تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     18-06-2022

یہ خونِ خاک نشیناں تھا

یہ واقعہ کراچی میں 2012ء میں ہوا۔ شاہ زیب خان یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا۔ چند لڑکوں نے اس کی بہن پر جملے کسے۔ شاہ زیب نے ان لڑکوں کو منع کیا۔ بات بڑھتی گئی اور اختتام المناک ہوا۔ شاہ زیب خان کو قتل کر دیا گیا اور قتل کا الزام شاہ رخ جتوئی پر لگا جو بظاہر ایک باثروت اور بااثر خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ شاہ زیب خان کا والد اورنگزیب خان اُس وقت کراچی ہی میں ڈی ایس پی تھا۔ جون 2013ء میں ایک عدالت نے شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت سنائی۔دو تین ماہ بعد خبر آئی کہ مقتول کے والد نے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔ ساتھ ہی مقتول کی والدہ کا بیان آیا کہ ہم قاتلوں کو دل سے کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایک ماں اپنے جگر گوشے کے قاتل کو دل سے کیسے معاف کر سکتی ہے مگر اس دکھی والدہ نے یہ بھی کہا کہ ہم خوف کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقتول کی فیملی کتنے پریشر میں رہی ہوگی۔
2017ء میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کیس کا دوبارہ ٹرائل ہوگا۔ ٹرائل کے دوران شاہ زیب کے والد نے پھر بیان دیا کہ ہم نے قاتل کو معاف کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے قاتل کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ اب کراچی کی سول سوسائٹی حرکت میں آ گئی اور اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔ سپریم کورٹ نے ضمانت مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ شاہ رخ جتوئی کو دوبارہ گرفتار کر کے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ قاتل کو فوراً ہی صحت کے مسائل ہو گئے اُس نے جیل سے نکلنے کیلئے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخلہ لیا بلکہ اس ہسپتال کا پورا فلور کرائے پر لے لیا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی نے شور مچایا تو سندھ حکومت کو شاہ رخ جتوئی کو پھرجیل بھیجنا پڑا۔ اب اگر سپریم کورٹ میں مقتول کے والدین پھر پہلے والا بیان دیتے ہیں کہ قاتل کو معاف کیا تو صورت حال قانونی نکتہ نگاہ سے دلچسپ ہو جائے گی۔
دوسرا دلخراش واقعہ 2017ء کے رمضان المبارک میں کوئٹہ میں پیش آیا۔ دن کا وقت تھا۔ سخت گرمی میں ٹریفک سارجنٹ حاجی عطا اللہ جی پی او چوک میں کھڑا بڑی تندہی سے اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اتنے میں ایک تیز رفتار لینڈ کروزر ٹائپ گاڑی آئی اور ٹریفک سارجنٹ کو کچلتی ہوئی آگے نکل گئی۔ گاڑی بلوچستان کے ایم پی اے مجید اچکزئی کی تھی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق وہ خود گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ پولیس کی پہلی ایف آئی آر میں حادثے کا ذمہ دار نامعلوم فرد کو ٹھہرایا گیا۔ جب حادثے کی وڈیو وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا میں خوب شور مچا تو ایم پی اے صاحب کو گرفتار کرنا پڑا۔ اسی دوران چیف جسٹس ثاقب نثار بھی واقعے کا از خود نوٹس لے چکے تھے۔
معاملہ عدالت میں گیا۔ ایم پی اے صاحب کی ضمانت ہو گئی۔ اس دوران مجید اچکزئی کا بیان آیا کہ ہم فیملی کے ساتھ معاملہ قبائلی روایات کے مطابق طے کر لیں گے۔ 2020ء میں مرحوم حاجی عطا اللہ کے بیٹے کا بیان آیا کہ ہمیں ابھی تک کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں اکیسویں صدی میں فیصلے قبائلی روایات کے مطابق ہونے چاہئیں‘ کہاں ہیں ہمارے اپنے قوانین؟
اپنے قوانین کی بات ہو رہی ہے تو یہ کیس بلوچستان ماڈل کورٹ میں 2020ء میں سنا گیا۔ اس عدالت کے جج نے ناکافی شہادتوں کی بنا پر ملزم کو بری کر دیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھیں تو وقوعہ کے وقت بہت سے لوگ جی پی او چوک میں موجود تھے مگر کسی بھی عینی شاہد کو عدالت میں گواہی دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ حاجی عطا اللہ مرحوم کا خون صرف مجید اچکزئی کے سر نہیں ہم سب ذمہ دار ہیں‘ سول سوسائٹی والے اس ظالمانہ قتل کا معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں کیوں نہیں لے کر گئے‘ یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جس دن اچکزئی صاحب کی بریت ہوئی تو ان کے سپورٹرز نے ان کی گاڑی پر بے شمار پھولوں کی پتیاں نچھاور کر دیں۔ البتہ یورپ کے ایک اخبار ماڈرن ڈپلومیسی نے یہ لکھا کہ پاکستان میں انصاف صرف امیروں کو ہی مل سکتا ہے۔ یہ ہمارے نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
اور اب چلتے ہیں اسلام آباد جہاں فروری 2021ء میں ایک اور المناک حادثہ ہوا۔ سابقہ ایم این اے اور وفاقی محتسب برائے ہراسگی خواتین کشمالہ طارق لاہور سے اسلام آباد اپنی فیملی کے ساتھ آ رہی تھیں۔ ان کے قافلے میں پروٹوکول اور سکیورٹی سمیت پانچ گاڑیاں تھیں۔ کشمیر ہائی وے پر جی الیون کا ٹریفک سگنل آیا یہاں بتی لال تھی لیکن محترمہ کے ڈرائیور یا بیٹے نے ریڈ سگنل پر گاڑی روکنا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو کشمیر ہائی وے سگنل فری ہو گئی ہے لیکن وقوعہ کے دنوں میں جی الیون کا سگنل ایک مصروف چوک تھا۔ سرکاری کاروں کے قافلے نے ریڈ سگنل کی خلاف ورزی کی اور تیز رفتار سرکاری گاڑی دوسری جانب سے آنے والی گاڑی سے اتنی بری طرح ٹکرائی کہ اس میں سوار چار نوجوان موقع پر ہی دم توڑ گئے۔اس حادثہ میں زخمی ہونے والے مجیب الرحمن کا کہنا تھا کہ گاڑی محترمہ کشمالہ طارق کا بیٹا چلا رہا تھا۔ اُس نے تھانہ رمنا میں ایف آئی آر کٹوا دی۔ محترمہ اس بات پر مصر تھیں کہ گاڑی ان کا بیٹا نہیں بلکہ ڈرائیور چلا رہا تھا۔
بہرحال ڈرائیور اور بیٹے دونوں کی ضمانت کرا لی گئی۔ اگلے روز جب کیس عدالت میں سُنا جا رہا تھا تو دو مرحومین کے والدین مانسہرہ سے آ گئے یا لائے گئے۔ انہوں نے عدالت میں بیانِ حلفی جمع کرایا کہ ہم نے اللہ کے واسطے معاف کیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ والدین نے بیانِ حلفی میں لکھا کہ وقوعہ کے وقت گاڑی ڈرائیور ہی چلا رہا تھا۔ انہیں مانسہرہ میں بیٹھے یہ کیسے علم ہوا؟ لگتا ہے استغاثہ والوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔ باقی دو مرحومین کے ورثا نے بھی معاف کیا یا نہیں یہ کسی کو معلوم نہیں۔میڈیا میں ایک دو دن شور مچا اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ واقعہ کی مزید تحقیقات نہیں ہوئی۔ اُس زمانے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی جو قانون کی حکمرانی کی دعویدار تھی۔
چوتھا واقعہ ماضی قریب کا ہے اور سندھ میں پیش آیا۔ ناظم جوکھیو کسی بڑے زمیندار کاکارندہ تھا۔ اس زمیندار کی اراضی پر غیر ملکی وی آئی پی تلور کے شکار کیلئے آئے۔ ناظم کے سر میں نجانے کیسے یہ سودا سمایا کہ تلور کاشکارغلط ہے۔ اُس نے جرأت کر کے اپنے افکار زمیندار پر افشاں کر دیے۔ جب کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا تو ناظم نے تلور کے شکار کی وڈیو بنانا شروع کر دی۔ وڈیرے کیلئے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی۔ ناظم کو اس بیدردی سے پیٹا گیا کہ اُس کی موت واقع ہو گئی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اس کیس میں کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ زمیندار صوبائی اسمبلی کا ممبر ہے اور اس کا تعلق سندھ کی حکمران پارٹی سے ہے۔ ناظم کے چار بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اُس کی بیوہ شیریں جوکھیو کا بیان ہے کہ میرے عزیز رشتے دار کیس میں دلچسپی نہیں لے رہے اور میں اکیلی نہیں لڑ سکتی۔ مندرجہ بالا چار واقعات سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ظالمانہ نظام میں سب سے بڑا گناہ غریب ہونا ہے۔ انہی دلخراش واقعات کے حوالے سے فیض صاحب کا شعر یاد آ رہا ہے۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے ان اللّٰہ لایحب المعتدین یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اعتدا کرنے والوں یعنی ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں اللہ کے پسندیدہ لوگ کتنے رہ گئے ہوں گے۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے بار بار خیال آ رہا تھا کہ یہ چاروں واقعات اگر کسی مہذب معاشرے میں ہوتے تو کیا ہوتا؟ چاروں واقعات کی مفصل تحقیقات ہوتیں۔ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے سزا سے نہ بچ سکتا۔ اگر تحقیقات میں کوئی جھول آتا تو پارلیمنٹ میں سوال پوچھے جاتے۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved