تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-06-2022

بھارتی ترجمان کی ہرزہ سرائی

''میرے آقاﷺ کا نامِ نامی ہی اتنا مبارک ہے کہ اس لکھے نام کو چمکانے اور سجانے سے ہی نصیب سنور جاتا ہے۔ اس راز سے آگاہی مجھے ملتان کے حسین آگاہی بازار سے ہوئی۔ وہاں قرآن اور سیرت کی کتابوں کی ایک دکان ہے۔ یہ 1999ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں ملتان ڈویژن کی سپیشل مانیٹرنگ ٹیم کا انچارج تھا۔ میری گاڑی کے آگے پیچھے ہوٹر بجاتی، لال نیلی جلتی بجھتی بتیوں والی گاڑیاں‘ ہٹو بچو کے نعرے مارتی مخلوقِ خدا کی تحقیر کرتی پھرا کرتی تھیں۔ ادھر میں دل ہی دل میں شرمندگی کی تصویر بنا گاڑی میں ڈرا سہما بیٹھا رہتا تھا۔ ایک بار میرا قافلہ اُسی بازار میں قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں کی دکان کے آگے سے بھی تمکنت اور تفاخر سے گزر گیا۔ دھول اور غبار کا ایک بادل ادھر اڑا‘میرا فلوس اڑ گیا‘روح لرز گئی۔شام کو میں کپڑے بدل کے‘ اکیلا‘ اپنے اردلی سے سائیکل لے کر اسی دکان پر گیا۔ دکان پر دو نوعمر لڑکے کھڑے تھے۔ انہوں نے میرے دن کے جلوس کو تو دیکھا ہوگا مگر مجھے نہ پہچانا۔
میں اُدھر بیٹھ گیا۔ دکان کے سب شیلف قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں سے لبالب تھے۔ سب پہ مٹی‘ دھول اور غبار تھا۔ اس غبار میں میرے کارواں سے اڑی دھول بھی ہو گی۔ میں لرز گیا۔ جیب سے رومال نکالا اور ایک ایک کتاب اٹھا کے صاف کرنے لگا۔ دکاندار بچے حیران ہوئے۔ میں نے انہیں سمجھا دیا کہ دل کرتا ہے ایسا کرنے کو۔ صاف کرکے کچھ کتابیں خریدوں گا۔ میرا رومال‘ گرد کتابوں کی اڑاتا اور روح میری صاف ہوتی جاتی۔ آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے‘ پھر ٹپک پڑے۔ پہلے بوندا باندی‘ پھر موسلا دھار‘ رومال انہی سے دھویا‘ نچوڑا۔ پھر جو آقاﷺ کے نامِ نامی کو اس گیلے رومال سے چمکایا تو اس نام کی چمک میں آسمان کے ستاروں اور پورے ماہِ کامل کا نور تھا‘‘۔
آنکھوں کو نمناک کرنے اور روح کو وجد میں لانے والا یہ قدرے طویل اقتباس کچھ ہی عرصہ قبل منظرعام پر آنے والی ابدال بیلا کی کتاب ''آقاﷺ‘‘ سے میں نے نقل کیا ہے۔ حبِّ رسول اور عشقِ مصطفیﷺ کے حوالے سے اس طرح کے لاکھوں کروڑوں واقعات دنیا کے سامنے آچکے ہیں اور تاقیامت آتے رہیں گے۔ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا یقینا اپنے پروہتوں اور رہنمائوں سے دلی لگائو ہو گا مگر یہاں تو عشقِ مصطفی کی شان ہی نرالی ہے۔ یہ ہر مسلمان کا عقیدہ بھی ہے اور عمل بھی کہ وہ اپنے ماں باپ اور آل اولاد سے بڑھ کر آقائے دوجہاںﷺکے ساتھ رشتۂ محبت و عقیدت کے ذریعے پیوستہ ہے۔
ہر مسلمان چاہے وہ متقی ہو یا عاصی‘ عام ہو یا خاص‘ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ‘ حاکم ہو یا محکوم‘ عالمِ باعمل ہو یا مومنِ کوتاہ عمل‘ غرضیکہ مسلمان جیسا بھی ہو وہ شانِ مصطفیﷺ میں کی گئی ہر گستاخی سے تڑپ اٹھتا ہے۔ 5جون کو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما نے ہمارے آقا‘ حضرت محمدﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں بڑی دلخراش ہرزہ سرائی کی۔ اس کے یہ کلمات عالمِ عرب میں پہنچے تو آنِ واحد میں سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ عرب عوام نے بھارتی ہرزہ سرائی کی شدید مذمت کی اور انڈین اشیا کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی۔ سعودی عرب‘ قطر‘ کویت‘ عمان اور مصر وغیرہ نے بھارت سے شدید احتجاج کیا اور کئی عرب ممالک نے بھارتی سفراء کو اپنی اپنی وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح مسلمانانِ عالم نے بھی جگہ جگہ اس بھارتی گستاخی کی شدید مذمت کی۔ بھارتی حکومت نے جب امیر عرب ملکوں کی طرف سے بھارتی گستاخی پر یہ ردعمل دیکھا تو اُسے اپنے تجارتی و معاشی مفادات کی فکر لاحق ہوگئی۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنی ترجمان نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطل اور مرد ترجمان جندال کی رکنیت منسوخ کردی۔
آئے روز بھارت میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہوتی ہے‘ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے اور اُن کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں اسلاموفوبیا کا کوئی چھوٹا بڑا سانحہ یا حادثہ ہو جاتا ہے تو وہاں کے حکمران اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی دل جوئی کرتے ہیں۔ اُن کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور سرکاری سطح پر اُن سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے بھارتیہ جنتاپارٹی نریندر سنگھ مودی کی سرپرستی میں غیرہندو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتی‘ انہیں دھمکیاں دیتی اور اُن کے اسلامی حجاب جیسے شعار کے خلاف انتہا پسند ہندو جتھوں کو بھڑکا رہی ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے ہی نریندر دامورداس مودی مسلمانوں کے قاتل کی شہرت رکھتے تھے۔ فروری‘ مارچ 2002ء میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام اس وقت شروع ہوا جب گودھرا ریل میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں 59 انتہا پسند ہندو ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعہ سے بھارتی مسلمانوں کا دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا مگر ہندوئوں نے اس ریل حادثے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی۔ اُس زمانے میں گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تھے اور اُن کی درپردہ اجازت سے ہی مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔
اُس زمانے میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جو رپورٹیں جاری کی تھیں‘ اُن کے مطابق ان فسادات میں 2000 سے اوپر مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا‘ ہزاروں شدید زخمی ہوئے اور سینکڑوں مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس بھی مسلمانوں کی مدد کو نہ آئی۔ بعدازاں اس واقعے پر ایک صحافی نے جب مودی سے پوچھا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بارے میں اُن کے کیا جذبات ہیں؟ اس سوال کا جو جواب مودی نے دیا تھا‘ ویسا جواب کوئی حکمران تو دور کی بات‘ کوئی سنگدل سے سنگدل شخص بھی نہیں دے سکتا۔ اب بھی بھارت میں اس طرح کے واقعات اکثر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہے کہ بھارت اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ کیا کبھی کوئی حکمران بقائمی ہوش و حواس اپنے وطن کو گہوارئہ امن بنانے کے بجائے بدامنی کا سرچشمہ بنانا پسند کرتا ہے؟ جس ملک میں امن نہ ہو‘ کروڑوں کی تعداد میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جان و مال محفوظ نہ ہو‘ آئے روز اُن کے گھر اور دکانیں جلا دی جائیں‘ نفرت و شدت کی اس چِتا میں بھارتی حکومت اپنی اکثریتی ہندو آبادی کا مستقبل بھی جلا کر بھسم کر رہی ہو‘ جس ملک میں عوام کے لیے روٹی ہو نہ کپڑا اور نہ ہی ان کے سر پر کوئی چھت ہو تو ان حالات میں یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ وہاں کی حکومت اپنی تمام تر توجہ تعمیر کے بجائے تخریب پر دے رہی ہے۔
مسلمان ملکوں اور او آئی سی جیسی تنظیموں کو بھارت پر یہ واضح کر دینا چاہئے کہ وہ اسلام، شعائر اسلامیہ، مقاماتِ مقدسہ اور اکابر اسلام بالخصوص حضرت محمدﷺ کی شان میں کی گئی کسی گستاخی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی بھارت میں ہو یا مغرب میں‘ مسلمان ممالک کی طرف سے اس کی متفقہ طور پر شدید مذمت ہونی چاہئے؛ تاہم مسلمان حکومتوں‘ اداروں اور سکالروں کو مل کر ایک منصوبہ بندی کے تحت ساری دنیا کو شانِ مصطفی ﷺاور مقام مصطفیﷺ کے بارے میں مسلسل آگہی کا اہتمام کرنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved