسندیدہ زبان انگریزی ہے۔ ماں باپ بچوں سے اور بچے ماں باپ سے انگریزی مار رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے سامنے بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور ذرہ برابر ندامت محسوس نہیں ہوتی۔ انگریزوں نے ہم پر حکومت کی‘ بہت کچھ بگاڑ کر گئے لیکن بہت کچھ اچھا بھی کیا۔ البتہ ایک نفسیاتی چھاپ ہم پر چھوڑ گئے۔ حکمرانی کی زبان یہاں پر انگریزی ہے۔ دفتری خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے۔ عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ ہمارے اداروں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔
شریفوں کا تعلق برطانیہ سے البتہ زبان یا کلچر کی بنا پر نہیں۔ ان کے تعلقات کی نوعیت ذرا مختلف ہے۔ جیسے اوپر عرض کیا جائیدادیں مے فیئر میں ہوں‘ جو کہ لندن کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور آپ وزیراعظم پاکستان بھی رہے ہوں تو تعلقات کی نوعیت اور بن جاتی ہے۔ البتہ دلچسپ امر یہ رہے گا کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے موجودہ یا سابقہ صدر یا وزیراعظم کی جائیداد یا رہائش مے فیئر میں نہیں۔ یہ پاکستان کا منفرد اعزاز ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم جو ایک فوجداری کیس میں سزا یافتہ ہیں اور جو عارضی ضمانت پر لندن آئے اور عارضی ضمانت کی شرائط توڑ چکے ہیں‘ ٹھاٹھ سے مے فیئر میں مقیم ہیں۔ دقت انہیں وہاں محض اتنی پیش آئی کہ حالیہ دنوں میں جب پی ٹی آئی والے احتجاج کررہے تھے تو پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے نیچے کھڑے ہوکر ہڑبونگ مچانے کی کوشش کرتے تھے۔ انگلستان جیسے ملک میں یہ شرمندگی کا باعث بنتا ہے کہ ہمسائے کیا کہیں گے کہ یہ کون سے لوگ ہیں جن کے خلاف کرپشن کے نعرے لگ رہے ہیں۔ بہرحال احتجاج ایک دو دن کا ہی ہوتا ہے۔ مے فیئر میں روز پاکستانی کہاں جمع ہوسکتے ہیں۔
بہرحال یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ہم نے انگریزوں کا اتنا ہی اثر لینا تھا تو کچھ اُن کی اچھی باتوں کا اثر بھی لیتے۔ انگلستان میں فٹ بال کے شائقین تو چیختے چلاتے ہیں اور بدتمیزیوں کی انتہا بھی پار کر لیتے ہیں لیکن عمومی طور پر انگریز چیخنے چلانے کے عادی نہیں۔ چبھنے والی بات بھی کریں تو دھیمے انداز سے کرتے ہیں۔ گفتگو کا ڈھنگ اُنہیں آتا ہے۔ ہمارا عمومی مزاج ایسا ہے کہ بغیر چیخنے چلانے کے ہم بات کر نہیں سکتے۔ جسے گفتگو سمجھا جاتا ہے یعنی اپنی بات مختصر انداز سے کرنا اور پھر اگلے کی بات سننا‘ وہ ہمارے مزاج کا حصہ نہیں۔ ہم فنِ تقریر کے ماہر ہیں۔ بات لمبی کرتے ہیں، اپنے آپ کو دہراتے ہیں اور بولتے جاتے ہیں۔
یہ تو چلیں ایک بات رہی۔ انگریزوں نے ایک رواداری پر مبنی معاشرہ بنایا ہے۔ لندن جائیں‘ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا فرد یہاں موجود ہے۔ جس کا جو جی چاہے اُس انداز سے زندگی گزار سکتا ہے۔ کپڑے مرضی کے پہنے جاتے ہیں‘ کوئی دیکھتا بھی نہیں۔ ہر مذہب کی عبادت گاہ وہاں موجود ہے۔ احتجاج کے دوران مسلمان کبھی سڑکوں پر آئیں اور عبادت کا کوئی فرض ادا کرنا چاہیں تو وہاں حکام یا پولیس اُنہیں موقع فراہم کرتے ہیں۔ بس یہی پولیس کا کہنا ہوتا ہے کہ دوسروں کیلئے کوئی عذاب نہ بنیں۔ یہاں انگریزی بولنے میںہم فخر محسوس کرتے ہیں لیکن معاشرہ ہم نے ایسا بنا ڈالا ہے جس میں رواداری نام کی چیز دور دوردکھائی نہیں دیتی۔ جب تک ایک دوسرے کے گلے نہ پڑیں چین نہیں آتا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر ہنگامے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مذہب اور فرقے کے نام پر لڑائیاں ہوتی ہیں‘ قتل و غارت ہوتی ہے۔ انگلستان کی نفسیاتی چھاپ ہمیں مبارک ہو لیکن کوئی اچھی چیز بھی ہم انگریزوں سے سیکھ سکیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے انگریز کو آپ راستہ دیں وہ شکریہ کا سلام آپ کو دے گا۔ سڑکوں پر جو زیبرا کراسنگ ہوتی ہے وہاں کوئی آدمی کھڑا ہو‘ گاڑیاں آ کے رک جاتی ہیں‘ چلنے والوں کو راستہ دینے کیلئے۔ ہمارے ہاں کی سڑکوں کی حالت ہمیں پتا ہے۔ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ ہماری تہذیب بڑی پرانی ہے۔ ضرور پرانی ہے لیکن اس کا اثر ہم پر کیا پڑا ہے؟
لیکن سب چلتا ہے۔ ہماری انگریزیاں بھی رہیں گی اور ہماری جہالت بھی۔ مقصود چپڑاسی آئیں گے اور بیچارے چلے جائیں گے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved