بحث 74سال پرانی ہے۔ حالات کی رفتار لیکن بہت تیز‘ کچھ حالات سامنے ہیں لیکن زیادہ تر پردے میں چھپانے کی کوشش۔ ہاں! البتہ کچھ ایسے نئے ٹوئسٹ اُبھر کر آئے ہیں جن کے بعد برسوں پرانے سوال پھر سامنے آ کھڑے ہوئے۔ پہلا اہم ترین سوال یہ کہ کیا پاکستان کے '' امپورٹڈ‘‘ منیجرز نے اسرائیلی ریاست کو( As it is) تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے؟ دوسرا سوال بھارت کی اُس دیرینہ خواہش سے وابستہ ہے‘ جس کے ذریعے وہ یو این سکیورٹی کونسل کی مستقل ممبرشپ مانگتا چلا آیا ہے۔ لطف یا پریشانی‘ دونوں کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے خبریں مقامی میڈیا میں نہیں آئیں بلکہ اسرائیل مخالف جذبات رکھنے والے مسلمانوں کے لیے اس زلزلہ آرائی کا مرکز اور گہرائی بھی برطانیہ اور امریکہ سے دریافت ہوتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح۔
پاکستان کی سفارتی چولی کے پیچھے کیا ہے؟ وہ ہمیں برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی سٹوری بتاتی ہے۔ وزیر خارجہ دُور دیش کی درشن یاترا میں مگن۔ اُنہیں پتا ہی نہیں کہ اسلام آباد سے 50 منٹ کی فلائٹ پر کابل سے کیا مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ دار وزارتِ امورِ داخلہ سوشل میڈیا پر ایکٹو‘ بچوں کو ڈرانے والی ڈائن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اُس کا کوئی سیاسی اداکار کابل ڈائیلاگ سے واقف تھا‘ نہ ہی مذاکرات میں شامل۔ ایسی اہل حکومت اور اس قدر واقفانِ حال وزیر‘ سائفر کی دین ہیں اور مداخلت کے بھی مگر سازش ہر گز نہیں۔ جس امپورٹڈ کابینہ کو اپنی وزارت کے بارے میں کچھ پتا نہیں‘ وہ چلی ہے امریکہ سے سازش تلاش کرکے اُس کے پاکستانی سہولت کاروں کو بے نقاب کرنے۔
سسّیے! بے خبرے
تیرا لُٹیا، شہر بھنبھور
''امپورٹڈ‘‘ کے آنے سے پہلے عَم زاد‘ ہم زاد‘ اور پری زاد جیسے لفظ تو سن رکھے تھے مگر پوسٹ امپورٹ نئی ڈکشنری میں 'آہ زاد‘ کا زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آپ اسے آ زاد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس قدر آہ زادیاں یا پھر آہ زاریاں‘ اکٹھی ہوجائیں تو صرف ایک مقتول بنتا ہے۔ وہ ہے‘ بے چارا قسمت کا مارا سچ۔ ان دنوں سچ کو سچ مچ کے پُلس مقابلے کا سامنا ہے۔ امپورٹڈ زور آوروں کا خیال ہے‘ لوگ صرف اُن کی مرضی کی خبریں پڑھتے ہیں‘ اُن کے حق میں بولنے والوں کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ جبکہ انفارمیشن کی آزادی کا سفر لفافی سے شروع ہو کر لفافے پر ختم ہوجاتا ہے۔
ایسے لوگ باہر کی دنیا پہ نظر رکھیں تو اُنہیں پتا چلے کہ آج کوئی سازش ایسی نہیں جو وقت سے پہلے بے نقاب نہ ہوجائے۔ ٹیکنالوجی کے اسی طوفان میں بہتا ہوا سائفر کا تنکا پاکستا ن کی محلاتی سازشوں کے ساحل سے آ ٹکرایا تھا۔ آپ اسے عین اتفاق کہہ سکتے ہیں کہ اسی صفحے پر 14جون 2021ء کو اسلاموفوبیا (2) کے عنوان سے بیرسٹر عبداللہ بابر کا کالم شائع ہوا تھا، جس میں یو ایس اے سے آنے والے سائفر کے خدو خال نہیں بلکہ اُس کی شکل بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وکالت نامہ کا سیکنڈ لاسٹ پیراگراف یہ تھا:
''رواں سال چند ہفتے پہلے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے وزیراعظم عمران خان نے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب کے بارے میں نیویارک کے ایک اخبار میں رپورٹ چھپی جس میں یہودی ماہرین نے پاکستانی وزیراعظم کے خطاب کو یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی قرار دیا کہ عمران خان مسلم بلاک بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ یہودی ماہرین کے مطابق یہ تو شاید ممکن نہ ہو؛ تاہم اس تقریر کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر ریون ریولین کے مطابق ایسے شخص کی تقریر کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی تھنک ٹینک پاکستان کی نئی قیادت کو مختلف تناظر سے دیکھتے ہیں‘ وہ یہ کہ اگر پاکستان معاشی بحران سے نکل گیا تو مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور یہودی سکالر جاش لائبرمین نے کہا کہ لگتا ہے او آئی سی کا اعلامیہ عمران خان نے لکھا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایسا لیڈر اُبھرا ہے جو خداداد صلاحتیں رکھتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں بھی گزشتہ دنوں ایسے مذاکرے کا اہتمام ہوا جس میں پاکستان کی نئی قیادت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مذاکرے میں اکثریتی رائے تھی کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے اور اپنی بات منوانے میں مشکل ہوگی۔ اسحاق یاہوکے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین اور کشمیر اہم مسئلے ہیں جنہیں حل کیے بغیر امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ شکاگو کے Rabbi ابراہیم کے خیالات بھی ایسے ہی تھے جبکہ انڈین امریکن پروفیسر اجے کمار شرما کے مطابق بھارت امریکہ اور اسرائیل کے لیے عمران خان کی تقریر پریشانی کا باعث بنے گی کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی جاندار قیادت انہیں للکارے‘‘۔
سازش والا سائفر 7مارچ 2022ء کو پاکستان میں نمودار ہوا۔ جس میں عمران خان کے خلاف موشن آف نو کانفیڈنس پیش کرنے‘ اُسے کامیاب کروانے یا پھر ناکام ہونے کی صورت میں نتائج بھگتنے تک ساری تفصیلات موجود ہیں۔ جو میں نے چھوٹے گروپ‘ اینکرز میٹنگ‘ کیبنٹ‘ پارلیمنٹ‘ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اور عمران خان کابینہ کے آخری اجلاس میں کھلی آنکھوں سے پڑھی اور دیکھ رکھی ہیں۔ آپ 14جون 2021ء کے وکالت نامے کا اقتباس پھر پڑھ لیجئے۔ جہاں بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کے لیے عمران خان کے موقف کو پریشانی کا باعث قرار دیا گیا۔ امریکہ کے جن مختلف تھنک ٹینکس اور تھنکرز نے اس پریشانی کا اظہار کیا‘ جس کے رپورٹ ہونے کے صرف آٹھ مہینے 19دن کے اندر اندر سائفر آگیا‘ تو کیا اس کے پیچھے کوئی دماغ نہیں تھے؟ Common Objects and Conspirators غیر موجود تھے؟ یہ سوال پاکستان کو 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں درپیش تھے۔
ذرا پھر سے پیچھے دیکھیے‘ مشرقی پاکستان توڑنے کا باعث بننے والا اگرتلہ سازش کیس ریاست نے واپس لے لیا۔ ہمارا موقف یہ ہے‘ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ بھارت کی مداخلت کی وجہ سے پیش آیا۔ ساتھ ہی ہم اگرتلہ سازش کیس کے کرداروں تاج الدین‘ مشتاق اخوندکر‘ شیخ مجیب الرحمن کو غدار‘ سازشی اور مداخلت کار بھارتی افواج کے سہولت کا ر قرار دیتے ہیں۔ اس پرانی اور آج کی تازہ بحث کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ دونوں کا دروازہ ایک ہی جگہ کھلتا ہے۔ جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ عام کردی جائے اور امریکی سائفر کے کرداروں‘ سرمایہ کاروں‘ سہولت کاروں اور Beneficiaries کا تعین کرنے کے لیے سپریم کورٹ کمیشن بنائے ایک ''آزاد‘‘ کمیشن‘ جس کی ساری کارروائی صرف آڈیو‘ وڈیو نہیں بلکہ Public eyeمیں ہو۔ورنہ پرانی سازش اور مداخلت والی بحث کی طرح نئی سائفر سازش‘ موشن آف نو کانفیڈنس اور مداخلت والی بحث چلتی رہے گی۔
اسرائیل تسلیم‘ بھارت یو این سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر؟ کون دے گا یہ جواب؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved