تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     12-06-2022

قانون اور مذہب۔ شہری سے انسان تک

بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ کا ایک انٹرویو آک کل بہت مقبول ہو رہا ہے۔ اگرچہ بھارت مکمل طور پر مغربی اور امریکی مفادات اور پالیسیوں کے تحت نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ چین کے ساتھ بھی جنگی کیفیت پیدا کیے ہوئے ہے‘ لیکن اس انٹرویو میں انہوں نے کچھ بہت اہم باتیں کیں۔ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ یورپ اپنے کسی بھی مسئلے کو عالمی مسئلہ سمجھتا ہے‘ لیکن باقی دنیا کے کسی مسئلے کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا۔ اسی طرح بہت عرصہ پہلے‘ سوشل میڈیا پر ایک مشہور بھارتی سابقہ فوجی افسر نے ایک انٹرویو میں ایک بہت معنی خیز فقرہ بولا تھا۔ اس نے کہا: جب تک امریکہ کے اندر مسائل نہیں ہوں گے دیگر دنیا مسائل کا شکار رہے گی۔ ان دونوں حضرات کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج امریکہ کے اندرونی‘ استحکام اور مسائل پر بہت معنی خیز باتیں گوش گزار کی جائیں گی۔ ان باتوں کا بنیادی نقطہ امریکہ کے اندر بڑھتے مسائل ہیں‘ بالخصوص اندرونی صورتحال کے بگاڑ میں کسی بیرونی طاقت کے کردار کی موجودگی کا ہونا۔
سب سے پہلے آپ کو ایک بات پر تھوڑا غور کرنا ہوگا جس پر میڈیا‘ مطلب خود امریکی میڈیا میں بھی غور نہیں ہوتا‘ اور وہ بات ہے امریکہ میں ہونے والے فائرنگ کے ایسے واقعات جن میں بہت سارے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں بہت دفعہ فائرنگ کرنے والا آخر میں خود کشی بھی کر لیتا ہے۔ ان واقعات کے متعلق عالمی ادارے یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ پوری دنیا کے ان واقعات‘ جنہیں Mass Shootingکہا جاتاہے‘ کا 70فیصد سے زیادہ صرف امریکہ میں ہوتے ہیں۔ فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے بیشتر نہیں‘ تقریباً تمام واقعات سفید نسل کے مرد حضرات نے کیے ہے۔ ان واقعات کی تاریخ کے مطابق 1981سے لے کر 2011تک ایسے واقعات کی تعداد‘ دو سو دنوں میں ایک واقعہ کی اوسط کے برابر‘ مطلب نہ ہونے کے برابر تھی مگر 2011سے لے کر 2014کے درمیان کا حساب بہت خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے ہر 64دن میں ایک واقعہ کی اوسط پر آگیا‘ مطلب تین گنا سے بھی زیادہ ہو گیا۔ لیکن اگر آپ موجودہ اعدادو شمار کی بات کریں تو رواں سال اب تک امریکہ میں 27 ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسے واقعات بلاشبہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے اور ان واقعات کی تعداد اور شرح دونوں بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ آپ کو بھی شاید یہ حقائق ناقابلِ یقین معلوم ہو رہے ہوں گے‘ لیکن اگر آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو آپ کو ان واقعات کے بعد امریکہ کے لیے اندرونی سلامتی کو لاحق خطرے کا پتہ چل جائے گا‘ لیکن چونکہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے‘ اس لیے میڈیا کے اندر بھی ان واقعات کا ذکر امریکی مرضی کے مطابق ہی ہوتا ہے‘ اس لیے یہ ذکر بہت کم ہوتا ہے۔
اب اگر آپ کو یاد ہو تو پچھلے سال امریکہ میں ایشیائی لوگوں کیساتھ ہونے والے پُرتشدد واقعات کے خلاف ایک مہم چلی تھی۔ اس مہم کا نعرہ Stop the asian hate تھا۔ تشدد کی اس لہر میں بہت سارے لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے‘ اس تشدد کا شکار ہونے والے بالخصوص چینی نسل کے منگولین لوگ تھے۔ اس کے علاوہ سیاہ فام لوگوں کی ہلاکت کے جو واقعات سرکاری لوگوں کے ہاتھوں بھی ہوئے تھے‘ ان واقعات کے خلاف ایک عالمی مہم Black lives matterچلی تھی۔یہ مہم آج بھی جاری ہے‘ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو آج بھی کرکٹ کا کوئی بھی عالمی میچ ہو تو تمام کھلاڑی ایک گھٹنا زمین کے ساتھ لگا کر اور ایک ہاتھ مُکا بنا کر بلند کرتے ہیں۔ اس موقع پر تمام کمنٹیٹرز بھی اس مہم کے نعرہ کے الفاظ دہراتے ہیں۔ اب یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا‘ لیکن ایک بات بہت اہم ہے کہ جب بھی سیاہ فام لوگوں کے حق میں کرکٹ کے کھلاڑی ایک مخصوص انداز اپناتے ہیں تو لوگوں کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ یہ امریکہ میں ہونے والے نسل پرست واقعات کے خلاف تحریک ہے۔
اب چلتے ہیں ان واقعات کی وجوہات کی طرف تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے میں خدا اور خاندان کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ خدا کے تصور سے مراد مذہبی عقائد ہیں اور امریکی لوگوں کی واضح ترین اکثریت مسیحی ہے۔ اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ امریکی لوگ مذہبی عبادات و رسومات ادا نہیں کرتے بلکہ امریکہ سمیت یورپ کے لوگ بھی ملحد ہو چکے ہیں۔ اسی طرح وہاں پر خاندان کا تصور اور ڈھانچہ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ان دو تصورات کے ختم ہونے کے نتیجے میں وہاں پر شادی کا عمل بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ شادی ہو یا خاندان یا پھر مذہب‘ ان کے متعلق سماجی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ انسان کو انسانیت کا درس اور تربیت دیتے ہیں‘ اسی طرح خدا اور خاندان کا تصور لوگوں کو معاشی مشین بننے سے روکتا ہے اور اگر مکمل طو پر نہ بھی روک سکے تو بھی کم از کم انسان کے اندر انسانیت کا مادہ ضرور زندہ رکھتا ہے۔ اس بات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ خاندان کی اکائی انسان کو مذہب سے جوڑے رکھتی ہے اور جب انسان مذہب کے قریب رہتا ہے تو مذہبی عقائد بھی اس کو خاندان کی اکائی کے متعلق ہدایت دیتے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ خاندان کے افراد جب ایک شخص کو مذہبی عبادت گاہ جانے کی تلقین کریں گے تو کبھی نہ کبھی مذہبی پیشوا بھی اپنے خطاب و ہدایات میں اس پر زور دیں گے کہ اپنے ماں باپ سمیت اپنے خاندان کا خیال رکھیں۔ اس طرح یہ دونوں اکائیاں ایک دوسرے کو جوڑتی ہیں۔ خاندان کی سب سے چھوٹی شکل صرف میاں بیوی کا اپنے بچے یا بچوں کے ساتھ رہنا ہے‘ لیکن مغربی ممالک میں یہ سب سے چھوٹی اکائی بھی اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ان کا بچہ بالغ نہیں ہو جاتا۔ اس صوت حال میں لوگ ایک انجانی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اس کے بعد معاشی دوڑ اسے ایک معاشی مشین بنا کر رکھ دیتی ہے۔ واضح رہے کہ کورونا کے دنوں میں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئی تھیں اور ان اموات کی وجوہات میں بیماری کے علاوہ تنہائی کی وجہ سے لوگوں کا حد سے زیادہ شراب پینا اور خود کشی کرنا بھی شامل تھا۔
جہاں تک بات رہی اس طرح کے واقعات میں کسی غیرملکی طاقت کی پلاننگ یا سازش کی‘ تو دو دن پہلے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی خبر میرے سامنے پڑی ہے۔ اس خبر کے مطابق امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے خبردار کیا ہے کہ آنیوالے چند ماہ کے دوران امریکہ میں پُرتشدد واقعات میں بہت تیزی آسکتی ہے۔ امریکی سرکاری ایجنسی نے ایک طرح کی تھریٹ جاری کرتے ہوئے روس‘ چین اور ایران پر الزام بھی عائد کیا ہے۔ اس ایجنسی کے مطابق اس طرح کے واقعات میں اُن ممالک کی حکمت عملی اور معاونت شامل ہو سکتی ہے۔ اب اس الزام کا ابھی تک کسی نے جواب تو نہیں دیا لیکن اگر یہ بات کسی کم ترین حد تک بھی صحیح ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ جیسا طاقتور ملک اپنے وسائل پوری دنیا کی حکومتوں کو بنانے اور گرانے کی بجائے اپنے اندرونی معاملات پر وقف کیوں نہیں کرتا؟ امریکہ کو یہ سوچنا ہوگا کہ خدا اور خاندان کا تصور محض شخصی آزادی کے نام پر ختم نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح آزادی اور بے لگامی میں فرق کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی ہو یا عسکری یا پھر سیاسی‘ اس کے تاوان کے طور پر انسانیت کو نہیں گنوانا چاہیے، بصورت دیگر تمام ترقیاں تباہی ہوتی ہیں۔
امریکہ کو دو باتوں پر غور کرنا ہو گا کہ وسیع پیمانے پر فائرنگ کے واقعات صرف وہیں اتنے زیادہ کیوں ہیں‘ جبکہ اس طرز کی حکومتیں اور معاشرے یورپ میں بھی ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹرمپ والے‘ مبینہ‘ روس کے ہاتھوں ہیک الیکشن کی طرح ان کا معاشرہ بھی تو ہیک نہیں ہو چکا؟ دوسر بات ایک حقیقی اصول ہے‘ جو یہ بتاتا ہے کہ قوانین ایک اچھا شہری پیدا کرتے ہیں جبکہ وہ شہری ایک اچھا انسان مذہبی عقائد ہی سے بنتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved