قومی ریاست بین الاقوامی نظام میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ اس نے اس عالمی اور علاقائی سیاق و سباق میں تبدیلیوں کے باوجود بین الاقوامی نظام میں اپنی مرکزیت برقرار رکھی ہے جس کے اندر ریاستیں کام کرتی ہیں۔ ریاست اب کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہونے کے اپنے کلاسیکی معنوں میں خود مختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتی اور یہ دعویٰ بھی کہ ریاست سے بالا کوئی طاقتور اتھارٹی نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست ہی واحد ادارہ نہیں ہے جو ہتھیاروں اور طاقت کے دیگر آلات پر اجارہ داری کا دعویٰ کرے۔ ریاست کا کردار جدید انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز سے بھی متاثر ہوا ہے جس نے ریاست کی خود مختاری کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔ ریاستیں انٹرنیٹ پر مبنی مواصلاتی نظام کا استعمال کر کے اپنی فوجیں کسی دوسری ریاست کی علاقائی حدود میں بھیجے بغیر اس کو کمزور کر سکتی ہیں۔ اسی طرح غیر ریاستی کھلاڑیوں کے زور پکڑنے اور ریاست اور دیگر مخالفین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی ان کی صلاحیت نے ریاست کے کلاسیکی تصور کو اضافی چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔
بین الاقوامی تناظر میں ان تبدیلیوں‘ جس کے اندر ریاست کام کرتی ہے‘ کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے اہم عوامل جو ریاست کے کام کرنے کے عمل کی تشکیل کرتے‘ اندرونی یا داخلی عوامل ہیں۔ ریاست کے حکمرانوں کو ریاست کے معاملات اس انداز میں چلانے چاہئیں کہ حکومت اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ قائم ہو۔ یہ اعتماد آبادی کے ایک بڑے حصے کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے بنیادی خدمات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسی ریاست کو شدید اندرونی انتشار کا سامنا کرنے کا امکان نہیں ہوتا۔
افغانستان‘ عراق‘ لیبیا اور شام کی اندرونی انتشار اور بیرونی فوجی مداخلت سے متاثرہ حالیہ تاریخ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت سے سبق پیش کرتی ہے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ ریاست کی اصل طاقت اندر سے آتی ہے اور یہ کہ وہ اندرونی سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام کے بغیر اپنی پسند کی پالیسیوں پر عمل نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی ملک عالمی نظام میں الگ تھلگ ہو جاتا ہے تو بہت سی ریاستیں یا غیر ریاستی عناصر ریاست کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ ریاست کے حکمرانوں کو شہریوں کی رضاکارانہ وفاداری حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ عام لوگوں کو ریاست سے ڈرنے کے بجائے اس کا احترام کرنا چاہیے۔
کسی ریاست کی سلامتی اور استحکام کے لیے داخلی اقتصادی اور سیاسی عوامل کی اہمیت میں اضافہ بنیادی طور پر سرد جنگ کے خاتمے اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔ واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کے عروج کے ساتھ بدلا ہوا عالمی نظام شروع ہوا تھا‘ تاہم 21ویں صدی کے آغاز تک بین الاقوامی نظام میں امریکی بالادستی ختم ہونے لگی۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط تک‘ دو باہم جڑے ہوئے رجحانات عالمی نظام کی نمایاں خصوصیات کے طور پر ابھرے۔ یہ رجحانات بین الاقوامی نظام میں اپنے کمانڈنگ کردار پر زور دینے میں امریکہ کی نااہلی اور عالمی نظام میں طاقت کے متعدد مراکز کا ابھرنا تھا جس نے اس نظام کو ایک بار پھر کثیر قطبی عالمی نظام میں تبدیل کر دیا‘ تاہم اس نظام کا ماضی کے کثیر قطبی نظام سے فرق یہ تھا کہ عالمی سطح پر مضبوط عسکری اور اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود بین الاقوامی نظام کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈھالنے کی امریکہ کی صلاحیت بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ اسے اب طاقت کے ان مراکز سے حمایت حاصل کرنے کی ضرورت رہتی تھی جو عالمی سطح پر ابھرے تھے جیسے یورپی یونین‘ چین‘ جاپان‘ ایشیا پیسیفک کے خطے میں ابھرتی ہوئی معیشتیں اور روس‘ چین کی اقتصادی وابستگی اور اقتصادی سرمایہ کاری کی پالیسی نے افریقہ‘ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے مختلف خطوں میں اس کے سفارتی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا۔
موجودہ بین الاقوامی نظام میں جن ممالک کو اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ ایسے ممالک ہیں جنہوں نے داخلی سیاسی ہم آہنگی اور معاشی استحکام حاصل کیا اور اس استحکام نے ان ممالک کو سرمایہ کاری‘ تجارت‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تربیت یافتہ انسانی طاقت کے منبع میں تبدیل کر دیا۔ جو ممالک ان صفات کو حاصل کرنے میں ناکام رہے انہیں بین الاقوامی نظام کے کناروں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ان ممالک کو داخلی سیاسی و سماجی تنازعات اور معاشی بد حالی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ سیاسی بقا کے لیے دوسرے ممالک سے معاشی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ معاشی بقا کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار نے خود مختار خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی ان کی صلاحیت کو کم کر دیا اور بین الاقوامی نظام میں ان کا اثر و رسوخ کم سے کم ہوتا چلا گیا۔
آئیے عالمی سیاست کے اس سبق کو پاکستان پر لاگو کریں‘ یہ سمجھنے کے لیے کہ پاکستان کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی ایجنڈوں کے لیے حمایت حاصل کرنا کیوں مشکل ہے؟ کیوں پاکستان کو زیادہ تر مسلم ممالک کو ہندوستان کے ساتھ اپنے معاملات اور مسائل کے لیے متحرک کرنا مشکل ہو گیا ہے‘ خاص طور پر کشمیر پر پاکستان کے نقطہ نظر سے متعلق؟ پاکستان کی داخلی صورتحال دو رکاوٹوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے داخلی اور خارجہ پالیسی کے مختلف امور پر آزادانہ فیصلے کرنے کی اس کی صلاحیت کمزور پڑ گئی ہے۔ سیاست بہت زیادہ منقسم ہے اور ایک دوسرے کے مقابل سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے شدید جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں کسی بھی قیمت پر ایک دوسرے کو کمزور کرنا چاہتی ہیں اور ان کے تنگ جماعتی اور ذاتی مفادات باقی تمام معاملات پر غالب آ جاتے ہیں۔ دوسری کمزوری پاکستان کا بیرونی ذرائع پر بھاری معاشی انحصار ہے۔ پاکستان سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مالی قرضوں اور مدد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ حال ہی میں اسے جنوبی کوریا سے ایک بڑا قرض منظور ہوا ہے۔ یہ اقتصادی مدد اور سازگار تجارتی شرائط کے لیے امریکہ اور یورپی ریاستوں پر بھی انحصار کرتا ہے۔ مالی سپورٹ کا ایک اور ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر ہیں۔ اگر پاکستان کی معیشت اپنی بقا کے لیے بیرونی ذرائع پر بہت زیادہ انحصار کرتی رہی تو پاکستان خود کو بین الاقوامی سطح پر ایک کونے میں دھکیل لے گا۔
ایک اور عنصر جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے‘ ریاست کی معاشی اور سماجی پالیسیوں پر عام لوگوں کا بڑھتا ہوا عدم اطمینان ہے۔ جاری افراطِ زر اور مہنگائی نے عوام میں مایوسی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت مہنگائی اور افراطِ زر کو کنٹرول نہیں کر سکی تھی تو نئی حکومت بھی ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عام لوگوں کی سطح پر مایوسی کی یہ کیفیت معاشرے میں سیاسی بیگانگی کا مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔ حکومتی نظام میں عوام کی دلچسپی تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر حکومت کوئی بھی کرے‘ ان کے حالات بہتر نہیں ہوتے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی رہنما پاکستان میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کی سست روی کا ادراک کریں۔ اگر معاشی اور سیاسی صورت حال اسی طرح مسلسل بگڑتی رہی تو پاکستان کو ایک انتہائی مشکل داخلی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے پاکستان کی بیرونی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی‘ اور بیرونی دشمن ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کا محفوظ مستقبل عام لوگوں کی داخلی اقتصادی سکیورٹی اور ملک میں سیاسی اور سماجی ہم آہنگی سے جڑا ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved