ناگہانی آفات قدرتی ہوں یا، انسانوں کی پیداکردہ ۔ ان سے بہتر طورپر نبردآزما ہونے کی صلاحیت ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ صورت حال وہ ہوتی ہے جو اس وقت وطن عزیز کی ہے، سیلاب سے لے کر دہشت گردی کے نت نئے واقعات تک، ہرشے ہمیں ڈھیر کرچکی ہے اور ہمارے انتظامات کی قلعی کھل چکی ہے ۔ تازہ ترین قصہ اسلام آباد میں ہونے والا وہ واقعہ ہے جس نے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک طرف تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدانتظامی ، حماقت، اور جہالت کو آشکار کیا۔ دوسری جانب دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے، جدید طریقوں سے مکمل لاعلمی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اعتراف کرچکے ہیں کہ اس ڈرامے کو ان کی ہدایات پر طول دیا گیا۔ پھر زمرد خان کی بہادری نے جس طرح اس کا ڈراپ سین کیا اس پر وہ ایک طرف تو اپنی سنجیدگی کے باوجود خفت چھپانے میں ناکام رہے ہیں دوسری جانب اس کمی کو بھی سب نے محسوس کیا کہ جہاں ہرطرف سے زمردخان کی دلیری کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا وہیں وزیر داخلہ کو بھی کھلے دل سے اس کی بہادری کا اعتراف کرنا چاہیے تھا، اس بحث میں پڑے بغیر کہ زمردخان کا یہ قدم بہادری ہے یا حماقت ! میرے نزدیک یہ ہرگز حماقت نہیں بلکہ بہادری کا ایک ایسا مظاہرہ تھا جس کے بارے میں اقبال ؒ بھی کچھ یوں کہتے ہیں۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عقل والے زمرد خان کے اس فعل کو عقل کے پیمانوں پر ناپتے رہیں، مگر جذبہ اور عشق اپنا کام کر گیا۔ بہرحال اس واقعے سے ایک سبق تو یہ سیکھا جائے کہ جدید تربیت کی ضرورت صرف پولیس ہی کو نہیں بلکہ وزیر داخلہ کوبھی اس حوالے سے خود کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا دنیا بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدید آلات استعمال ہورہے ہیں مگر یہاں ان کے نام تک ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ دہشت گردی جیسی ناگہانی صورت حال انسانوں کی پیداکردہ ہے جبکہ قدرتی آفات پر اگرچہ انسان کا کنٹرول نہیں مگر پھر بھی دنیا بھر میں ایسے اقدامات ضرور کیے جاتے ہیں جس سے قدرتی آفتوں سے ہونے والا نقصان کم سے کم ہو۔ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ ہمارے ہاں ہربرس مون سون کی بارشیں ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔ ہرسال سینکڑوں گائوں پانی کی لہروں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بسی بسائی بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور غریب لوگ اس نقصان کو پورا بھی نہیں کرپاتے کہ اگلے برس پھرسیلاب کی تباہ کن لہریں ان کی بستیوں کا رخ کرلیتی ہیں۔ ہمارے ہاں چند مخصوص علاقے جو دریائوں اور نالوں کے قریب ہیں، وہاں ہربرس سیلاب آتے ہیں لیکن سرکاری سطح پر کوئی ایسی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی کہ نقصان کم ہو اور بارشوں کے زائد پانی کی سیلاب بننے سے روکا جائے۔ حالیہ سیلاب میں، جہاں سینکڑوں دیہات ملیا میٹ ہوئے، وہیں قیمتی مال اور جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ 100سے زائد لوگ سیلاب کی نذر ہوگئے۔ دنیا میں کئی ملک ایسے ہیںجہاں بارش کے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے پھر اس پانی کو ری سائیکل کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ، چین، برازیل، آسٹریلیا، بنگلہ دیش ، انڈیا، امریکہ، ملائیشیا ایسے چند ملک ہیں جہاں بارشوں کے پانی کو خدا کی نعمت سمجھ کر قطرہ قطرہ محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسے آب پاشی اور دوسرے گھریلو ضرورت کے کاموںمیں استعمال کیا جاتا ہے۔ چین کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں زیرزمین پانی میں آرسینک کی مقدار زیادہ ہے اورپانی پینے کے قابل نہیں وہاں پر بارش کے پانی کو بڑے سائز کے ٹینکوں میں جمع کرکے پراسس کیا جاتا ہے اور پھر اسے پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنا اور پھر اسے استعمال میں لانے کے نظام کو Rainwater Harvesting Systemکہتے ہیں۔یہ نظام کئی ملکوں میں کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے اور ایسے وقت میں جب زیرزمین پانی میںکمی ہورہی ہے، بارش کا پانی قدرت کا ایک تحفہ ہے جسے استعمال میں لاکر بہت سارے مسائل حل کیے جاسکتے۔ تھائی لینڈ میں بھی رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ گھروں کی چھتوں پرجہازی سائز گیلن لگائے جاتے ہیں جس میں پانی جمع ہوتا رہتا ہے۔ بارش کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے کہ گھر کے اندر جہاں میں ڈرینج ہو‘ اس کے اختتام پر زیرزمین ہی پانی محفوظ کرنے والے ٹینک نصب کردیئے جاتے ہیں، پانی سڑکوں اور گلیوں میں بہنے کی بجائے محفوظ ہوجاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں ایسے علاقے ہیں جو بعض اوقات خشک سالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے وقت میں جمع کیا ہوا بارش کا پانی باغبانی اور کھیتوں کی آب پاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیلاب کی وجہ بارشیں ہی بنتی ہیں۔ اگر ہم بھی بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا نظام متعارف کروائیں تو ہرسال سیلاب کی صورت میں آنے والی قدرتی آفت سے کسی حدتک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں بارشیں کوالالمپور میں سیلاب کا باعث بنتی تھیں اور زندگی مفلوج ہوجاتی تھی ۔ 2004ء میں وہاں Multiple tunnels متعارف کروائی گئیں۔ جن کا ایک مقصد ٹریفک کے بہائو کو بہتر بنانا ہے تو دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ بارشوں کے وقت جب پانی کو ان ٹنلز کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ اس میں ایسا نظام بنایا گیا جس میں بارشوں کا پانی ان ٹنلز سے گزرکر بڑے بڑے ریزر وائرزمیں جمع ہوجاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں ملٹی پل ٹنل سسٹم کو چند دن ٹریفک کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سسٹم کے متعارف ہونے کے بعد وہاں سیلابوں پر کافی حدتک قابو پایا گیا۔ اس سسٹم کی کامیابی پر ملائیشیا کو اقوام متحدہ کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں اگر کوئی نیشنل ڈیزاسٹر سیل موجود ہے تواسے تمام طریقوں اورلائحہ عمل پر کام کرنا چاہیے جن سے ناگہانی صورت حال سے نمٹنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کی موسمی اور جغرافیائی صورت حال میں بارشیں اور سیلاب یہاں کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ کیا ہم دنیا سے سبق سیکھ کر بارشوں کے قیمتی پانی کو محفوظ نہیں بناسکتے؟ اگر بھارت،بنگلہ دیش ایسا کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ دہشت گردی ہو یا سیلاب ان سے نبردآزماہونے کے لیے جہاں جدید تکنیکی سہولتوں کی ضرورت ہے وہیں ہمیں زمرد خان جیسا جذبہ بھی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved