وہ ایک ایک اہلکار کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے دہائیاں دیتا رہا کہ اس کے دو کمروں کا بل ساڑھے اکتالیس ہزار روپے کیسے آ گیا؟ تین بلبوں اور دو پنکھوں کا بل اکتالیس ہزار روپے؟ بل کے مطابق صرف 82 یونٹس چلے تھے، اس کے پچھلے تمام بل ادا شدہ تھے مگر اس کے باوجود بقایا جات کے نام پر اس کے بل میں چالیس ہزار روپے سے زائد واجبات شامل کر دیے گئے تھے۔ وہ ہر کسی کے پاس گیا کہ میرے گھر کا میٹر‘ گھر کے تمام پوائنٹس جا کر چیک کر لیں مگر اسے ہر چھوٹے بڑے اہلکار سے ہر دفعہ یہی جواب ملا کہ پہلے یہ بل ادا کرو‘ اس کے بعد تمہاری شکایت سنی جائے گی۔ پھر بل کی عدم ادائیگی کی پاداش میں اسے جب اس قیامت خیز گرمی میں میٹر کاٹنے کی دھمکی دی گئی تو وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس غریب محنت کش کا قتل ہوا اور آلۂ قتل ناجائز اور غلط بجلی کا بل تھا تو اس میں کیا غلط ہے؟ یہ آلۂ قتل ہر اس شخص کے ہاتھ میں تھا جس نے اس غلط بل میں اپنا کردار ادا کیا۔ جس کسی نے میٹر کی غلط ریڈنگ لی‘ جس نے اس کا بل درست کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیا‘ جس نے بل درست کرنے کے بجائے اسے پہلے بل اداکرنے کا کہا‘ یہ آلۂ قتل ہر اس شخص کے ہاتھ میں بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آلۂ قتل ہر اس شخص کے ہاتھ میں بھی تھا اور ہے‘ جس نے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ جو بھی بل ٹھیک کرانے کیلئے آئے‘ اسے سب سے پہلے بل ادا کرنے کا پابند کرو‘ پھر اس کی بات سنو۔
اس واقعے سے محض تین روز پہلے مظفر گڑھ میں ایک باپ نے گھر میں آٹا نہ ہونے پر اپنی تین بچیوں اور بیوی کو جس طرح ٹوکے کے وار کرتے ہوئے ذبح کیا اور پھر خود کشی کر لی‘ وہ ہمارے معاشرے کے المیے کے اظہار کے لیے کافی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ معاشرے کا ہر فرد اس میں قصوروار ہے۔ علی پور کا وہ علاقہ‘ جہاں یہ شخص رہ رہا تھا‘ اس کے اردگرد کے لوگ اور وہ بستی اور محلہ‘ جہاں اس کا گھر تھا‘ کیا وہ لوگ اس واقعے سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ کیا ان کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ اپنے اڑوس پڑوس کے لوگوں کی خبر گیری رکھتے؟ ایک حدیث نبوی کے مفہوم کے مطابق‘ اگر تمہارا پڑوسی بھوکا سویا تو تم سے جواب طلبی ہو گی۔ کیا بطور معاشرہ‘ بطور شہری ہم سب اس ذمہ داری سے مبرا ہو سکتے ہیں؟ اس علاقے کے صاحبِ ثروت لوگوں سے یہ سوال نہیں ہو گا کہ یہ خاندان روٹی کے چند ٹکڑوں کی وجہ سے ذبح کر دیا گیا‘ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ یہ خاندان کب سے بھوکا رہ رہا ہے؟ میرے آرٹیکلز گواہ ہیں کہ جب بھی کسی ایسے خاندان کے متعلق علم ہوتا ہے تو سب سے پہلے میں اپنی جیب سے ایسے افراد کے لیے چند دنوں کی خوراک کا انتظام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر اس موقر اخبار کے ذریعے قارئین سے بھی اپیل کرتا رہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اہلِ وطن‘ جن میں اوور سیز پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے‘ ایک لمحے کی دیر کیے بغیر ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ مظفر گڑھ کے اس خاندان کی موت کی خبر ہی ابھی میرے ناتواں جسم کو لرزا رہی تھی کہ بجلی کا ساڑھے اکتالیس ہزار کا بل کو دیکھ کر ایک غریب شخص کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو جانے کی خبر آ گئی۔ بدقسمتی یہ کہ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ اب اس کے چار چھوٹے بچے، بیوہ اور بوڑھا والد پورے معاشرے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اس نوحے کا مقصد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت ملک کے ہر اس ذمہ دار کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرنا ہے جو آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ ہونے سے روک سکتا ہے۔ خدارا! اس ملک و قوم اور اس معاشرے کے غریب افراد کا بھی سوچیں۔ اپنے اور اپنی جماعت کے دوسرے لوگوں کیلئے نیب اور ای سی ایل سمیت دیگر قوانین میں تو دھڑا دھڑ ترامیم کی جا رہی ہیں‘ لگے ہاتھوں یہ ترامیم بھی کر دیں کہ غلط اور ناجائز بلنگ کی درستی تک کسی کو بل کی ادائیگی کا پابند نہیں کیا جائے گا‘ اس کا میٹر نہیں کاٹا جائے گا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند ہزار کے بل کی عدم ادائیگی پر غریبوں کا میٹر تو فوری کاٹ دیا جاتا ہے‘ جسے بحال کرانے کے لیے پورے واجبات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد افراد کی مٹھی بھی گرم کرنا پڑتی ہے‘ مگر کروڑوں کے نادہندگان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
تین ماہ قبل جب موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے فرزند ارجمند‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سمیت مسلم لیگ کی قیادت نے عمران خان حکومت کے خلاف لاہور سے اسلام آبادتک مہنگائی مارچ کیا تھا تو ان کی ہر تقریر اور ہر خطاب میں جو بات سب سے زیا دہ زور دے کر کی جاتی تھی‘ وہ یہ کہ مسلم لیگ ملک سے مہنگائی کا عفریت ختم کر کے دم لے گی۔ وہ غریب کو بھوکا نہیں مرنے دے گی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ایسے ہی بیانات کے ذریعے عوام کو بھوک کے عفریت سے بچانے کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ ایک انگریزی جریدہ میرے سامنے پڑا ہے جس میں ساتھ ساتھ شائع ہونے والی دو خبریں جیسے مجھے چڑا رہی ہوں۔ ایک بڑی سرخی ہے: No flour shortage in Punjab، جبکہ اس کے بالکل ساتھ ایک سنگل کالمی خبر ہے: Man butchers family on failure to get Atta۔
مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کا غریب ریڑھی بان صبح جب کام کے لیے گھر سے نکلنے لگا تو اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ گھر میں آٹے کی ایک مٹھی بھی نہیں ہے‘ واپسی پر بچوں کے کھانے کے لیے آٹا ضرور لیتے آنا۔ سارا دن دوڑ دھوپ کے بعد بھی اس کے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو سکے کہ کہیں سے آٹا دستیاب ہو سکتا۔ مجبوری کے عالم میں وہ خالی ہاتھ جب اپنے گھر واپس پہنچا تو ٹوٹے ہوئے دروازے سے آنکھوں میں آنسوئوں کی برسات لیے اس کے ننھے منے بچے بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ بچوں کو گود میں اٹھائے جب وہ گھر داخل ہوا تو بھوک سے بلبلاتے ان بچوں نے اپنے باپ سے روٹی مانگنا شروع کر دی۔ سب سے چھوٹی دو‘ ڈھائی سالہ بچی نے جب اپنی توتلی زبان سے روتے ہوئے روٹی مانگی تو وہ غریب شخص اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اس کے پاس اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے بلکتے ہوئے معصوم بچوں کو چپ کرانے کیلئے انہیں زور سے سینے سے لگا لیا۔ بچے کچھ دیر تو باپ کے سینے سے چمٹ کر خاموش رہے لیکن جونہی باپ نے اپنی گرفت ڈھیلی کی تو انہوں نے دوبارہ بھوک سے بلکنا کر دیا۔ اس پر باپ نے بچوں کو دوبارہ سختی سے بھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ باپ نے جونہی دوبارہ اپنی گرفت ڈھیلی کی تو چند لمحوں بعد بچے پھر رونے لگے۔ اب باپ کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔ اس نے بھوک سے روتے اور چلاتے اپنے ننھے منے معصوم بچوں کو اس اذیت سے بچانے کیلئے ایک ایک کر کے انہیں‘ ان کی ماں سمیت ذبح کر دیا۔ جب یہ خاندان روٹی کے چند ٹکڑوں کی وجہ سے ذبح ہو رہا تھا تو اس وقت مظفر گڑھ سمیت لاہور،کراچی، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی و اسلام آباد کے بڑے بڑے دستر خوانوں، کلبوں، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں حکمران، سیاستدان، علما، تاجر، بیورو کریٹ اور صاحب ثروت افراد اپنے اپنے بچوںکو ان کی من پسند خوراک کھا کر اچھل کود کرتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب اس خاندان کی تدفین کا معاملہ آیا تو علم ہوا کہ گھر میں کفن دفن کیلئے بھی کچھ نہیں تھا۔ جب مجھے یہ پتا چلا کہ ان کے گھر جمع ہونے والے رشتہ داروں کیلئے کچھ مقامی لوگوں نے کھانے کا بند وبست کیا تھا تو بے اختیار منہ سے نکلا: سب کچھ لٹا کہ ہوش میں آئے تو کیا آئے۔
وہ لوگ جو دوسرے کے آنسوئوں کو اپنے آنسو نہیں سمجھتے‘ ان کے قہقہہوں میں بھی دوسروں کے قہقہے شامل نہیں ہو سکتے۔ یوں وہ ایک دن ساری دنیا سے بچھڑ کر رہ جاتے ہیں اور ان کا غم بھی پھر 'تنہا‘ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی نے بجلی کا ساڑھے اکتالیس ہزار بل آنے پر گھر کے واحد کفیل کے مرنے پر اور تین بچوں اور بیوی کو مار کر خودکشی کرنے والے باپ کے آنسو نہیں دیکھے تو کل ہم اپنے پروردگار کے سامنے کس منہ سے پیش ہوں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved