تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     15-06-2022

ایک موبائل کی قیمت انسانی جان ؟

ملک ایک عجیب دور سے گزر رہا ہے، ہر طرف افراتفری ہے‘ گرمی ہے‘ حبس ہے‘ غصہ ہے اور دوسری جانب لوڈشیڈنگ نے عوام کو نڈھال کردیا اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ رہی سہی کسر نئے ٹیکسز اور یوٹیلیٹی بلوں نے پوری کردی ہے۔عوام کو اتنی تکلیف دی جارہی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔گھی مہنگا، پٹرول مہنگا، پھل اور سبزیاں مہنگی، علاج و ادویات مہنگی اور عام انسان کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں۔ اب جب اتنی مہنگائی ہو تو جرائم اور بدامنی بھی بڑھ جاتی ہے۔ کراچی بہت عرصے سے جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں ہے۔ ڈکیت‘ گینگ وار کے کارندے، ڈرگز مافیا، غنڈے اور موبائل چور کراچی میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں۔ ان کا جب دل کرتا ہے‘ لوٹ مار کرتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں۔ گھروں میں چوریاں ہورہی ہیں، دکانوں میں دن دہاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کہیں کوئی شنوائی نہیں‘ عوام کی کوئی داد رسی نہیں۔ رینجرز کے آپریشن کے بعد کراچی میں قدرے سکون ہوا تھا لیکن اب پھر جرائم پیشہ عناصر نے سر اٹھا لیا ہے۔ وہ نہ صرف عوام کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ موبائل چور گینگ اتنا سفاک ہوچکا ہے کہ ایک موبائل کی قیمت اب ایک انسانی جان ہے۔ کیا انسانی جان اتنی بے توقیر ہوگئی ہے کہ موبائل جیسی عام سی چیز چوری کرنے کے چکر میں ایک انسان کو مار دیا جائے۔ ایک موبائل اتنا قیمتی اور ایک انسان اتنا حقیر ہوگیا ہے؟ چوروں کو شاید یہ نہیں پتا کہ عوام اتنے امیر نہیں کہ ہر دوسرے دن نیا موبائل لے سکیں، کئی کئی مہینے پیسے جمع کر کے لوگ دس سے تیس ہزار کی رینج میں کوئی اچھا اور سستا موبائل خریدتے ہیں، نچلے طبقے میں اب بھی ایسے افراد کثیر تعداد میں مل جائیں گے جو ٹچ کے بجائے بٹنوں والا موبائل استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ مہنگے موبائل خرید سکیں اور اکثر افراد ناخواندہ ہونے کی وجہ سے بھی ٹچ سکرین والے موبائل کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ تر افراد سستے اور سیکنڈ ہینڈ فون استعمال کررہے ہیں۔
موبائل چور لوگوں کے سر پر پستول تان کر موبائل لے اڑتے ہیں۔ ہر کسی پاس مہنگے برانڈز کا لاکھوں روپے والا موبائل نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ چور اتنے سفاک ہیں کہ ایک موبائل کی خاطر لوگوں کو گولیاں تک مار دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں چند دوست گلی میں کھڑے تھے کہ اچانک دو چور آگئے اور سب سے موبائل چھیننے لگے، ایک لڑکے نے فون دینے سے انکار کیا تو اس کی گردن پر گولی ماردی گئی۔ وہ بیچارہ اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں ہسپتال میں پڑا ہے۔ یہ سارا واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ گولی مارتے ہوئے سفاک شخص کے ہاتھوں میں ایک لمحے کی بھی لرزش نہیں آئی۔ اسی طرح اسلام آباد میں بھی سٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں اور یہاں بھی عوام آئے دن راہزنی کی وارداتوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکا ایف نائن پارک میں موبائل چھیننے کی واردات میں اپنی جان سے چلا گیا۔ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا‘ ایک اچھے عہدے پر کام کررہا تھا۔ ایک موبائل نے معاشرے کا ایک کارآمد نوجوان چھین لیا‘ وہ نوجوان جو اس ملک کا قیمتی اثاثہ تھا۔ اندرونِ سندھ سمیت کراچی کے حالات اس حوالے سے نہایت ناگفتہ بہ ہیں۔ رینجرز اور پولیس کو اس ضمن میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ موبائل چوروں اور ڈکیتوں کو پکڑیں تو سب کے سامنے ان کی چھترول کریں۔ ایک موبائل کے عوض بے گناہوں کی جان لینے والوں کو تختہ دار پر چڑھایا جانا چاہئے۔ ان تمام گینگز کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے اور کسی ایک کوبھی نہ چھوڑا جائے۔ اسی طرح موبائل فون کی خرید و فروخت کا ایک میکانزم بنایا جائے۔ موبائل اصل شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد بائیو میٹرک شناخت کے بعد ہی خریدا اور بیچا جائے۔ اگر دکانوں پر موبائل کی خرید کے وقت اس کی رسید لازمی قرار دے دی جائے اور سختی سے اس حکم پر عملدرآمد کرایا جائے تو اس طرح موبائل چوری کا سلسلہ کم ہوجائے گا۔ جو شخص چوری شدہ موبائل لائے‘ اس کی اطلاع فوری طور پر پولیس کی دی جائے، جو دکاندار بنا وارنٹی‘ بنا ڈبہ یا رسید موبائل بیچنے میں ملوث پایا جائے‘ اس کو بھی گرفتار کر کے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ تمام موبائلز کا ڈیٹا اور ان کے مالکان کی معلومات ہر دکاندار اپنے پاس رکھے تاکہ غیرقانونی‘ سمگل اور چوری شدہ موبائل فون کی خرید و فروخت کا دھندا ٹھپ ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ موبائل فون صارفین کو بھی چاہیے کہ اپنی نجی یا پرائیوٹ تصاویر اور وڈیوز یا ڈیٹا وغیرہ موبائل میں مت رکھیں۔ موبائل کو پاس ورڈ لاک لگا کر رکھیں۔ اس کے علاوہ اس کا آئی ایم ای آئی اور ماڈل نمبر گھر میں کسی جگہ لکھ کر رکھیں‘ اس سے چوری شدہ فون بازیاب کرانے یاکم از کم اسے بلاک کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
موبائل فون کی چوری کو روکنا اور چوروں کو پکڑنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ایف آئی اے یا پولیس کا ایک ونگ اس پر فوکس ہو کر کام کرے تو بہت کم عرصے میں موبائل چوروں اور ان کے نیٹ ورک کو پکڑا جا سکتا ہے۔ ہر شہر میں‘ ہر سٹیشن میں ایک پولیس کائونٹر صرف موبائل چوری کے کیسز کو حل کرنے کے لیے ہونا چاہیے تاکہ شہریوں کو فوری طور پر ریلیف مل سکے۔ موبائل کسی بھی شخص کا چلتا پھرتا اسسٹنٹ ہوتا ہے جس میں تصویروں کی البمز‘ دوستوں اور رشتہ داروں کے نمبر اور ایڈریس اور دوسری بے شمار معلومات ہوتی ہیں۔ اس میں بینک اکائونٹس کی ڈیٹیل‘ سوشل میڈیا اکائونٹس وغیرہ بھی لاگ اِن ہوتے ہیں، اسی لیے ایک فون کا گم ہونا انسان کو تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ فون کے ساتھ سم اور میموری کارڈ بھی چلا جاتا ہے۔ بعض موبائل چور صارفین کے ڈیٹا کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ میموری کارڈ اور موبائل سے تصاویر اور وڈیوز لے کر ڈارک ویب پر لگا دی جاتی ہیں، خواتین کی تصاویر سے ان کے فیک اکائونٹس بنالیے جاتے ہیں۔ فوٹو شاپ اور ڈیپ فیک موبائل ایپس کی مدد سے ان کی جعلی تصاویر اور وڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ کچھ کیسز میں تو یہ بھی دیکھا گیا کہ موبائل چوروں نے لوگوں کے سوشل میڈیا اور وٹس ایپ اکائونٹ پر قبضہ کرلیا اور ان کے نام سے لوگوں کو میسج بھیج کر ان سے ہزاروں‘ لاکھوں روپے اینٹھ لیے۔ اس لیے موبائل چوری کرنے والے گروہوں اور ان کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا جانا چاہئے۔ موبائل چاہے 5 ہزار کا ہو یا 4 لاکھ کا‘ شناختی کارڈ، اصل رسید اور بائیو میٹرک ویری فکیشن کے بغیر اس کی فروخت پر پابندی لگائی جائے تاکہ یہ گولیوں‘ خون اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بند ہوجائے۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب ایک ماں کا بیٹا ڈکیت بن جاتا ہے اور دوسری مائوں کے پڑھے لکھے بچوں کو مار دیتا ہے۔ کہنے کو دونوں اسی دھرتی کے بیٹے ہیں لیکن ایک کو دینی اور دنیاوی تعلیم نہیں مل پائی یا بیروزگاری کے سبب وہ اس قدر فرسٹریشن کا شکار ہے کہ بے گناہوں کو قتل کررہا ہے۔
کیا موبائل چوری کرنے والوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا؟ کیا دنیا میں ان کا کوئی رشتے دارنہیں؟ کیا ان کے والدین‘ بیوی بچے نہیں ہوتے؟ کیسے ایک شخص ایک معمولی سی چیز کے لیے کسی دوسرے شخص کی جان لے سکتا ہے؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اپنے اندر تھوڑی سی انسانیت تو پیدا کریں۔حالیہ دنوں میں جن دو نوجوانوں کو موبائل چوری کے دوران گولیاں ماری گئیں‘ ذرا سوچیں ان کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی؟ کیا ہوا ہوگا ان کے ساتھ جب یہ خبر آئی ہوگی ایک زندگی و موت کی کشمکش میں ہے اور دوسرا بھری جوانی میں دنیا سے چلا گیا۔ حکومت فوری طور پر چوری اور سمگل شدہ موبائلز کے خلاف کریک ڈائون کرے اور فون کی خرید و فروخت کو ایک ضابطے میں لے کر آئے۔ موبائل چوری کے ناسور نے بہت سے گھر اجاڑ دیے ہیں۔ یا تو عوام کو بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت دیں تاکہ وہ خود ہی سڑک پر حساب برابر کرلیں۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو عوام کو تحفظ دیں۔ اس طرح کی وارداتیں انسان کے ذہن پر بھی نقش ہوجاتی ہیں اور وہ ہمیشہ ایک انجانا خوف محسوس کرتا رہتا ہے۔ ڈکیتی کا ٹراما بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان ڈکیتوں اور چوروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس دنیائے فانی سے جانے کے بعد ان چوریوں اور بے گناہوں کے خون کا حساب کیسے دیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved