تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     19-06-2022

مذاکرات کا منطقی انجام کیوں ضروری ہے؟

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ریاستی سطح پر ایک بار پھر بندوبست ہو رہا ہے‘ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے پہلے مذاکرات کے کتنے ادوار ہو چکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے ساتھ اگرچہ 2004ء سے مذاکرات کی کوششیں ہو رہی تھیں‘ نیک محمد وزیر کے ساتھ ''شکئی ایگریمنٹ‘‘ کے نام سے پہلا معاہدہ ہوا لیکن ایک حملے میں وہ مارے گئے‘ اور حکیم اللہ محسود ان کے جانشین بن گئے‘ حکیم اللہ محسود کے ساتھ 2013ء میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔ یہ مذاکرات کامیابی کی طرف جا رہے تھے کیونکہ اس وقت طالبان کے مطالبات زیادہ پیچیدہ نہیں تھے‘ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ قبائلی علاقہ جات سے چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہو‘ اسی طرح وہ اپنے کچھ لوگوں کی رہائی چاہتے تھے جو بقول ان کے‘ بے گناہ تھے۔ مذاکرات کے اس پہلے مرحلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور علما کا اہم کردار تھا۔ یہ دور تقریباً منطقی نتیجے پر پہنچ گیا تھا لیکن اسے امریکہ نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے سبوتاژ کر دیا کیونکہ اس ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود مارا گیا‘ یوں مذاکرات کا عمل معطل ہو گیا اور قبائلی علاقے سمیت ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کے نئی لہر پھیل گئی۔
اس سے کچھ عرصہ قبل 2009ء میں سوات کی سطح پر ملا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات ہوئے‘ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی مذاکرات کے حامی تھے۔ اُس وقت صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی حکومت تھی‘ اس نے سوات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہے تو وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ابتدائی مرحلے میں اس کی مخالفت کی‘ لیکن اس حوالے سے اسفند یار ولی اور جنرل کیانی کے مابین ایک ملاقات ہوئی۔ کیانی صاحب چونکہ خود بھی مذاکرات کے حامی تھے اس لیے وہ اسفند یار ولی کو صدر آصف زردای کے پاس لے کر گئے‘ ان دونوں شخصیات نے آصف زردای کو مذاکرات پر آمادہ کیا لیکن بدقسمتی سے یہ مذاکرات بھی کامیاب نہ ہو سکے اور حکومت کو مجبوراً وہاں آپریشن کرنا پڑا۔ سوات آپریشن پر سیاسی و ملٹری قیادت ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے آپریشن کامیاب ہوا اور بہت جلد آباد کاری کا عمل شروع ہو گیا۔ آپریشن کے بعد جب طالبان کیلئے سوات میں رہنا مشکل ہو گیا تو فضل اللہ کی قیادت میں دوبارہ کارروائیاں شروع ہو گئیں، تب تک پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہو چکی تھی انہوں نے دوبارہ مذاکرات پر زور دیا‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں طالبان سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے ممبران میں میجر (ر) محمد عامر‘ عرفان صدیقی‘ رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل تھے جبکہ چوہدری نثار علی خاں کمیٹی کی معاونت کر رہے تھے۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی نے اہم کردار ادا کیا‘ مذاکرات کا عمل اس بات کا متقاضی تھا کہ جب تک نتیجہ خیز اور حتمی بات سامنے نہ آ جائے تمام امور کو خفیہ رکھا جائے مگر مذاکراتی کمیٹی میں شامل بعض اراکین کو میڈیا پر آنے کا شوق تھا‘ انہوں نے طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا احوال میڈیا پر سنانا شروع کر دیا۔ میجر (ر) عامر جیسے لوگ جو قبائلی مزاج اور دفاعی امور سے بخوبی واقف تھے‘ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مذاکراتی کمیٹی کا اعلان نہیں ہونا چاہیے اور مذاکرات کا عمل خفیہ رکھا جائے‘ یوں دو بنیادی غلطیوں کی وجہ سے مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکے حالانکہ اس وقت کی طالبان قیادت کے مطالبات بھی زیادہ سخت نہ تھے۔ ان کے تمام مطالبات مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے تھے۔ اعلیٰ عدالت نے بھی خصوصی احکامات صادر کیے‘ عدالت کی طرف سے ایک بورڈ قائم کرنے کا حکم دیا گیا جس میں ملٹری اور سول افسر شامل ہوں‘ جنہیں ہدایت کی گئی کہ وہ مذاکراتی عمل اور گرے‘ گرین لسٹوں کا جائزہ لیں کہ کن افراد کو معاف کیا جا سکتا ہے‘ کن افراد کو معاف نہیں کیا جا سکتا‘ اس سارے عمل کو نواز شریف خود دیکھ رہے تھے۔ پختون روایات سے واقفیت اور خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے میجر(ر) عامر ان مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کر رہے تھے‘ اسی دوران ملک کے اہم ادارے میں اعلیٰ قیادت کی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی‘ نئی قیادت کے نزدیک آپریشن ہی اس مسئلے کا واحد حل تھا‘ نتیجتاً یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اگرچہ مذاکراتی کمیٹی اور اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے بورڈ کے قیام جیسے اقدامات کو دیکھ کر ظاہر ہوتا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے لاہور میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ آٹھ ہفتوں میں مذاکرات کا عمل پورا ہو جائے گا اور معاہدے سے متعلق قوم کو جلد بتا دیا جائے گا مگر بدقسمتی سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ مذاکرات میں ناکامی کے بعد طالبان نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور آرمی پبلک سکول جیسا افسوسناک سانحہ پیش آیا۔
اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا ہے‘ اس بار افغان طالبان کی قیادت مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی ثالثی میں مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کو چند وجوہ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت تحریک طالبان اور پاکستان کے مابین تین ماہ کیلئے سیز فائر کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ مذاکرات کے اس دور کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ممتاز عالم دین‘ جنہیں پاکستان اور افغانستان میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ کی سربراہی میں جید علما کا وفد افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ بات کرے گا‘ اس حوالے سے وزیراعظم اور مفتی تقی عثمانی کی اہم ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ یوں بڑے پیمانے پر حالیہ مذاکرات کا دور جاری ہے‘ طالبان بھی مجبور ہیں کہ ریاست پاکستان کے سامنے سرنڈر کر کے صلح کے آپشن کو اختیار کریں۔ افغان طالبان کی بھی یہی منشا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان مزاحمت کا راستہ ترک کر دے کیونکہ افغان طالبان اپنے اندرونی مسائل کا شکار ہیں۔ حقانی گروپ الگ پہچان کے ساتھ افغانستان میں موجود ہے‘ جبکہ ملا حسن اخوند کابل کی مرکزی حکومت کے سربراہ ہیں۔ افغانستان کے زمینی حقائق بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب وہاں سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را جیسے عناصر کیلئے زمین ہموار نہیں رہی۔ ٹی ٹی پی کو پراکسی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے میں دقت کا سامنا ہے کیونکہ وہاں پر طالبان کے مختلف دھڑے ہیں۔ حالیہ دنوں افغانستان کے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فورسز کی کارروائی سے بھی انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بارڈر کے چور راستے بند کیے جا چکے ہیں۔ یوں ٹی ٹی پی قیادت مجبور ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے۔
قوی امید ہے کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا تو حالیہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے۔ بظاہر عالمی سطح پر بھی کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ فیٹف کو طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘ ایسی صورتحال میں فریقین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچائیں‘ جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں انہیں دہرایا نہ جائے‘ طالبان کی جانب سے سیز فائز اچھا اقدام ہے‘ ریاستی رِٹ کو تسلیم کر کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے کے بعد ہی فاٹا بحالی اور سکیورٹی فورسز کی واپسی جیسے بڑے مطالبات پر بات ہو سکتی ہے۔ فریقین کی طرف سے مصالحت اور لچک کا مظاہرہ کیے جانے کے بعد مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں‘ مذاکرات تو اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکے ہیں‘ اب کی بار مذاکرات کا منطقی انجام بہت ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved