مالی سال 23-2022کا 95کھرب 2ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش ہو چکا ہے‘ جو گزشتہ مالی سال سے 10کھرب 15ارب روپے زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502ارب روپے ہے اور ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004ارب روپے ہے۔ صوبوں کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904ارب روپے ہوگا۔ نان ٹیکس ریونیو میں 2000ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے۔ 3950ارب روپے قرضہ جات کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے 800ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دفاع کیلئے 1523ارب روپے مختص ہوئے۔ پنشن کی مد میں 530ارب‘ ایچ ای سی کیلئے 65ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گے۔ پنشن کی مد میں 530ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد مبینہ طور پر اگلا مرحلہ بحث اور ایوانوں سے منظوری لینے کا ہے لیکن میرے مطابق ابھی آئی ایم ایف سے بھی منظوری لینا باقی ہے۔ سرکار اسے عوام دوست اور ریلیف بجٹ کا نام دیتی دکھائی دیتی ہے۔ خصوصی طور پر تنخواہ دار طبقے کی 6لاکھ روپے تک آمدن کو ٹیکس فری قرار دیا گیا ہے اور 6لاکھ سے 12لاکھ روپے تک کی آمدن پر سو روپے ٹیکس لگایا گیا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں اس تجویز کا ذکر کیا تھا۔ کم تنخواہوں پر ٹیکس ریٹ کم کر کے اسے ریلیف کا نام دینا نامناسب دکھائی دیتا ہے۔ خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ہفتے میں 60روپے اضافہ کر دیا گیا ہو‘ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7روپے 91پیسے اضافے کی منظوری دے دی گئی ہو اور پٹرولیم لیوی کی مد میںمزید 720ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی تجویز ہو۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بھی نئے ٹیکسز لگانے کی تجویز دی گئی ہے‘ جس کے مطابق وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد پاکستان میں موجود ہے اور جس کی مالیت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے‘ اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5فیصد کے برابر فرضی آمدن/ کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد ٹیکس کی شرح مؤثر ہوگی۔ تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔ غیر منقولہ جائیداد کے کیپیٹل گین پر ایک سال ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں 15فیصد ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز ہے جو ہر سال ڈھائی فیصد کی کمی کے ساتھ چھ سال کے ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں صفر ہوجائے گا۔ ٹیکس فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھاکر 2فیصد جبکہ نان فائلرز کیلئے یہ شرح 5فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صاحبِ حیثیت لوگ رئیل سٹیٹ میں سرمایہ نہ لگائیں تو دوسرے کس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ صنعتوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے‘ بجلی اور گیس کی قلت کے باعث صنعتوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کم ہیں۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ ڈالرز خریدنے میں صرف ہو سکتا ہے‘ جس سے ڈالر کا ریٹ مزید بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینلز کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے مل سکیں گے۔ اس سے درآمد شدہ مہنگے تیل اور گیس کے استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔ یہ فیصلہ حوصلہ افزا دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا فائدہ اسی وقت ہو سکے گا جب اس پالیسی پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو۔ ماضی میں بھی سولر پینلز کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اس پر دوبارہ ٹیکس لگا دیا گیا۔ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں شوبز انڈسٹری کو بڑا ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق 2018کی فلم و کلچر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے فلم کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک ارب روپے سالانہ کی لاگت سے بائنڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کیا جارہا ہے جبکہ فنکاروں کیلئے میڈیکل انشورنس پالیسی شروع کی جارہی ہے۔ فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالی ڈے‘ نئے سنیما گھروں‘ پروڈکشن ہاؤسز اور فلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کیلئے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جبکہ سنیما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیے جانے کی تجاویز ہیں۔ شوبز انڈسٹری خوش دکھائی دیتی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس سے ثقافت بھی پروموٹ ہو سکے گی اور روزگار بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
ریٹیل سیکٹر میں دکانوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ جو کہ بجلی کے بلوں میں لگا کر وصول کیا جائے گا۔ جو کہ معاشی اصولوں کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس ان کی آمدن کی بنا پر لگایا جانا چاہیے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ 6/6 کی ایک دکان 12/12 کی دکان سے ذیادہ منافع کما رہی ہو۔ اس کے علاوہ زراعت سے متعلق مشینری اور بیج کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ یوریا پر بھی سبسڈی دینے کی تجویز ہے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد کی صورت میں کسان کو ریلیف مل سکتا ہے۔
اس کی علاوہ سرکار نے ایک مرتبہ پھر وہی پرانا فارمولا استعمال کیا ہے۔ جو باعزت پاکستانی اپنی آمدن ڈکلیئر کرتے ہیں اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ انہی پر دوبارہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ٹیکس بیس بڑھانے کی بجائے ٹیکس دہندگان پر ٹیکس ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ حکومت ٹیکس ریٹ بڑھانے کی بجائے یہ پالیسی دیتی کہ ہم کس طرح ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر کے 7004ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت کے پاس پچھلے سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کا منصوبہ نہیں تھا۔ مجبوراً آئی ایم ایف کو منی بجٹ کے ذریعے تقریباً 375ارب روپے کے ٹیکسز لگانا پڑے تھے۔ خدشہ ہے کہ پرانی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ تقریباً نو ارب ڈالرز تک محدود کیا جائے گا۔ یہ جملہ سننے میں تو بہتر محسوس ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عملاً ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے ایک ماہ میں تقریباً 40ہزار فیکٹریاں بند ہوئی ہیں‘ جس کے باعث برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ درآمدات ریکارڈ سطح تک بڑھ گئی ہیں۔ ان میں کمی کیسے واقع ہو گی‘ اس بارے میں بھی کوئی پالیسی پیش نہیں کی گئی۔ درآمدات پر پابندی لگانے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالرز سے نیچے جا چکے ہیں۔ ابھی پاکستان کو گندم‘ کپاس درآمد کرنا پڑے گی‘ جس سے کرنٹ اکاونٹ پر مزید بوجھ پڑے گا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 150ڈالر فی بیرل تک بڑھ سکنے کی اطلاعات ہیں۔ جس کے باعث زیادہ ڈالر ملک سے باہر بھیجنا ہوں گے۔ ان حالات میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے لیے کوئی موثر پالیسی سامنے نہیں رکھی گئی ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ عوام کو وقتی طور پر خوش کرنے کے لیے یہ اعدادوشمار پیش کیے جا رہے ہیں۔ بجٹ دستاویز میں برآمد کندگان کی سہولت کے لیے موثر تجاویز نہیں دی گئیں۔ گو کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے فرمایا ہے کہ برآمد کندگان کے لیے بہترین پیکیج لائیں گے‘ لیکن وہ کب آئے گا اور اس کے خدوخال کیا ہوں گے اس بارے میں وزیر خزانہ تفصیلات بتانے سے گریزاں ہیں‘ جوکہ تشویش ناک ہے۔ کیونکہ پاکستانی عوام کو اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے‘ جس کا بہترین ذریعہ برآمدات میں اضافہ ہے۔ برآمدات کا ہدف تقریباً 35 ارب ڈالر رکھا گیا ہے‘ جو کہ ناکافی دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ موجودہ بجٹ کسی بھی زاویے سے متاثر کن نہیں رہا اور عوام کواس کی منظور ی کے بعد فوراً منی بجٹ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved