دُنیا میں اگر مَکّھیاں نہ ہوتیں تو بہتوں کے دِماغ کو دُرستی کا راستہ نہ ملتا۔ یوں تو چھوٹی ہے ذات مَکّھی کی مگر قیامت دیکھیے کہ اِتنی چھوٹی سی ذات کی ہوکر بھی مَکّھی قیامت ڈھانے پر تُلی رہتی ہے۔ اگر یہ ذرا سی مَکّھی تنگ کرنے پر آ جائے تو سرکاری خرچ پر تعمیر کئے جانے والے پارک میں چند رومانی لمحات گزانے کے لیے آیا ہوا پریمی جوڑا بھی بالآخر خود پر اور پورے ماحول پر لعنت بھیجنے لگتا ہے اور پھر فریقین چُپ چاپ گھر کی راہ لیتے ہیں۔ جو لوگ مکھی کو ناک پر نہیں بیٹھنے دیتے وہ آخرِ کار اُن کے دِماغ میں گُھس کر کچھ اِس طرح پیر پسار کر بیٹھتی ہے کہ پھر اچھا خاصا بھٹہ بٹھا دیتی ہے! سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ خبروں میں رہنے کا منفرد ہُنر جانتے ہیں۔ اِسی بات کو ذرا گُھما کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ خبروں میں رہنے کا ہُنر شاہ صاحب پر مہربان ہوگیا ہے۔ وہ کچھ کہیں تب بھی خبر بنتی ہے اور کچھ نہ کریں تب بھی خبر بن ہی جاتی ہے! دُنیا بھر میں انتظامی سربراہان کو خبروں میں جگہ بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ شاہ صاحب اِس کے ذرا بھی مُکلّف نہیں۔ گیارہ مئی کے عام انتخابات سے قبل سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کے پانچ سال مکمل کرنا اُتنا بڑا کمال نہ تھا جتنا بڑا کارنامہ اِن پانچ برسوں میں کچھ بھی نہ کرنا تھا! شاہ صاحب نے ٹھنڈا ٹھار مزاج پایا ہے اور یہی مزاج اُن کی کارکردگی میں بھی در آیا ہے! پتہ نہیں اُنہوں نے ایسی کون سی بُوٹی پائی ہے جس کے استعمال سے سخت گرم سیاسی ماحول میں بھی اُن کا مزاج ٹھنڈک کا آئینہ دار رہتا ہے! اُن کے دور میں سبھی کچھ ٹھنڈے اور پُرسکون انداز سے چلتا رہتا ہے۔ واقعی ع جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں! ہوسکتا ہے کہ کل کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شاہ صاحب کا نام ایسے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے درج ہو جائے جو کچھ نہ کرکے بھی پانچ سال تک منصب پر فائز رہے اور اب مزید پانچ سال کی ایکسٹینشن مل گئی ہے! وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوکر شاہ صاحب نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو، عجیب و غریب اتفاقات کے ذریعے خبروں میں جگہ ضرور پائی ہے! ’’باوثوق ذرائع‘‘ شاہ صاحب کے بارے میں کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ بتاتے ہی رہتے ہیں۔ اور یہ شاہ صاحب کا خُلوص، عِجز اور اِنکسار ہے کہ کبھی غُرور نہیں کیا! قُدرت جب مہربان ہوتی ہے تو مَکّھی جیسی ناچیز سی مخلوق کے ذریعے بھی اِنسان کو میڈیا میں نمایاں کردیتی ہے۔ شاہ صاحب کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ویسے تو خیر وہ خبروں میں رہنے کے لیے مَکّھی جیسی مخلوق کے محتاج ہرگز نہیں مگر پھر بھی قُدرت نے اپنا کام کیا اور 14 اگست کی صبح قائدِ اعظم کے مزار پر مرکزی تقریب میں مَکّھیوں نے شاہ صاحب کو بہت تنگ کیا۔ (واضح رہے کہ شاہ صاحب کو تنگ کرنے کے حوالے سے ہم مکّھیوں کے پردے میں اویس مظفر اور دیگر جیالوں کی بات نہیں کر رہے!) محسوس یہ ہو رہا تھا کہ جشنِ آزادی کی تقریب میں مکّھیاں بھی آزادی کا جشن منارہی ہیں! خطاب کے دوران مَکّھیوں نے شاہ صاحب کو اِس قدر تنگ کیا کہ وہ بدحواسی کی سی حالت میں (اِس بار بھی یعنی عمر کے تقاضوں کے عین مطابق) کچھ کا کچھ بول گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اُن کی شاندار خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے وقت اُن کے منہ سے ’’شہید آصف‘‘ نکل گیا! لوگ اگر مَکّھی، مچّھر اور دیگر کیڑے مکوڑوں سے خار کھاتے ہیں تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ کِتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ذرا سی مَکّھی نے کِسی اور کو نہیں، ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو بدحواس کردیا۔ مُلک کے قیام کی سالگرہ پر آزادی کا جشن منانے کا حق سب کو ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ مَکّھیوں اور مَچّھروں کو بھی کُھلی چُھوٹ دے دی جائے۔ اگر اِنہیں یوں ہی مادر پدر آزاد چھوڑا جاتا رہا تو یہ ’’چَن میری مکّھیاں‘‘ عوام کے ’’ہر دِل عزیز‘‘ رہنماؤں کے حواس مختل کرکے اُن سے مُنہ کے ایسی باتیں نکلواتی رہیں گی جو بے چاروں کے لیے (مزید) شرمندگی کا باعث بنیں گی! اب دیکھیے نا، پیپلز پارٹی کے لیے پہلے ہی کیا کم پریشانیاں ہیں جو شاہ صاحب کی زبان نے پھسل کر اُن میں اِضافہ کردیا! شاہ صاحب ایک مَکّھی کے ہاتھوں پریشان ہوکر وہ بات بھی اپنی زبان پر لے آئے جو دِل کی کائنات کے کِسی انتہائی دُور اُفتادہ گوشے میں پڑی ہوئی تھی! ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تفتیشی اداروں کے افسران بھی چاہیں تو جیالوں کے مُنہ سے ایسی کوئی بات آسانی سے نِکلوا نہیں سکتے! یہ تو مَکّھیوں کی مہربانی ہے کہ شاہ صاحب ’’گڑبڑائزیشن‘‘ کا شکار ہوکر پارٹی کے شہیدوں میں ایک کا اِضافہ کرگئے۔ ہم نے مرزا تنقید بیگ سے اِس واقعے کا ذکر کیا تو اُنہیں ذرا بھی حیرت نہ ہوئی۔ ہم نے حیران ہوکر اُن سے حیران نہ ہونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ ’’پیپلز پارٹی کو نئی زندگی پانے کے لیے کوئی بڑا شہید درکار ہے۔ جب پارٹی کے اندرونی حلقوں میں ہر وقت شہید اور شہادت ہی کی بات ہوتی ہو تو قائدین کی زبان پر بھی وہی بات آئے گی! اور یہ تو شاہ صاحب کا بھولپن ہے کہ وہ پارٹی لائن بتاگئے ورنہ ہم جیسے تو بس اندھیرے میں تیر چلاتے رہ جاتے ہیں۔‘‘ شاہ صاحب عمر کے اُس مرحلے میں ہیں جہاں اُن کی طرف سے کہی جانے والی ہر بات برداشت کی جانی چاہیے۔ ہم نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اُن کے کچھ نہ کرنے کو بھی تو پانچ سال برداشت کیا ہے۔ اب اگر وہ عمر کے تقاضوں کو پوری طرح نبھاتے ہوئے کچھ انٹ شنٹ بول رہے ہیں تو سُوئے ظن رکھنا تہذیب کے منافی ہے۔ مرزا تنقید بیگ کو بس بولنے سے غرض ہے۔ اُن جیسے لوگوں کی ہر بات سنجیدگی سے نہیں لی جا سکتی۔ اگر شاہ صاحب نے کچھ ایسا ویسا کہہ بھی دیا ہے تو صدر صاحب کو بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ بھی سیاست دان ہیں اور اِس حوالے سے اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ سیاست دانوں کے دِل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ۔ کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل رضا عابدی نے بھی ایک جلسے سے خطاب کے دوران اپنے ون اینڈ اونلی ممدوح صدر آصف علی زرداری کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ’’اللہ اُنہیں جَنّت …‘‘ اور پھر دِماغ کی بَتّی جل گئی اور اُنہوں نے زبان کو سنبھال لیا۔ فیصل رضا عابدی اچھی طرح جانتے ہیں کہ زبان کو کہاں سنبھالنا ہے اور کہاں کھول دینا ہے! اِس قوم کو مَکّھی اور مَچّھر جیسی حقیر دِکھائی دینے والی مخلوق کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس کی مہربانی سے کچھ اندر کی باتیں باہر آتی ہیں اور دُکھی مَن کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کے ہونٹوں پر کچھ دیر کے لیے مُسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں! شاہ صاحب ہرگز پریشان نہ ہوں۔ اور صدر بھی اپنے دِل میں کوئی ایسا خیال نہ لائیں۔ بہت پہلے کِسی نے ایسے ہی موقع پر فریقین کو دِلاسا دیا تھا۔ ؎ نہ ہم سمجھے، نہ آپ آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved