چھ جون کو خیبر پختون خوا کے 26اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی قیادت میں صوبہ بھر کی انتظامی مشینری نے ہڑتال کرکے نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ڈپٹی کمشنرز کا احتجاج اسی حکومت کے خلاف تھا جس کا چہرہ وہ خود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پشاور انتظامیہ نے صارفین کو تیل کی عدم فراہمی پہ ایک ایسے پٹرول پمپ کے خلاف ریڈکی جہاں خریداروں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں‘ وہیں کسی وکیل کی ایک بڑے افسر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی جس کی پاداش میں اسے گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالا اورحوالات میں بند کر دیا گیا‘ اس تشدد کی مبینہ وڈیو جب وائرل ہوئی تو یہ طبقہ غصے میں آ گیا‘ ردعمل کے طور پر اس طبقے کی طرف سے ایک بڑے سرکاری دفتر پہ دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی گئی لیکن انتظامی اتھارٹی نے کارِ سرکار میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بجائے ہڑتال کرکے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنا ضروری سمجھا۔ اب اگر وہی افسران ‘ جو حکومتی امور کی انجام دہی کا بنیادی ٹول ہیں‘ خود ہڑتال پہ ہوں گے تو پھر عام شہری داد رسی کے لیے کہاں جائے گا؟ واضح رہے کہ یہ وہی حکومت ہے جس کے وزیراعلیٰ نے چند دن قبل جلسۂ عام سے خطاب کے دوران ایک سیاسی مارچ کیلئے سرکاری فورس کے استعمال کا عندیہ دیا تھا‘ یہ رجحان ایک ایسی طوائف الملوکی کی طرف اشارہ کرتا ہے‘ جس کی تائید اُن انتظامی افسروں کی ہڑتال سے ہوتی ہے جنہیں نظم و ضبط قائم کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہے۔ اوپر بیان کردہ صرف یہی دو واقعات ہمیں اس امر کا یقین دلانے کے لیے کافی ہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور انتظامی اتھارٹی زیادہ دیر تک مملکت پہ کنٹرول نہیں رکھ پائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ذیشان انتظامی افسر اتنی بھاری تنخواہیں اور غیرمعمولی مرعات‘ دفاتر کی تالا بندیوں اور قلم چھوڑ ہڑتالوں کے لیے لیتے ہیں‘ اگر ان کے لیے فرض کی ادائیگی ممکن نہیں رہی تو وہ ہڑتال کی بجائے نوکری چھوڑ دیتے تو یہ طرزِ عمل زیادہ باوقار ہوتا بصورت دیگرسرکاری نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی پاداش میں صوبائی حکومت خود انہیں ملازمت سے برطرف کرکے حقِ حاکمیت ادا کرتی مگر افسوس کہ دونوں‘ سیاسی اشرافیہ اور انتظامی افسران‘ کوئی اخلاقی برتری قائم دکھانے میں ناکام رہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد جب ہماری سول بیوروکریسی جوابدہی کے کڑے نظام سے باہر نکل کر حکمرانی کے نشہ سے سرشار ہونے لگی تو اس میں تساہل اور تفاخر جیسی منفی خصوصیات پیدا ہو گئیں اور انہی دو قباحتوں کی وجہ سے وہ فرض کی ادائیگی میں غفلت کے علاوہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کی افزائش جیسا بنیادی کام بھی بُھلا بیٹھی، اسی رجحان نے پچاس برسوں میں ہمارے انتظامی ڈھانچے کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا‘ لیکن اس سب کے باوجود 1998ء تک امن و عامہ کی ذمہ داری کے باعث ڈپٹی کمشنرکا ادارہ کسی نہ کسی حد تک فعال و کارآمد تھا تاہم پرویز مشرف کے دور میں مغربی دنیا کی ترغیب پہ ضلعی سطح کی مؤثر انتظامی اتھارٹی کو توڑ پھوڑ کے ضلعی حکومتوں کا ایسا مہمل نظام تخلیق کیا گیا جو بالآخر ضلعی سطح کے انتظامی ڈھانچہ کے مکمل انہدام پہ منتج ہوا۔ 2001ء میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت پہلی بار منتخب ضلعی ناظمین کو قیام امن کے لیے ناکافی انتظامی اختیارات دیکر پولیس اور ڈی سی اوز جیسے گھاگ افسران کو ان کے ماتحت کر دیا گیا‘ جنہیں وہ اپنی کم مائیگی اور ناتجربہ کاری کے باعث کمانڈ نہ کر سکے‘ جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں انتظامی بحران پیدا ہونے لگا جسے سنبھالنے کی خاطر 2005ء میں دوسری بار لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء میں ترمیم کرکے ضلعی ناظمین کے اختیارات مزید کم کر دیے گئے‘ یوں پندرہ بیس برسوں میں یہ نوتشکیل کردہ سسٹم تو متروک ہو گیا لیکن بوجوہ اپنے ہاتھوں سے منہدم کیا گیا‘ وہ پرانا انتظامی ڈھانچہ اور ڈپٹی کمشنر کا آزمودہ ادارہ دوبارہ بحال نہ ہو سکا جو بدترین حالات میں بھی گورنمنٹ کی رٹ قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا تھا۔ تاریخی دلچسپی کے لیے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نچلی سطح پہ اختیارات کی منتقلی کے نام پہ استوار کیے گئے اس ناکام نظام کے تخلیق کاروں میں جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی اور سابق آئی جی پولیس افضل شگری کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز بھی شامل تھے‘ انہی حضرات نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات کومحدود کرکے عملاً اسے بیکار بنا دیا‘لیکن جب یہی اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوا کرتا تھا تو وہ اسے اپنے دیگر انتظامی اختیارات کے ساتھ جوڑ کر بہتر انداز میں استعمال کرنے کی مہارت رکھتا تھا، اسی آرٹ کی بدولت پورے سرکاری ڈھانچے اورسماجی طبقات پہ حکومت کی گرفت مؤثر رہتی تھی۔ انگریزوں نے سو برسوں میں (1757-1857) ڈپٹی کمشنر کے جس انسٹیٹیوشن کو بتدریج غیرمعمولی اختیارات دے کر استوار کیا تھا‘ اسے تین افراد نے راتوں رات اجاڑ کے ہمارے کثیرالجہت سماج کو ایسے مہمل نظام کے حوالے کر دیا جس کا کامل ادراک خود اس نظام کے خالقوں کو بھی نہیں تھا‘ پہلے چار سال تو پولیس کے سوا ناظمین سمیت دیگر سرکاری اداروں کے افسر خورد بینیں لگا کے اپنے دائرہ اختیار کی حددو قیود تلاش کرنے میں گزار بیٹھے‘ اگلے دورانیہ میں اس پیچیدہ نظام میں ایسی محیرالعقول تبدیلیاں کی گئیں جن کی توضیح لوکل گورنمنٹ ایکٹ بنانے والے ماہرین خود بھی نہیں کرسکتے۔ بہرحال‘ انگریزوں نے اسی ڈپٹی کمشنر آفس کے ذریعے تقریباً 190سال تک ہندوستان پہ مثالی حکمرانی قائم کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران‘ آخری چھ برسوں میں تو ملکہ برطانیہ نے صرف بارہ ہزار گوروں کے ذریعے 30کروڑ ہندوستانیوں کو امن و امان کی فضا فراہم کرنے کے علاوہ ٹیکس وصولی کے نظام کو بھی فعال رکھا، دوسری عالمی جنگ میں جس وقت ہندوستانی افواج جاپان سے لے کر مڈل ایسٹ کے محاذوں میں الجھی ہوئی تھیں تو وائسرائے نے صرف تین دفاتر‘ ڈپٹی کمشنر‘ سپریٹنڈنٹ پولیس اور سول سرجن کے ذریعے نچلی سطح تک قانون کی حکمرانی برقرار رکھی۔ ہمارے موجودہ نظام میں انتظامیہ ایسی وسیع اصطلاح ہے‘ جس میں وزرا‘ سرکاری افسران اورسروسز فراہم کرنے والے ادارے معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانونی اختیارات کوکوآرڈینیٹ کرتے ہیں۔ یہ بات محلِ نظر ہے کہ سول اور فوجداری دونوں قانون بیوروکریٹک اداروں کا احاطہ کرنے کی بجائے زیادہ تر عام شہری کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں‘ لیکن ایک آئینی نظام میں جہاں یہ تسلیم کیا جائے کہ حکومت کی طاقت لامحدود نہیں اور اسے قانونی پابندیوں کے تحت ہی استعمال کیا جا سکتا ہے‘ اس میںانتظامیہ لازماً ان پابندیوں کی اسیر رہے گی جو آئین نے متعین کی ہیں‘ یعنی وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں‘ بشمول ایگزیکٹو اتھارٹی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی‘ درحقیقت‘ ان کا قانونی اختیار استعمال کرنے کا دائرہ آئین کے تحت ان کے لیے مختص کردہ ایسے اختیارات سے جوڑ دیا گیا جس کی تشریح عدالت کرے گی‘ جیسا کہ سپریم کورٹ نے کئی بار وضاحت کی ہے کہ عدلیہ اس امرکو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے کہ حکومت آئین کی اطاعت کرے‘ کوئی بھی ایسا انتظام جس میں معاملات کو ایگزیکٹو کی صوابدید پر چھوڑا جائے گا وہ اس آئین سے متضاد ہو گا۔ تاہم ایک متبادل نظریہ بھی موجود ہے‘ جس کے مطابق انتظامی ریاست کا کردار عدلیہ کے تشریح کردہ آئینی قواعد پر عمل کرنے تک محدود نہیں ہوتا‘ جیسا کہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں رائج ہے‘ یہ نظریہ ''انتظامی آئین سازی‘‘ کے مطابق انتظامیہ کو آئینی معاملات میں مرضی کے ساتھ اپنی ہیئت مقتدرہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ انتظامی آئین سازی کے نظریہ میں نہ صرف انتظامی اداروں کے ذریعہ آئینی تقاضوں کا اطلاق بتایا گیا بلکہ اس میں انتظامی اداروں کے ذریعہ نئی آئینی تفہیم کی وضاحت بھی شامل کی گئی‘ جو انتظامی فیصلوں کے ذریعے قوانین کی تشریح کی روایات قائم کرتے ہیں جیسے برطانیہ کا آئینی نظام فروغ پذیر رہا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر انتظامی فیصلہ ساز کا کردار اس بات کا تعین کرنے کے لیے کافی ہے کہ کون سے چارٹر کی اقدار اس کے مینڈیٹ سے متعلق ہوں گی اور اُن اقدار کو اس کے پالیسی مینڈیٹ کے تحت کیسے متوازن کیا جائے‘ عدالتوں کو‘ دوسرے لفظوں میں‘ انتظامی ریاست کی طرف سے کیے گئے آئینی فیصلوں میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے‘ کم از کم اس وقت تک جب تک کہ یہ فیصلے کچھ مطلوبہ صفات کے حامل ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved