مجھے اعتراف کرنے دیں‘ مجھے پتہ نہیں تھا کہ ہمارے بچپن کی کہانیوں کے اہم کردار سامری جادوگر کا آخری ٹھکانہ عمان کے خوبصورت شہر صلالہ کے قریب واقع تھا۔سامری جادوگر کا ذکر مسقط میں سمندر کنارے واقع کیفے میں ہوا جہاں دور سمندر پر سورج غروب ہورہا تھا۔اس میز پر امیر حمزہ‘زاہد شکور‘ اور ذیشان بٹ بھی بیٹھے تھے۔ بٹ صاحب کمال کے بندے ہیں۔ وہ کوئی کام کررہے تھے۔ کچھ دیر انہیں وہ کام کرتے دیکھتا رہا اور کہا :بٹ صاحب آپ جنوری یا ستمبر میں تو پیدا نہیں ہوئے تھے؟بٹ صاحب کی آنکھیں پھیل گئیں‘ میں جنوری میں پیدا ہوا تھا‘آپ کو کیسے پتہ چلا؟میں نے کہا: بٹ صاحب ابھی تو یہ نہیں بتایا کہ آپ کے بچے آپ سے تنگ ہوں گے کہ ابا ہروقت ہماری غلطیاں نکالتا رہتا ہے‘یہ کرو وہ نہ کرو‘ کھانا کیسے کھانا ہے‘صفائی رکھنی ہے‘ڈسپلن پر آپ کمپرومائز نہیں کرتے ہوں گے‘ ہر چیز اپنی جگہ پر ہونی چاہیے۔ذیشان بٹ کی آنکھیں مزید پھیلتی چلی گئیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا: بٹ جی بس ویسے ہی مختلف مہینوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی عادتوں‘خوبیوں کمزوریوں بارے شوق سے پڑھتا رہتا ہوں‘ اس طرح مجھے انسانوں کو سمجھنے اور ان سے تعلقات اچھے رکھنے میں مدد ملتی ہے۔میں نے کہا: جتنے اہتمام‘خوبصورتی اور سگھڑ پن سے آپ کام کررہے تھے اس طرح کا مزاج جنوری اور ستمبر میں پیدا ہونے والوں کا ہوتا ہے۔میں نے اگر لوگوں کو ایڈمنسٹریٹو عہدے دینے ہوں تو میں سکارپین‘ کیپری کارن اور ورگو سٹار کے لوگوں کو دوں۔ آپ آرام سے گھر بیٹھیں‘ یہ انتھک لوگ سارا دن آپ کی ٹیم سے پورا کام لیں گے۔اگرچہ بہت لوگ ان کی ہر کام میں Perfection کی اس عادت سے تنگ بھی ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ کب کسی کی پروا کرتے ہیں۔ ان کے اندر بے پناہ انرجی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ صاف ظاہر ہے پھر ایسے لوگ دوسروں کے ساتھ سختی سے بھی پیش آتے ہیں‘ لہٰذا گھر سے لے کر دفتر یا کام کی جگہ پر اکثر میرے جیسے نالائق لوگ ان سے تنگ رہتے ہیں۔میری اس بات پر قہقہہ پڑا۔
بٹ صاحبان واقعی کھلے ڈلے اور خوش خوراک ہوتے ہیں۔ جو بھی زندگی میں بٹ ملا وہ کھلا ڈلا ہی ملا۔ اکثر بٹ صاحبان نے کھانوں کے بلوں سے تنگ آکر اپنے ریسٹورنٹ کھول رکھے ہیں کہ چلیں جب دل چاہا کھا لیا اور بل دینے کی زحمت سے بھی بچ گئے۔ خود بھی کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا۔تبسم بٹ صاحب بھی سال میں دو دفعہ پاکستان کا چکر لگاتے ہیں‘ اپنے ساتھ مرچ مصالحہ‘ گوشت‘ دالیں تک امریکہ سے لاتے ہیں۔ انہیں پاکستانی کی کوالٹی پر اعتماد نہیں۔ خود گھنٹوں کچن میں صرف کر کے کھانے پکاتے ہیں اور پھر دوستوں کو کھلاتے ہیں اور انہیں کھاتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اورمیجر عامر کے بعد تبسم بٹ کو دیکھا ہے جو دوسروں کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔بٹ صاحب کے ہاتھوں بنے سٹیک شاید ہی آپ نے زندگی میں کھائے ہوں۔ ایک دن کہنے لگے: جو خوشی دوسروں کو کھلا کر ہوتی ہے اس سے بڑی خوشی زندگی میں اور کوئی نہیں۔
خیر بات ہورہی تھی سامری جادوگر کی۔زاہد شکور اور امیر حمزہ کہنے لگے: ٹھیک ہے عمان آپ کو اچھا لگا‘ مسقط آپ کو پسند آیا لیکن اگر آپ نے ابھی تک صلالہ نہیں دیکھا تو کیا دیکھا؟میں نے کہا: صلالہ میں ایسا کیا خاص ہے کہ مسقط میں جو بھی پاکستانی ملتا ہے وہ ایک بات ضرور پوچھتا ہے کہ آپ صلالہ گئے ہیں؟امیر حمزہ بتانے لگے کہ یہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ سیاحت کیلئے آتے ہیں۔ وہاں کے سمندر کے ساحل کے علاوہ آبشاریں بھی انسان کو اپنے جادو میں جکڑ لیتی ہیں۔زاہد شکور اچانک بول پڑا کہ جادو سے یاد آیا‘ صلالہ کے قریب ہی سامری جادوگر کی قبر بھی ہے۔سامری جادوگر کا نام سن کر میں چونک پڑا‘ میں نے کہا: وہ سامری جادوگر جس کی ہم نے بچپن میں کہانیاں پڑھی تھیں؟ اس کی چالاکیوں‘ غلط کاموں کی تفصیلات اور عمرو عیار کے ساتھ کئی مقابلے پڑھے۔ مجھے علم نہ تھا کہ مشہور زمانہ جادوگر کی قبر یہاں تھی۔دوست بتانے لگے کہ اب بھی آپ اس کی قبر پر جائیں تو آپ کو وہاں عجیب و غریب ماحول ملتا ہے۔ ایک پُراسراریت کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اگر وہاں جا بھی رہے ہیں تو اکیلے مت جائیں ورنہ ممکن ہے اس پُراسراریت سے آپ ڈر جائیں۔ سڑک سے ہٹ کر اندر جھاڑیوں میں سے ایک سڑک ہے جو اس کی قبر تک جاتی ہے اور ایک طویل قبر آپ کا استقبال کرتی ہے۔زاہد شکور بتانے لگے کہ آج کے زمانے کے جادوگر بھی اسے اپنا گرو مانتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں سارے سامری جادوگر بننا چاہتے ہیں۔ اب بھی پاکستان سے بابا بنگالی ٹائپ جادوگر اپنے تعویذ یہاں بھجواتے ہیں کہ سامری جادوگر کی قبر کے قریب رکھ دیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کے جادو میں اثر پڑے گا۔ سب جادوگر اس کی شاگردی کے شوقین تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جادو کی دنیا میں سامری کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔سامری جادوگر بارے بتایا جاتا ہے کہ اس کے پاس ایسی شیطانی قوتیں تھیں کہ وہ کسی بھی لڑکی یا خاتون کے پائوں کے نشانات دیکھ کر اندازہ لگا لیتا تھا کہ وہ خوبصورت ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کتنی خوبصورت ہے۔ اگر اسے کسی خاتون کے پائوں اچھے لگتے اور وہ اندازہ لگا لیتا کہ وہ واقعی بہت خوبصورت تھی تو وہ اس کے قدموں کے نشانات پر ہی جادو کرتا تھا۔ اس کے جادو میں اتنا اثر تھا کہ جو بھی خاتون وہاں سے گزری اور اپنے قدموں کے نشانات پیچھے چھوڑ گئی ہوتی تھی ‘ وہ الٹے پائوں واپس سامری جادوگر کے پاس پہنچ جاتی تھی۔جب یہ بات دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہوئی کہ یہاں ایک ایسا جادوگر ہے جو نوجوان لڑکیوں کے پائوں کے نشانات دیکھ کر ان پر جادو پھونک کر انہیں اپنے پاس بلا لیتا ہے تو والدین بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کریں۔ کیا لڑکیوں کو باہر بھیجنا بند کردیں۔ اس وقت دیہات میں جوتے پہننے کا رواج نہ تھا۔ اکثر لوگ پیدل ہی بازاروں کو جاتے تھے۔پھر کسی سمجھدار ماں کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ اپنے درزی کے پاس گئی اور اسے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کیلئے ایسا لباس تیار کرے جو چلتے وقت اس کی بیٹی کے قدموں کے نشانات پیچھے سے مٹاتا جائے۔ یوں لڑکیوں کی قمیص کے ساتھ ایک لمبی جھالر گھگڑا ٹائپ لگا دی گئی کہ جب وہ چلتیں تو وہ جھالر ان کے قدموں کے نشانات مٹاتی جاتی تھی۔ یوں والدین اپنی بچیوں کے حوالے سے کچھ مطمئن ہوئے کہ اب وہ سامری جادوگر سے محفوظ تھیں کہ اب وہ ان کے قدموں کے نشانات پر جادو نہیں کرسکتا تھا۔
میں یہ پوری دیومالائی کہانی سننے میں اتنا مگن تھا کہ کیفے یا ڈوبتے سورج کا ماحول بھولا ہوا تھا۔ میرے اندر کا بچہ اچانک جاگ گیا جو بچپن میں سامری جادوگر اور عمرو عیار کی کہانیاں سنتا تھا۔ میرے اندر وہی تجسس ابھرا اور میں نے پوچھا : تو پھر سامری جادوگر نے کیا کیا ؟ اس نے لڑکیوں پر جادو کرنے چھوڑ دیے کہ قدموں کے نشانات تو مٹ جاتے تھے؟ پھر وہ خواتین کو ٹریپ کرنے کیلئے کیا کرتا تھا؟زاہد شکور نے ایک لمحے کیلئے مجھے دیکھا اور میرے اس تجسس پر مسکرایا اور بولا: یہ تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔ کسی وقت سامری جادوگر کی قبر پر چلتے ہیں اور اسی سے پوچھتے ہیں۔دور کہیں سمندر میں ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں کے درمیان ایک قہقہہ پھر ابھرا ۔سامری جادوگر کی یہ دلچسپ داستان سنتے سنتے برسوں سے میرے اندر سویا ہوا بچہ اچانک جاگ گیا تھا۔ آخر جادوگر تھا‘کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیا ہوگا حسینائوں کو جال میں پھنسانے کا؟سب میری طرف دیکھ کر مسکرا پڑے جبکہ میں سامری جادوگر کے دیس میں سورج کو تلاش کررہا تھا جو اچانک دور کہیں ہماری نظروں کے سامنے سمندر میں ڈوب گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved