تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     15-06-2022

اس تماشے کا علاج کیا ہے؟

اس میں اب کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے حالات ایک تماشا بن چکے ہیں۔ اقتدار میں جن لوگوں کو لایا گیا ہے‘ ان کے اعمال نامے دیکھیں تو ذہن چکرا جاتا ہے۔ دنیا میں اور کہاں ہو سکتا ہے کہ کرپشن کے لمبے لمبے مقدمات ہوں اور اقتدار آپ کو سونپ دیا جائے۔
ان لوگوں نے ٹھیک ہی کیا ہے کہ پہلی فرصت میں نیب قانون پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔ پاکستان کا کیا بنتا ہے وہ تو الگ بات ہے لیکن ان دو خاندانوں کے خلاف جو مقدمات بنے ہوئے ہیں‘ وہ ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور پھر یہ دونوں خاندان ایک بار پھر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ ہمارے خلاف تو ثابت ہی کچھ نہیں ہوا۔
ذہن میں یہ بات رہے کہ یہ دونوں خاندان‘ جن کا ذکر ہورہا ہے‘ جمہوریت کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں۔ پاکستانی جمہوریت ان کے ہاتھوں یرغمال اور بے بس ہے۔ ہم بھی کیا سادہ لوح لوگ ہیں‘ کہتے نہیں تھکتے کہ اس ملک کا علاج جمہوریت ہے۔ ہمیں کیسے سمجھایا جائے کہ جس قسم کی جمہوریت ہم بھگت رہے ہیں‘ 1985ء سے رائج ہے۔ پاکستان کے ساتھ جو معاشی کھلواڑ ہوا ہے اسی جمہوریت کا ثمر ہے۔ بیچ میں ایک آدھ ڈکٹیٹر آیا جس کا نام پرویز مشرف تھا۔ اب یہ کوئی آمریتوں کے حق میں دلیل نہیں لیکن امر واقع ہے کہ ان کے دور میں معاشی حالات بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں سے بہتر تھے۔
یہ جو ہمارے جمہوری دیوتا کہتے ہیں کہ ہمیں حکمرانی کرنے کا پورا موقع نہیں ملا‘ اس سے بڑ اکوئی جھوٹ نہیں ہے۔ یہ دو خاندان تیس‘ چالیس سال سے باری باری یا وقفے وقفے سے حکومت میں ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں ہمیں موقع نہیں ملا۔ خود تو قارون کے خزانے اکٹھے کر لیے۔ اُس حوالے سے تو نہیں کہہ سکتے کہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران ہیں‘ ان کے کاروبار اور فیکٹریوں کی لسٹ بنا لی جائے‘ ختم نہیں ہوتی۔ ایک آدھ فیکٹری کے مالک تھے لیکن جب اقتدار میں آئے یا اقتدار میں لائے گئے تو ان کی فیکٹریاں بنتی چلی گئیں۔ یہی حال سندھ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کا ہے۔ کہاں وہ بمبینو نامی سینما کے ٹکٹ اور کہاں ان کی موجودہ حیثیت۔ یہ دولت کے انبار جمہوریت کے سفر میں اکٹھے ہوئے۔ جس قسم کی جمہوریت سے ان کا فائدہ ہوا وہی جمہوریت آج بھی قائم ہے۔ اخبارات میں مضامین لکھے جاتے ہیں‘ ٹی وی سکرینوں پر دھواں دھار بحث و مباحثہ ہوتا ہے‘ سیاسی لیڈروں کے بیانات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے‘ پارلیمنٹ موجود ہے‘ عدلیہ کے دروازے کھلے ہیں اور رات گئے بھی کھل جاتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اس ملک میں جو طبقات آسودہ ہیں اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ نہ مہنگائی سے نہ افراطِ زر سے۔ اور سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی ذہانت ملاحظہ ہو کہ پھر بھی پکار پکار کے کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہو‘ شرط یہ کہ صحیح جمہوریت ہو‘ اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
قومی معاملات پر گرفت کس کی ہے؟ ان دو خاندانوں کی اور وہ جو پیچھے کھڑے ان پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ یہ ٹرائیکا ہے‘ ایک طرف یہ دو خاندان اور ان کے ساتھ کھڑے‘ ہاتھ رکھنے والے۔ زمانہ وہ بھی تھا جب ہاتھ رکھنے والوں کے تضادات سیاست دانوں سے ہوا کرتے تھے۔ پیچھے سے ڈوریاں کھینچنے والوں کی مخاصمت کبھی پیپلز پارٹی سے رہی کبھی (ن) لیگ سے۔ یہ تضادات ختم ہوچکے ہیں۔ یہ جو ملک میں حکومت کی تبدیلی ہوئی اس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں خاندان اور ان پر ہاتھ رکھنے والے اب ایک ساتھ ہیں۔ عمران خان کا ایک پیج تو چھوٹی نوعیت کا صفحہ تھا۔ یہ جو نیا ایک پیج ترتیب ہوا ہے یہ تو اخبار کے کاغذ جتنا بڑا صفحہ ہے۔ اور اس ایک پیج کا مقصد یا مطمح نظر کیا ہے؟ یہی کہ پاکستانی عوام کا استحصال اسی طریقے سے ہوتا رہے اور کوئی اس استحصال کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔
یہی جمہوریت رہتی ہے تو یہی دو خاندان ہوں گے اور ان کے پیچھے ان پر ہاتھ رکھنے والے۔ روس کی تباہی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں نہیں ہوئی تھی۔ روس کی تباہی کی ذمہ داری اُس روسی جمہوریت پر عائد ہوتی ہے جو کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کے بعد آئی۔ روس کو سنبھالا دیا تو ولادیمیرپوتن کی مضبوط ہاتھوں والی حکومت نے۔ روس کے حالات تو ٹھیک ہو گئے‘ روس تو ایک بار پھر ایک طاقتور ملک کے روپ میں کھڑا ہو گیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت مضبوط پیروں پر کھڑا ہے۔ ہمارے عرب دوستوں کے پاس تیل اور گیس کے نہ ختم ہونے والے ذخائر ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا؟ ہم تو اپنے کشکول کی افادیت پر جی رہے ہیں۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آئے تو ہمارا پہلا نعرہ یہ تھا کہ ہمارا مقابلہ بھارت سے ہے۔ کہاں بھارت اور کہاں ہم لیکن ہمیں بحیثیت قوم شرم نہیں آتی۔ کشکول لیے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ہمارا سب سے قریبی دوست چین بھی سو بار سوچ کر ہمارے کشکول میں کچھ ڈالتا ہے۔
معیشت کو سمت سیاست دیتی ہے۔ سیاست زنگ آلود ہو تو درست معاشی فیصلے کہاں سے آئیں گے؟ سوچئے تو سہی کہ جن پر ایف آئی آر کٹی ہوں وہ تھانوں کے سربراہ بنا دیے جائیںتو علاقے میں امن و امان کی صورت کیا ہوگی؟ اور یہاں ہم کہتے ہیں کہ سیاست کے خدوخال ایسے ہی رہیں‘ جو سیاسی اجارہ داریاں قائم ہیں وہ بھی ایسی ہی رہیں لیکن کچھ پیسے آئی ایم ایف سے مل جائیں‘ کچھ ادھر اُدھر سے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پاکستانی قوم کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ جو حالات ہمیں یہاں تک لے کر آئے ہیں وہی حالات قائم رہتے ہیں تو نتیجہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر شریفوں اور سندھ سے تعلق رکھنے والوں نے ہی ہماری تقدیر کے فیصلے کرنے ہیں اور ہاتھ رکھنے والوں کی سوچ بھی وہی ہو جو ان دو خاندانوں کی سوچ ہے تو ہمارا مستقبل ہمارے ماضی سے کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟
اس تکونی اجارہ داری‘ جس نے پاکستانی حالات کو یرغمال بنایا ہوا ہے‘ کے خلاف صرف ایک ہی قوت کھڑی ہے اور وہ ہے عمران خان۔ عمران خان کی لاکھ کمزوریاں‘ اُس کی لاکھ خامیاں لیکن ہمارے سامنے اور آپشن کیا ہے؟ یہ درست ہے عمران خان نے اپنا دورِ اقتدار ضائع کیا‘ بہت کچھ کر سکتا تھا‘ نہیں کیا۔ کچھ کرنے کیلئے سوچ نہ تھی‘ وژن نہ تھا۔ فضول کاموں میں اپنی توانائیاں صَرف کیں۔ لیکن ہمارا پرابلم یہ ہے کہ پاکستانی قوم جائے تو جائے کہاں۔ کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ دے کہ پاکستان کا مسیحا نوازشریف ہے‘ کوئی یہ کہہ دے کہ پاکستان کی بہتری آصف زرداری کے ہاتھوں میں ہے‘ پھر تو ٹھیک ہے۔ پھر مان لیں گے‘ بیعت کرلیں گے‘ ان کے سنگِ آستاں پر سر رکھ دیں گے۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو خاندانوں کے جیالے بھی نہ کہیں گے کہ پاکستان کو جو نسخہ کیمیا درکار ہے وہ ان دوخاندانوں کے پاس ہے۔ اب تو لوگوں پر یہ بھی آشکار ہو چکا ہے کہ ہاتھ رکھنے والے بھی حالات کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ پھر وہی آپشن رہ جاتا ہے جو ان تینوں سے مختلف ہے۔ ہم یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اس آپشن نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہو اور آئندہ اُن بیکار کاموں میں توانائیاں صَرف نہ ہوں جیساکہ دورِ اقتدار میں ہم نے ہوتا دیکھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved