مصرلہو رنگ ہے۔ایک مسجدکے صحن میں نمازیوں کی طرح انسانی لاشوں کو صف بستہ دیکھنا آسان نہیں۔اخوان نے جمال عبدالناصر کے مظالم بھی سہے لیکن خبر دینے والوں کا اتفاق ہے کہ مصر کی جدید تاریخ میں ایسے قتلِ عام کی کوئی مثال نہیں۔سیسی صاحب نے زبانِ حال سے بتایا ہے کہ فرعون کیسے ہوتے تھے۔فرعون جب قتلِ عام کر تے تھے تو عورتوں کو چھوڑدیتے تھے۔جدید فرعون اس تکلف کے بھی قائل نہیں۔غم کے ان لمحات میں چند سوال میرا دامن نہیں چھوڑ رہے۔ ۱۔کیا کوئی فوج ایسی ظالم ہو سکتی ہے کہ اپنے ہم وطنوں اور بھائیوں پہ گولی چلاتے وقت اس کے ہاتھ کانپنے سے انکار کردیں؟مصر کے لوگ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل نہیں ہورہے۔یہ وہ فوج ہے جس کے ہاتھ کی بندوقیں بھی مقتولین کے پیسے سے خریدی گئی ہیں۔مقتول ہی اس فوج کے کھانے پینے، وردی، ہر چیز کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہی نہیں،مرنے والے ان کے رشتہ دار ہیں،ہم وطن ہیں، ہم قوم ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوج اپنے محسنوں کو مار دے؟ یہ سوال اخلاقیات سے متعلق ہے لیکن کیا فوج پر اخلاقیات کا اطلاق نہیں ہوتا؟جدید فوج کی تر بیت میںتعمیلِ حکم کی اہمیت بنیادی ہے۔اس میں سکھایا یہی جا تا ہے کہ آپ نے ہر صورت میںاعلیٰ کمان کی بات کو تسلیم کرنا ہے۔اس کی حکم عدولی نہیں کرنی۔دلیل یہ ہے کہ اس کے بغیر فوج کا نظم قائم نہیں رہ سکتا۔ہم اس دلیل سے ایک لمحے کے لیے صرفِ نظر کرتے ہوئے، یہ دیکھتے ہیں کہ قوم پرستی (Nationalism) بھی فوج کی تربیت کا حصہ ہوتی ہے۔فوج میں اپنے ملک اور قوم کے لیے لڑنے کا جذبہ پیدا کیا جا تا ہے۔ گویا اسے اپنی قوم اور ملک کے بارے میں حساس بنایا جا تا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس وقت یہ جذبہ کہاں جاتا ہے جب اپنی ہی قوم پر ٹینک چڑھادیے جاتے ہیں؟جب ان پر بے رحمی سے گولیاں چلائی جاتی ہیں؟کیا اطاعت کا تصور قوم پرستی سے زیادہ شدید ہے؟ یہ معاملہ صرف مصر کے ساتھ نہیں ہے۔دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں مو جود ہیں جب فوج نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کا قتلِ عام کیا ہے۔جدید فوج کے تصور میں شاید اس بے رحمی کی گنجائش ہو لیکن ایک مسلمان فوج میں یقیناً نہیں ہے۔ جو مذہب ،دشمن کے غیر محارب افراد کے ساتھ ظلم سے روکتا ہو، جو برگِ سبز کی حرمت کا بھی لحاظ رکھتاہو،اس مذہب کے ماننے والے،کیسے ممکن ہے کہ اپنے ہم مذہبوں کو مار ڈالیں؟ایسے واقعات کی تکرار سے لازم ہو گیا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کے ادارے فوجوں کو اخلاقیات کے تابع کر نے کی تحریک چلائیں۔ جس طرح بوسنیا میں جنگی جرائم میں ملوث لو گوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے، ضروری ہے کہ اُس فوج کے ذمہ داران کو عدالت میں لا یا جائے جو اپنی ہی قوم کو فتح اور قتل کرتے ہیں۔کیا مسلمان ملکوں میں کوئی ایسی تحریک اٹھ سکتی ہے جہاں جہاد کے نام پر مسلمانوں کا قتلِ عام کر نے والوں کی وکالت کی جاتی ہے؟ ۲۔کیا مصر کے اس حادثے کا خاص تعلق امتِ مسلمہ کے ساتھ ہے؟ دنیا بھر نے مصری فوج کے مظالم کی مذمت کی ہے، یہاں تک کہ امریکا نے بھی، جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ صدر مرسی کو ہٹانے میں جنرل سیسی کو اس کی تائید حاصل ہے۔امریکا نے بطور احتجاج مصر کے ساتھ مشترکہ دفاعی مشقیں منسوخ کر دی ہیں۔یورپی یونین میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ مصر کی امداد بند کی جائے۔ ڈنمارک نے امداد بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ وہی ملک ہے جہاں رسالت مآبﷺ کے کارٹون بنانے کی ناپاک جسارت ہوئی تھی۔ ایک ملک کو البتہ استثناحاصل ہے اور وہ ہے برادر اسلامی ملک سعودی عرب۔جب صدر مرسی کو ہٹایا گیا تو سعودی عرب نے جنرل سیسی کی حمایت کی اورنئی حکومت کو 5.1 بلین ڈالے کی امداد بھی دی۔جب فوجی حکومت نے اخوان کے خلاف تاریخ کا بدترین قتلِ عام کیا تو اخوانوں کو دہشت گرد قرار دیا اور ان کے خلاف فوجی اقدام کی بھرپور تائید کی گئی۔ کیا عرب کے حکمران امتِ مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا اسلام اور امت کے لیے ان کی خدمات نہیں ہیں؟اگر ہیں تو مصر اور شام میں ان کے کردار کی توجیہہ کیا ہے؟کیا امتِ مسلمہ کا سیاسی وجود محض اسم ہے جس کا کوئی مسمیٰ نہیں؟ ۳۔اقتدار کے لیے انسان اتنا بے رحم کیوں ہو جاتا ہے؟ دوسروں کو تو چھوڑیے ،مسلمانوں کی اپنی تاریخ ایسے حادثات سے مملو ہے۔سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے اب تک کیا ہو رہا ہے؟ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹتے رہے ہیں۔بنو امیہ اور بنو عباس کا جھگڑا کیا تھا؟عثمانی خلفا اور آلِ سعود میں کیا اختلاف تھا؟ ابراہیم لودھی کون تھا اور بابر کون؟دار شکوہ اور اورنگزیب کا رشتہ کیاتھا اور لڑائی کس بات پرتھی؟تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ اقتدار کی سیاست اور اخلاقیات یا مذہب کے مابین کوئی رشتہ نہیں ہے۔ خلافتِ راشدہ کا معاملہ دوسرا ہے کہ وہ ایک الٰہی فیصلہ تھا۔اس کے علاوہ اگر تاریخ میں دونوں کا ملاپ ہواہے تو یہ استثنیٰ ہے۔ ایسے مصدقہ واقعات اتنے کم ہیں کہ ان سے کوئی اصول اخذ نہیں کیاجا سکتا۔اصول ہمیشہ عموم کی بنیاد پر بنتے ہیں۔مصرکے حالات بھی اسی پر مہرِتصدیق ثبت کررہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ سیاست کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کا خواب دیکھنے والوں کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ۴۔ اخوان کے لیے ان حا لات میںصحیح طرزِ عمل کیا ہے؟ اس وقت اخوان کو تمام مہذب دنیا کی تائیدحاصل ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مظلوم ہیں۔ان کی طرف سے جواباً تشدد کی راہ نہیں اپنائی گئی۔صبر ہی اخوان کی طاقت ہے۔اخوان کو سوچنا ہوگاکہ اگر ریاست قتلِ عام پرآمادہ ہے تو کیا اسے جواباً مقتل آباد کرنے چاہئیں یا انسانی جانیں بچا نے کی کوشش کرنی چاہیے؟کیااخوان کو بھی تشدد کا راستہ اپنا لینا چاہیے؟کیا جمہوریت پر عدم اعتماد کااظہارکر دینا چاہیے؟اخوان اس وقت آزمائش اور ابتلا کے دور سے گزر رہے ہیں۔اس سارے پس منظر میں ان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک وہ جو ناصر کے دور میں، ریاست کے مظالم پر خوداخوان نے اختیار کیا۔یہ تصادم کا راستہ تھا۔ ایک وہ جو 1963ء میں جماعت اسلامی پاکستان نے ریاستی مظالم کے خلاف اختیار کیا۔جماعت اسلامی کے پُر امن اجتماع پر بلا وجہ گولی چلائی گئی جس کے نتیجے میں ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گیا۔مولا نا مو دودیؒ نے ریاست کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ا نہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے قتل کا یہ مقد مہ ایک ایسی عدالت میں دائر کر دیا ہے جہاں نا انصافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ میرے خیال میں اخوان کو یہی راستہ اختیار کر نا چاہیے۔تشدد و تصادم سے گریز اور مظلومانہ جدو جہد۔اقتدار کے لیے عوامی تائید پر انحصار۔اگر انہوں نے جواباً گولی چلائی جیسا کہ کچھ واقعات ہوئے ہیں تو ان کا اخلاقی مقدمہ کمزور ہو جائے گا۔اگراخوان نے صبر اور حکمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑاتو مستقبل ان شااللہ ان ہی کاہے۔فرعونوں کا مستقبل تو اہرام کی قبریں ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved