تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     13-06-2022

پنڈوکڑی

احباب پنجابی زبان کی شاعری اور شاعروں کا ماتم کر رہے تھے کہ کہ پنجابی زبان و ادب کی کسمپرسی کا کون ذمہ دار ہے؟ اس کسمپرسی کا کوئی بھی ذمہ دار ہو مگر ایک بات تو سچ ہے کہ اس عہد کا پنجابی ادب‘ خواہ وہ کسی صنف میں ہو‘ روحِ عصر سے نابلد اور نا آشنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پنجاب کے بڑے شعرا اور ادبا پنجابی زبان سے قدرے فاصلے پر رہے۔ اپنی ماں بولی کو وہ اہمیت نہ دی جس کی وہ مستحق تھی۔ اردو جدید نظم کو دیکھیں‘ اس کے بانی‘ مبانی اور بنیاد گزار‘ سب پنجابی تھے۔ راشد ہوں یا فیض‘ مجید امجد ہوں یا وزیر آغا‘ اختر حسین جعفری ہوں یا احمد ندیم قاسمی‘ ہر کسی نے پنجاب کے خطے سے ہوتے ہوئے بھی اس زبان سے بے اعتنائی برتی۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے پنجابی زبان کے ادب کی ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ مجید امجد نے محض ایک پنجابی نظم لکھی۔ فیض نے ایسے اس زبان کو برتا کہ ''ربا سچیا توں تے آکھیا سی جگ دا شاہ ایں توں‘‘ کے بعد کسی کے پاس ذکر کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ احمد ندیم قاسمی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ پنجابی میں لکھ رہے ہیں اور وہ قارئین کو مایوس نہیں کریں گے مگر:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ایک آدمی ان سارے پنجابی شاعروں کا قرض ادا کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا مگر مقام شکر ہے کہ بابائے غزل ظفر اقبال کا پنجابی کلیات ''پنڈوکڑی‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ان میں ظفر اقبال کا کل پنجابی کلام موجود ہے جو تین مجموعوں ہرے ہنیرے‘ بکل اور ککڑ کھیہ پر مشتمل ہے۔ ہرے ہینرے کافی دیر سے نایاب تھی اور دوسری دو کتب اس کے بعد کی تخلیق ہیں۔ یہ ایک ضخیم کلیات ہے‘ جو تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا انتساب پنجابی زبان کے بڑے شاعر نجم حسین سید کے نام ہے۔ ظفر اقبالؔ کا اردو غزل کا اسلوب تو الگ ہے ہی‘ ان کی پنجابی غزل بھی ان کی اردو غزل سے کسی طور کم نہیں۔ ہرے ہنیرے ان کے ماسٹر پیس گل آفتاب کا پنجابی ورژن ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میں ظفر اقبال نے اُس آزادی اور توڑ پھوڑ کا انتخاب نہیں کیا مگر اس مجموعے کی غزل بہت طاقتور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔
فی زمانہ ہماری پنجابی غزل کا حال جس قدر پتلا ہے‘ وہ ظاہر و باہر ہے۔ بقول عباس مرزا: ہمارے پنجابی شاعروں کا سانس ساڑھے تین اور چار فعلن پر ہی پھول جاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا شاید مناسب نہیں۔ پنجابی شاعر کے لیے لاکھ مشکلات سہی مگر اعلیٰ اور تخلیق بھری غزل کہنے پر تو کوئی پابندی نہیں۔ اسے پنجاب اور پنجابی شاعری کی بدقسمتی ہی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ادبی زوال جو ہماری پنجابی شاعری پر ہے‘ دوسری علاقائی زبانوں کا تو علم نہیں‘ بہر حال سرائیکی زبان یا لہجے کا ایسا ہر گز حال نہیں ہے۔ وہاں اعلیٰ غزل کہی جا رہی ہے‘ نظم بھی ان کی جاندار ہے اور روہی اس شاعری میں پوری طرح رچی بسی ہوئی ہے۔ ظفر اقبال کی غزل اعلیٰ تخلیقی اقدار کی حامل ہے جس میں پنجاب پوری طرح موجود ہے‘ پھر ان کی زبان بھی بہت مضبوط ہے۔
کھلے کھلوتے سک گئے گوہڑیاں چھاواں والے رُکھ
سمدے پانی ساڑ گئے دھرتی دی ساوی کُکھ
چمکی سی اک شام سفر وچ ہریاں پتراں والی
جھوں گئی شام تے فیر نہ ملیاں اوس خدا دیاں خبراں
ککر قہر پوے ہر پاسے رہندا سارا پوہ
اکھاں دے انگیارے لے کے پھیر نہ آیا اوہ
ہمارے لیے یہ ایک خوشگوار حیرت کا مقام ہے کہ اس میں ان کی نظمیں بھی شامل ہیں‘ جن کا کلی مزاج کسی طرح بیگانہ، غیرمانوس یا اردو نظم کے تابع نہیں ہے۔ ہم نے ان کی اردو نظمیں بھی پچاس اور ساٹھ کے دہے کے ادبی پرچوں میں دیکھی تھیں؛ یعنی وہ فقط اردو غزل کے شاعر نہیں۔ ان کی نظموں کا ایک مجموعہ افتخار جالب سے کہیں گم ہو گیا تھا۔ منیر نیازی وہ آخری پنجابی شاعر تھے‘ جن کا اپنا اسلوب تھا‘ اب جو پنجابی نظم لکھی جا رہی ہے اس میں کوئی کہیں سٹینڈ نہیں کرتا۔ راجہ صادق اللہ ہوں یا نجم حسین سید‘ ایک آدمی کتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ مگر ظفر اقبال نے اس بھاری پتھر کو چوما بھی ہے اور اٹھایا بھی۔ پنجابی شاعروں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تا کہ وہ لکیر کی فقیری کو چھوڑیں‘ کچھ کام کی شاعری کرنے کی کم از کم تحریک تو ملے! ابھی چند ماہ پہلے پنجابی نظم کا ایک خاص نمبر شائع ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پنجابی زبان کے نام پر بنے ادارے اور پنجابی زبان کے نام پر اپنے پیٹ کا بندوبست کرنے والے کہاں کھڑے ہیں؟ آخر ان اداروں کے کھڑے کرنے کا کوئی مقصد تو ہو گا؟ اگر کسی نے وہ پنجابی نظم نمبر نہیں پڑھا تو ایک دفعہ دل پر پتھر رکھ کر وہ ضرور پڑھے‘ شاید کسی بااختیار کی آنکھیں کھل جائیں۔
یوں تو اس کلیات میں شامل تینوں کتب پر بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے مگر کلیات کے مطالعے کے بعد تینوں کتب کا الگ الگ تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ہرے ہنیرے پنجابی زبان کا دیوانِ غالب سمجھیے کہ اس میں مرد و عورت کے باہمی سماجی رویوں کو نہ صرف زیرِ بحث لایا گیا ہے بلکہ اس میں فلسفیانہ بحثوں کا پورا سامان موجود ہے۔ عورت کی تخلیق کی وجہ، گناہ کا عمومی تصور اور اس زندگی کی تجربہ گاہ سے مسرت کے کشید جیسے موضوعات پر لمبی گفتگو ہونی چاہیے۔ دوسری کتاب ککڑ کھیہ میں معاشرے کے تضادات اور اس پر طنز کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے اردو غزل میں ظفر اقبال کو کسی ایک رنگ میں محدود نہیں کیا جا سکتا‘ ویسے ہی ان کی پنجابی شاعری کو کسی ایک خانے میں رکھنا ناانصافی ہو گی۔ تیسری کتاب بکل میں زیادہ نظمیں ہیں۔ ان نظموں کی زبان ٹھیٹھ اور نرول ہے‘ اس پر کسی مصنوعی پنجابی کا خول نہیں چڑھایا گیا۔ یہ وہی پنجابی زبان ہے جس میں ہم بات کرتے ہیں۔ کسی قسم کی کوئی اضافت نہیں کسی غیر ملکی بدیسی زبان کا اس پر اثر نہیں۔ یہ جدید اردو نظم ٹائپ کی نظمیں ہیں مگر مختصر۔ ان نظموں کا سوتا اسی پنجاب سے پھوٹا ہے جو کئی نظموں کے عنوانات سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے جیسے پھل فقیر تھئے، بڈھیپا، رسیواں، ہیٹھلیاں اُتلیاں‘ اور کئی نظمیں ہیںجن میں قافیے کا فنکارانہ استعمال نظم کو غزل کا لطف دیتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پنجابی شاعر بھائی ساڑھے تین اور چار فعلن سے نجات حاصل کریں۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے پنجابی کے ایک اعلیٰ پرچے کے مدیر سے پوچھا کہ آپ کو کسی پنجابی شاعر کی شاعری پسند ہے تو انہوں نے قسم اٹھا کر بتایا کہ معلوم نہیں! اگر کوئی اچھا پنجابی شاعر ہوتا تو وہ نام لیتے۔ کئی اچھے شاعر ہوں گے‘ ان کا نام‘ کام بھی ہو گا مگر مدیر کے منہ سے یہ سب کچھ سننا بہت تکلیف دہ تھا۔ آخر اس کا کیا علاج ہے؟ ہم اپنی ماں بولی کو نظر انداز کرنے کا بہت شور مچاتے ہیں مگر لکھنے پر آتے ہیں تو انہی صدیوں پرانے موضوعات تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ایک مسئلہ ان پنجابی شاعروں کی شاعری کے مجموعوں کی کم اشاعت بھی ہے۔ پنجابی کے نام پر بنے اداروں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک سو پنجابی شاعری کے مجموعے سرکاری خرچے پر شائع کریں۔ ویسے سارا قصور شاعروں کا ہی نہیں‘ حکومتی عدم توجہی کا بھی ہے۔ بقول مقصود ثاقب: زبان روٹی‘ رزق کا وسیلہ تب بنے گی جب اسے راج دربار میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔
ظفر اقبال نے غزل اور نظم‘ دونوں صنفوں میں شاعری کی ہے۔ انہوں اس زبان کو اعتبار بخشا ہے۔ یہ کتاب پنجاب کے ہر سرکاری اور غیر سرکاری کالج کی لائبریری میں ہونی چاہیے تا کہ پنجابی شاعر دوہڑے نما شاعری سے آگے بڑھیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ظفر اقبال نے پنجابی شاعری پر بھی اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔
اوہ منہ زور ہوا دا لہرا میں دیوے دی لنب
جیوں جیوں میرے نیڑیوں لنگھے تیوں تیوں جاواں کنب

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved