تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     12-06-2022

صلائے آم

امرائی جیسا خوب صورت لفظ بھی لوگ بھولتے جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ آم کا چلن بڑھتا جاتا اور امرائی کا لفظ متروک ہوتا جاتا ہے۔ آم کا باغ یا آم کے درختوں کا جھنڈ امرائی کہلاتا ہے۔ مغلوں اور نوابوں میں تو امرائیاں ان کی شناخت ہوا کرتی تھیںلیکن بات مغلوں اور نوابوں سے شروع نہیں ہوتی ‘وہ تو آم کی تاریخ میں بعد کا حصہ ہیں۔ ایک نامعلوم مصنف کی دلچسپ تحریر کے مطابق سنسکرت لفظ امر سے آم کے لفظ کا آغاز ہوا ہے اور سنسکرت ادب میں یہ چار ہزار سال سے آمر کے نام سے موجود ہے۔ امب ‘انبہ ‘انب وغیرہ سب اسی پھل کے مختلف علاقوں میں مختلف نام ہیں۔ قدیم ہندو رزمیہ داستانوں مہا بھارت اور رامائن میں بھی آم موجود ہے۔ مذہبی عقائد میں بھی اس پیڑ اور اس پھل کے قصے موجود ہیں جیسے رادھا کرشن کے رقص اور شیو پاروتی کی شادی وغیرہ۔
انگریزی میںMangoکا نام تامل زبان سے پرتگیزیوں تک پہنچا۔ تامل میں اسے منگا یا منگائی کہتے ہیں۔پرتگیزوں نے اسے منگا کہنا شروع کیا پھر یہ انگریزی میں آکر مینگو بن گیالیکن ہجرت صرف لفظ نے نہیں کی۔ اس پھل نے اپنی خصوصیات کی وجہ سے جہاز رانوں‘مذہبی سیاحوںاور فوجوں کے ساتھ سفر کیا۔ بدھ بھکشوؤں نے اسے برما‘سیام‘ انڈونیشیا اور فلپائن پہنچایا۔ ہسپانوی اسے میکسیکو لے گئے۔نوآبادیاتی دور میںبحرالکاہل عبور کرکے ویسٹ انڈیز‘ فلوریڈاجہاں جہاں ہسپانوی گئے آم بھی ان کے ساتھ گیا۔ عرب جہاز ران اسے مشرقی افریقہ لے گئے۔ ابن بطوطہ نے موگا دیشو یعنی صومالیہ میں آم کھانے کا ذکر کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 632سے 645عیسوی کے دوران ہندوستان آنے والے سیاح ہوانسانگ نے آم کو پہلی بار بیرونی دنیا سے متعارف کروایا تھا۔ تحقیقی بات تو محققین ہی بتاسکتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ تخمی پیڑ میں قلم لگانے کا آغاز امیر تیمورسے ہوا؛چنانچہ تیمور کے نام سے ایک قلمی آم اب تک موجود ہے۔ مغلوں نے آم کی ٹھیک قدردانی کی۔ یہ ان کا پسندیدہ پھل بن گیا۔اکبر اعظم نے دربھنگہ بہار میں ایک لاکھ درختوں کا باغ لگوایااور آئینِ اکبری میں بھی آم کی اقسام اور ان کی خصوصیات موجود ہیں۔ دہلی کے لال قلعے میں باغِ حیات بخش کے نام سے امرائی میں نے بھی دیکھی ہے۔ سنا ہے کہ اس میں بعض درخت خاص تھے اور صرف بہادر شاہ ظفر اور خاص امراء تک ہی ان کا پھل پہنچ سکتا تھا۔حیدر آباد دکن بھی اس معاملے میں لکھنؤ‘ فیض آباد‘ ملیح آباد سے پیچھے نہیں تھا اور ایک زمانے میں بادشاہوں‘ مہاراجوں‘ شہزادوں‘ نوابوں اور امراء کی شان و شوکت امرائیوں سے بھی خاص تھی۔ بات صرف اتنی نہیں تھی کہ امرائیاں کس کی زیادہ اور وسیع ہیں۔ اصل مقابلہ یہ تھا کہ کس کی امرائی میں آم کی کون سی خاص قسم پائی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خفیہ دوڑ لگی رہتی تھی۔ اس ثقافت کا پورا منظر دیکھنا ہو تو اردو کے باکمال نثر نگار جناب ابوالفضل صدیقی کا افسانہ'' گلاب خاص‘‘ پڑھ لیجیے۔
دنیا میں بے خبر لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ وہ بھی موجود ہیں جو بس آم کا پھل پہچانتے ہیں‘ باقی نہ اس کی ا قسام سے انہیں غرض ہے نہ ذائقے سے۔جو لوگ گلاب اور گوبھی کے پھول میں فرق نہیں سمجھتے ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے ‘تاہم اکثر لوگ آم کی چند ایک قسموں کے نام جانتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ آم کی 1500قسمیں کسے معلوم ہوسکتی ہیں؟ صرف ہندوستان پاکستان میں ایک ہزار سے زائد اقسام ہیں۔ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ درج ذیل ناموں میں سے بہت سے نام میری طرح آپ نے بھی کبھی سنے نہیں ہوں گے۔ قلمی آموں میں: بھورا‘ سندھڑی‘ کالا سندھڑی‘ دوسہری‘ الفانسو‘ ثمر بہشت‘ طوطا پری‘ سبز‘ انور رٹول‘ چونسہ‘ دل آرام‘ سرولی‘ ثریا‘ پونی‘ حبشی سرولی‘ لنگڑا‘ دوسی ولین‘ کلکٹر‘ سورانیکا‘ بادام‘ نیلم‘ بھرگڑی‘ سفید الماس‘ زہرہ‘ شا سندر‘ زعفران‘ جبل پوری‘ جاگیردار‘ شہنشاہ‘ انمول تیمور لنگ‘ حسن آراء‘ آب حیا ت‘ لکھنوی‘ اکھلوی‘ نیلم‘ رومانی‘ بیگن پلی‘ فضلی‘ زرد آلو‘ آٹری‘ مال خورد‘ کیسر‘ راجہ پوری‘ جمعدار‘ بے نشان‘ ملغوبہ‘ (مال گوا)‘ تیموریہ‘ شربتی‘ گلاس‘ نورس‘ رس گولہ‘ شکر گٹھلی‘ راتول‘ منجیرہ‘ امر پالی‘ لاکھا باغ‘ لیلیٰ مجنوں‘ فجری کلاں‘ گلاب خاص اور دیگر نام ہیں جبکہ دیسی آم میں پتاشہ‘ لڈو‘ گلاب جامن‘ سفید گولا‘ سبز گولا اور سندوری وغیرہ شامل ہیں۔ پھر یہ کہ ہم کچھ نام لے کر مزے سے گزر جاتے ہیں۔ آموں کے یہ نام پڑے کیسے۔ یہ خود ایک مزے دار تحقیق ہے۔ بھارت کا سب سے مشہور اور مہنگا آم الفانسو دراصل ایک پرتگالی جنرل Afonso de Albuquerqueکے نام پر رکھا گیا تھا۔ لنگڑا آم کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے انڈیا کے ماہر نباتات حاجی کلیم اللہ خان بتاتے ہیں کہ آج سے ڈھائی تین سو سال پہلے بھارت کے شہر بنارس میں ایک لنگڑا کسان آموں کا بڑا شوقین تھا۔ وہ مختلف آموں کی بہترین افزائش کرتا اور اس کے باغ سے طرح طرح کے آموں کی پیداوار ہوتی۔ یہ کسان اپنے یار دوستوں میں لنگڑا کے نام سے مشہور تھا۔ جب اس کے آم کی شہرت آس پاس کے علاقوں میں پھیلی تو لوگ اس آم کو بھی لنگڑا کہنے لگے۔ انور رٹول کی بات بھی دلچسپ ہے۔انوارالحق نامی زمیندار نے یہ آم بھارتی ریاست یوپی کے علاقے رتاول میں لگایا تھا۔بھارت میں یہ آم انور رتاول کہلاتا تھا لیکن پاکستان میںیہ انوررٹول کے نام سے بہت مقبول ہے۔ سندھڑی آم اپنی مٹھاس‘ خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ سندھڑی آم کی تاریخ ایک سو سال پرانی ہے۔ جس کی ابتدا 1909ء میں ہوئی۔ جب انڈیا کے شہر مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے چار عدد پودے منگوا کر دو پودے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد جناب دین محمد جونیجو کو دیے گئے‘ دو پودے مقامی زمیندار کو دیے‘ اس آم کا نام سندھڑی رکھا گیا۔فلوریڈا کی ورائٹی سنسیشن (مقامی نام لال بادشاہ) بھی تیزی سے متعارف ہورہا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے آموں کے سیزن کے بعد دسمبر جنوری میں پک کر تیار ہوتا ہے۔اور درخت سے اترنے کے بعد بھی دیر تک خراب نہیں ہوتا۔لیکن آموں کے عاشقوں کیلئے سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور مقامی باغبانوں نے آموں کے کچھ ایسے درخت کاشت کیے ہیں جو سال میں دو سے تین بار فصل دیں گے‘ جس کے بعد آئندہ چند برسوں میں انشاء اللہ پورا سال آم دستیاب ہو گا ان آموں کی اقسام کوسدا بہار‘ بارہ ماہی‘ مہران‘ بھرگڑی اور سرخ طوطا پری کے نام دیے گئے ہیں۔
کیا کیاشیخیاں دیکھیں آم نے نوابوں اور امراء کی۔ پھر کیا کیا شوخیاں دیکھیں شاعروں اور اہلِ قلم کی۔ جیسے خامہ نخل ِرطب فشاں ہوجائے۔ اقبال نے آموں کے تحفے پر اکبر الہ آبادی کو کیا کمال کی رسید بھیجی ؎
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
اوروہ کیا مزے کا واقعہ ہے کسی حکیم صاحب کا جو آم کے عاشق تھے۔کوئی مریض آیا جو خود آم کے گرویدگان میں سے تھا۔حکیم صاحب نے دوائی دی اور کہا کہ اس موسم میں میٹھے پھلوں سے پرہیز کرنا ہے۔ مریض نے کہا ''حکیم صاحب ! کیا آم بھی نہیں؟ بولے '' کہا تو ہے۔ میٹھے پھل سب منع ہیں‘‘۔ وہ پھر بولا: '' حکیم صاحب ! کیا آم بھی ؟‘‘۔ حکیم صاحب آم سے اپنے عشق کی وجہ سے یہ لفظ زبان پر لانا نہیں چاہتے تھے۔جھنجھلا کر بولے ''کم بخت !اب کیا کفر بکوں؟‘‘
حضرتِ غالب ! کمال قصیدہ کہا آپ نے آموں کا۔ بس اتنا ہے کہ یہ قصیدہ اصل میں پھلوں کے بادشاہ کاہے یا دہلی کے بادشاہ کا۔ یہ فیصلہ مشکل ہے۔ سچ بہرحال یہی ہے کہ بادشاہ وہ ہے جو پانچ ہزار سال سے تخت نشین ہے اور اس کی معزولی کسی ''میجر ہڈسن‘‘ سے ممکن نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved