آ ج سے تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل تک جب جون کا مہینہ آتا تھا تو ایک جملہ زبان زد عام دکھائی دیتا تھا کہ ''آج کل بجٹ کا سیزن چل رہا ہیـ‘‘۔ وفاقی بجٹ کے بعد صوبوں کے بجٹ بھی اسی ماہ میں پیش کیے جاتے ہیں لیکن اب جون کے مہینے کو بجٹ سے نتھی کرنا شاید مناسب نہیں رہا کیونکہ پاکستانی عوام کا بجٹ ہر پندرہ دن بعد اس وقت پیش ہو جاتا ہے جب تیل کی قیمتوں میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ عوام بھی اب سالانہ بجٹ میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے دکھائی نہیں دیتے لیکن ان کی توجہ اس طرف ضرور رہتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کتنے فیصد بڑھ رہی ہیں۔ انہی قیمتوں کو بنیاد بنا کر وہ شاید یہ اندازہ لگانے میں ماہر ہو گئے ہیں کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا تو بجلی، گیس، اشیائے خور ونوش سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز کی قیمت میں تقریباً 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ممکن ہے۔ حتیٰ کہ ملکی سطح پر کتنی مہنگائی ہو گی‘ اس بارے میں بھی عوام کے اعدادوشمار درست دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ باریک اور پیچیدہ فارمولوں سے حساب کتاب لگانے کے ماہر نہیں لیکن ماضی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے تناسب کو بنیاد بنا کر مستقبل کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ سالانہ بجٹ کی اہمیت میں کمی ہونے کی ایک وجہ منی بجٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس قوانین میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں بھی سالانہ بجٹ کو غیر اہم کر نے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ کاروباری طبقے کا سرکار سے یہ گلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ٹیکس پالیسیوں اور بجٹ میں غیر اعلانیہ اور تیزی سے تبدیلی کمپنیوں کی سالانہ پالیسیاں بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ روپے کے عدم استحکام سے پورا سال قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں،جس سے کاروبار کو کامیابی سے چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
عوام اور کاروباری طبقے بجٹ کے حوالے سے تحفظات اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی بجٹ کے حوالے سے گفتگو معنی خیز دکھائی دیتی ہے۔ دنیا ٹی وی کے اینکر کامران شاہد کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں انہوں نے فرمایا کہ 2020ء سے افواجِ پاکستان نے اپنے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا، مہنگائی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کم ہوا ہے، جی ڈی پی کی شرح سے دیکھیں تو دفاعی بجٹ نیچے جا رہا ہے، امسال دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے جو گزشتہ سال 2.8 فیصد تھا۔ فوج نے دفاعی بجٹ 100 ارب روپے کم کیا ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف نے ہدایت دی ہے کہ مشقوں کو بڑے پیمانوں کے بجائے چھوٹے پیمانے پر کر لیا جائے، چھوٹی مشقوں سے بچت ہو گی، ہم نے اپنی غیر ضروری نقل و حرکت کم کر دی ہے۔ افواج میں یوٹیلیٹی بلز، ڈیزل اور پٹرول کی مد میں بھی بچت کی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال کورونا کی مد میں جو رقم ملی تھی‘ اس میں سے 6 ارب بچا کر واپس کردیے گئے جبکہ عسکری سازو سامان کی مد میں ملنے والے ساڑھے 3 ارب روپے بھی قومی خزانے میں جمع کرا دیے ہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن نے گزشتہ سال 150 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا جبکہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نے 2.2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ مزید یہ کہ فوجی فاؤنڈیشن کے تحت سالانہ 20 لاکھ لوگ صحت کی سہولتیں حاصل کر رہے ہیں جبکہ اس ادارے کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں 70 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے عوام میں دفاعی بجٹ سے متعلق آگاہی پیدا کرنا اور افواج پاکستان کے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ادا کیے گئے کردار پر بات کرنا قابل ستائش ہے۔ یہ شاید وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر جس منظم انداز میں فیک نیوز پھیلائی جا رہی ہیں‘ ان کا بروقت جواب دینے سے بہت سے شبہات ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کچھ مخصوص حلقے یہ بتاتے دکھائی دیتے ہیں کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی بجٹ اتنے ارب روپے رکھا گیا ہے جو کل اخراجات کے اتنے فیصد کے برابر ہے اور یہ پچھلے مالی سال کی نسبت اتنا زیادہ ہے جبکہ صحت‘ تعلیم ‘ہائوسنگ اور ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کمی کر کے یہ اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔ یہ محض ''چیری پکنگ‘‘ اور تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ خبریت کا تقاضا ہے کہ خبر مکمل اور متوازن ہو اور اس کے تمام ممکنہ پہلوئوں پر بات کی جائے۔ جب بعض میڈیا پرسنز اور اپوزیشن کے کچھ حلقے مبینہ طور پر آدھی بات کرتے ہیں تب عسکری ترجمان کو پوری بات بتانے کے لیے میڈیا پر آنا پڑتا ہے تا کہ عوام کو گمراہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ اصل نکتہ جی ڈی پی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کا حساب لگانا ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے دفاعی بجٹ میں کمی آنا ملک کی سلامتی کے لیے اچھی خبر تصور نہیں کی جاتی‘ خصوصی طور پر اس وقت جب دشمن ملک اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہا ہو۔ اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو حقائق عوام کے سامنے رکھے‘ وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ افواجِ پاکستان کس قدر کم وسائل میں ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے ہوئے ہیں۔ میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق‘ فوج اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے تمام ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ دیکھ لیں‘ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے جبکہ پاک فوج یوٹیلیٹی کی مد میں بھی اپنے اخراجات کو کم کر رہی ہے۔ دشمن کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ ہمارا ماضی بتاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ مشرقی سرحد سے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ اس وقت بھارت کی 13 لاکھ سے زائد فوج ہے جبکہ ہماری فوج کا عددی حجم ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ اس وقت 50 فیصد فوج مشرقی سرحد جبکہ 40 فیصد مغربی سرحد پر تعینات ہے۔ باقی فوج کنٹونمنٹ اور داخلی سلامتی پر اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات سے نمٹنے میں مصروف رہتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے فوج کے ایک خصوصی سیل کے کردار کا بھی ذکر کیا۔ ان حالات کے پیش نظر ہر سال بجٹ پیش ہونے کے بعد فوج کے بجٹ پر ضرورت سے زیادہ بحث شروع ہو جاتی ہے۔ جمہوریت میں عوامی ٹیکس کے استعمال پر بات کی جانی چاہیے لیکن حساس معاملات پر یکطرفہ بات کرنے کے سلسلے کو روکے جانے کی ضرورت ہے۔ حکومت آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کوئی اقدام کرتی ہے یا نہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ فی الحال سرکار بھی اپنے محدود وسائل کے اندر ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم ملائیشیا سے سستا خوردنی تیل درآمد کرنے کی کوششوں میں ہیں اور وزیر خارجہ ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تجارت کے فروغ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جس میں بجلی کی خریداری ایک اہم معاہدے کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بارٹر تجارت پر پیش رفت کی بھی اطلاعات ہیں۔ پاکستان اس وقت بجلی اور تیل کی شدید قلت سے دو چار ہے اور ان بحرانوں سے نکلنے میں ایران مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی مخالفت کے باوجود پاکستان ایران سے تقریباً 660 ملین ڈالرز کی درآمدر کرتا ہے جن میں 110 سے زیادہ اقسام کی اشیا شامل ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا ایرانی ہم منصب کے ساتھ اس مدعے پر بات کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یقینا یہ تعلقات امریکی حکومت کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی قیمت پر درست نہیں کیے جا سکتے۔ ایران‘ امریکا اور چین سے بیک وقت کامیاب تعلقات قائم رکھنا ہی وزیر خارجہ کی مہارت کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اب بلاول بھٹو اس امتحان میں کامیاب ٹھہرتے ہیں یا نہیں‘ اس کا علم آنے والے چند ہفتوں میں ہو جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved