آج کون ہے جو اپنی زندگی سے خوش یا مطمئن ہے؟ مکمل اطمینان کے حامل اب خال خال ہیں۔ عہدِ حاضر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اِس نے ہر انسان کو پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دولت کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو اُسے خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار سمجھیے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ علم و فن میں رہ جانے والی کمی انسان کو پریشانی سے دوچار رکھتی ہے تو یہ محض اُس کا گمان ہے۔ کوئی اپنے خاندان سے کٹ کر پریشان ہے اور کوئی جڑے رہنے میں زیادہ پریشانی محسوس کرتا ہے! جس کے دوست ہیں وہ بھی پریشان ہے اور جس کا کوئی دوست نہیں وہ بھی خوش نہیں۔ فی زمانہ کسی بھی کیفیت کو شرحِ صدر کے ساتھ قبول کرنا مجاہدے سے کم نہیں۔ کم و بیش ہر حالت انسان کو الجھنوں سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
ایک زمانے سے اہلِ دانش اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ ظاہر کو سب کچھ نہ سمجھتے ہوئے باطن پر متوجہ ہوا جائے، اپنی ذات کی گہرائی میں اُتر کر اپنے خیالات، نظریات، تصورات اور عقائد کا جائزہ لیا جائے تاکہ بہتری کی راہ نکالنا ممکن ہو۔ ویسے تو ہر دور میں جینے کا ہنر سیکھنا بہت اہم رہا ہے؛ تاہم اب یہ معاملہ ناگزیر سا ہوچلا ہے۔ گزشتہ کسی بھی دور کے انسان کو اُن نفسی پیچیدگیوں کا سامنا نہیں تھا جن سے آج کا انسان دوچار ہے۔ گزشتہ تمام ادوار کی پیچیدگیاں جمع ہوکر آج ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرف تو گزشتہ تمام ادوار کی علمی و عملی پیشرفت کا نچوڑ ہمیں میسر ہے اور دوسری طرف تمام ادوار کی الجھنوں کا ڈھیر بھی ہماری راہ میں دیوار بنا ہوا ہے۔
فی زمانہ کوئی بھی شخص اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب وہ ڈھنگ سے جینے کا ہنر پوری شعوری کوشش کے ساتھ نہ سیکھے۔ اپنے ماحول میں ہمیں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کو اپنا شعار بنایا، پھر محنت کی، بہت کچھ پایا مگر کچھ بھی سنبھالا نہ جاسکا اور سبھی کچھ ہاتھوں سے جاتا رہا۔ بہت سوں کو آپ نے کنگال حالت میں دیکھا ہوگا، پھر اُن کے پُرتعیش شب و روز کا مشاہدہ کیا ہوگا اور آخر میں اُنہیں ایک بار پھر شدید افلاس کا شکار بھی دیکھا ہوگا۔ ہمارے خالق و مالک نے سب کی تقدیر میں ایک حد تک یہ دنیا بھی لکھی ہے۔ حتمی تجزیے میں تو ہم سب کے لیے آخرت ہی سب کچھ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کو بالکل نظر انداز کردیا جائے یا یہ سمجھ لیا جائے کہ دنیا ہمارے لیے رکھی ہی نہیں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دنیا میں بھی بھلائی رکھی ہے۔ یہ دنیا دارالمحن ہے مگر یہاں کی زندگی کو نظر انداز کرنے کی صورت میں نتیجہ ہمارے حق میں نہیں نکل سکتا۔ دنیا اگرچہ کچھ بھی نہیں مگر یہ تو حتمی تجزیے کا معاملہ ہے۔ ہم سب کے لیے آخرت میں وہی کچھ ہے جو ہم یہاں سے کما کر وہاں بھیجیں گے۔ ہر دور کے انسان کی طرح آج کا انسان بھی محض بدحواس ہو رہنے کو تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ پریشان ہونے کی صورت میں اُن کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے، راحت نصیب ہو جائے گی۔ یہ محض خیالِ خام ہے۔ کوئی بھی مسئلہ اول تا آخر اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کیا جائے۔ کوئی بھی الجھن ہوتی ہی اس لیے ہے کہ دور کی جائے۔ کسی بھی الجھن یا مشکل کو دیکھ کر بدحواس ہو رہنا حقیقت کی دنیا سے محض فرار ہے‘ اور کچھ نہیں۔
آج ہر معاشرے کو سو طرح کی الجھنوں نے گھیر رکھا ہے۔ نصف سے زیادہ الجھنیں تو زندگی بسر کرنے کی بھاری بھرکم لاگت کے ہاتھوں پیدا ہوئی ہیں۔ دم بہ دم بڑھتی مہنگائی زندگی کو دشوار سے دشوار تر بناتی جارہی ہے۔ مہنگائی ہر معاشرے کا مسئلہ ہے۔ کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں جس کے باشندے یہ کہہ سکیں کہ وہ مہنگائی کے ہاتھوں الجھن محسوس نہیں کر رہے۔ بلندتر معیارِ زندگی یقینی بنانے کے لیے ہر معاشرے کے لوگ دن رات تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ پھر بھی پورا نہیں ہو پاتا۔ پاکستان جیسے سخت حالات سے دوچار ممالک زیادہ الجھنیں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ جہاں کچھ بھی ٹھکانے پر نہ ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ قدم قدم پر بے نظمی ہے۔ نظم و ضبط سے یکسر عاری زندگی بسر کی جارہی ہے جو الجھنوں میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔
آج ہر طرف ایک ہی رونا ہے‘ مہنگائی کا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کی تو کمر توڑی ہی ہے، خواص کی کمر بھی سلامت نہیں رہنے دی۔ مہنگائی وہ عفریت ہے جو سبھی کے لیے الجھنیں لے کر آیا ہے۔ یوں تو ہر دور میں مہنگائی ہی سب سے بڑا ایشو رہی ہے مگر اب معاملہ زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ کوئی راہِ نجات دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے آج کے دن کے لیے تیاری کی ہی نہیں تھی۔
زندگی کا کام ہے آگے بڑھنا۔ آج دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی کے روکے سے رُک نہیں سکتا۔ کوئی بھی حکومت، کوئی بھی ادارہ، کوئی بھی نظام، کوئی بھی اتحاد دنیا کے سفر کو روک نہیں سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ممکنہ منفی اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی جائے، پورے شعور کے ساتھ ایسی کوششیں کی جائیں جن سے ہر سطح کی زندگی میں نظم و ضبط کا گراف بلند ہو۔
پاکستان میں دو ڈھائی عشروں سے ایسا بہت کچھ ہو رہا تھا جو بالآخر اسی منزل تک پہنچانے والا تھا جہاں آج ہم پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک دنیا ہے کہ تبدیل ہوئی جاتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے آپ کو تھوڑا سا بدلنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو نازک حالات کے چنگل سے نکالنے کی بھرپور شعوری کوشش کی جائے مگر ہم اس ویک اَپ کال کو بار بار نظر انداز کر رہے ہیں۔ کچھ تو فطری علوم و فنون میں پیش رفت کا کمال ہے اور کچھ طرز ہائے فکر و عمل کی پیچیدگیوں کی مہربانی ہے کہ اب سبھی کچھ ہمارے سامنے ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ افلاس ہے، بے روزگاری ہے، مہنگائی ہے اور ان تمام عِلّتوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے جو زندگی کے بنیادی ڈھانچے کو تہس نہس کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جب ہر معاملہ بہت حد تک خرابی کی طرف رواں ہو یا اُس کی نذر ہوچکا ہو تب اصلاحِ احوال کے لیے حکومتی اقدامات کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اپنے معاملات درست کرنا اب انفرادی سطح کا معاملہ ہے۔ حکومت اگر کچھ کر بھی سکتی ہے تو ایک خاص حد تک۔ حتمی تجزیے میں تو مہنگائی سمیت معاشرے کے پیدا کردہ ہر چیلنج کا سامنا کرنا فرد ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس محاذ پر اُسی کو لڑنا ہے، کسی اور کو نہیں۔ جو اپنا خیال آپ نہ رکھ سکتا ہو اُس کے بارے میں حکومتی مشینری بھلا کیوں سوچنے لگی؟
آج ہمارے معاشرے کو مہنگائی سمیت تمام بڑے چیلنجز سے کماحقہٗ نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ نظم و ضبط کا فقدان ہر شعبے میں نمایاں ہے۔ ایسے میں وہ لوگ شدید الجھن میں مبتلا پائے گئے ہیں جو منظم انداز سے زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ آپ درست ہوں اور فریقِ ثانی غیر منظم ہو تو آپ کے لیے بھی الجھنیں تو پیدا ہوں گی مگر شام ڈھلے تو یہی ثابت ہونا ہے کہ آپ کا طریق قابلِ قبول و قابلِ تقلید ہے۔ اگر آپ نظم و ضبط کے عادی ہوں تو اپنی مشکلات کم کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی تھوڑی بہت آسانی پیدا کرسکتے ہیں۔
ترقی یافتہ معاشروں میں بھی انفرادی سطح پر بہت سی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے۔ معاشرے کی مجموعی خوش حالی انفرادی زندگی پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے تاہم غیر منظم زندگی بسر کرنے سے معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ ایسے میں مجموعی ترقی اور خوش حالی بھی کسی کام کی نہیں رہتی۔ یہی سبب ہے کہ غیر منظم زندگی بسر کرنے والے عمومی سطح پر شکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ع
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved