پاکستان ایف اے ٹی ایف (فیٹف )کی گرے لسٹ سے کب نکلے گا‘ اس بارے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ فی الحال اکتوبر کا وقت دیا گیا ہے لیکن اس کے بعد کوئی نئی شرط عائد کی جائے گی یا نہیں‘ اس حوالے سے بھی کچھ یقین سے نہیں کہاجا سکتا۔ فیٹف کا فیصلہ سترہ جون کو پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً شام سات بجے سنایا جانا تھا لیکن تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل سے لے کر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ نواز سے لے کر عوامی مسلم لیگ تک‘ سب صبح ہی سے اس کا کریڈٹ لینا شروع ہو گئے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ حماد اظہر صاحب کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے فیٹف اجلاس کی ماضی کی تصاویرشیئر کی جا رہی تھیں۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم اس حوالے سے کافی مؤثر کمپین کر رہی تھی۔ مبارکبادیں اور مٹھائیاں تقسیم ہونے کا منظر کسی انتخابی جیت سے کم نہیں تھا لیکن سب کچھ اس وقت بے وقعت اور بے معنی ہو کر رہ گیا جب ایف اے ٹی ایف کے ارکان نے پاکستان کی پیشرفت پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کو 34 آئٹمز پر مشتمل دونوں ایکشن پلانز مکمل کرنے بالخصوص ریکارڈ مدت میں 2021ء کے ایکشن پلان کی تکمیل پر مبارکباد دی اور پھر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ اکتوبر تک ملتوی کر دیا۔ شرط یہ رکھی گئی ہے کہ فیٹف ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے یہ جائزہ لے گی کہ پاکستان نے جو نظام تشکیل دیا ہے‘ وہ مستقبل میں قائم رہ سکے گا یا نہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ معاملہ حیران کن ہے اور اس میں سے عالمی سازش کی بو آ رہی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق گرے لسٹ سے نکالنے سے پہلے آن سائٹ وزٹ فیٹف کے ایس او پیز میں شامل ہے اور یہ کوئی انہونی یا نئی بات نہیں ہے۔
خیر‘ پاکستان نے 34 پوائنٹس پر من و عن اور وقت سے پہلے عمل درآمد کیا جسے سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ناممکن کو بھی ممکن کر کے دکھا سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس کا کریڈٹ کسے دیا جائے۔ اس حوالے سے جب میری ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس کشتی کو پار لگانے میں ان کا بھی کردار ہے۔ ڈالرز کو بیرونِ ملک سمگل ہونے سے روکنے کے لیے جو ایس او پیز ڈیزائن کیے گئے‘ اس میں ان کی بھی مشاورت شامل تھی۔ البتہ اس کا کریڈٹ انہوں نے پاک فوج کو دیا۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی نے فیٹف نکات پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی سیل بنایا تھا جو اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن اور ایس او پیز بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا تھا۔ ان کے بقول انہوں نے بھی اس سیل کے ساتھ کام کیا تھا۔ پراچہ صاحب کے اس بیان کی تصدیق ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کر چکے ہیں کہ پاک فوج نے فیٹف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک خصوصی سیل بنایا تھا جس کی دن رات کی محنت سے پاکستان نے 34 شرائط پر من و عن عمل درآمد کیا۔ البتہ اس معاملے کو دوسرے زاویے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
فیٹف معاملے میں سے بھارت کا کردار نکال دینا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ بھارت نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کو مکڑی کے اس جال میں پھنسا کر دہشت گرد ریاست ڈکلیئر کرا دیا جائے۔ اس کا اظہار اس کے حکمران جلسوں میں سر عام کر چکے ہیں۔ بھارت نے پورے دل سے دشمنی نبھائی لیکن پاکستان نے اسے چیلنج کے طور پر لیا جس کے مثبت نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ اگر بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے عالمی پریشر ڈال کر سخت قوانین لازم قرار نہ دلواتا تو ملکی معیشت اس طرح دستاویزی نہ ہو سکتی اور اگر ہوتی بھی تو اسے مزید کئی سال درکار ہوتے۔ آج بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجنے جانے والے زرمبادلہ میں اضافے کی ایک وجہ ڈالر کی سمگلنگ کے غیر قانونی راستے بند کرنا بھی ہے جو فیٹف کے باعث ممکن ہوا۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی میں قانون سازی بھی کی گئی جبکہ عدالتوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا۔سابق چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے بینکوں کو وارننگ دی تھی کہ اگر مقررہ تاریخ تک تمام بینک اکائونٹس کی بائیو میٹرک ویری فکیشن مکمل نہ ہوئی تو توہینِ عدالت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ میں نے یہ امر کا خود مشاہدہ کیا کہ بینکوں کے چیف ایگزیکٹوز تک خود بائیومیٹرک مشینیں لے کر اکائونٹ ہولڈرز کے گھر وں تک پہنچے اور جو بینک سٹاف چھ‘ سات بجے گھر چلا جاتا تھا‘ اس نے رات بارہ بجے تک کام کر کے اکائونٹس کی بائیومیٹرک تصدیق کی اور جن کی تصدیق نہ ہو سکی‘ انہیں فوری طور پر بند کر دیا گیا۔
دوسری جانب ان سخت فیصلوں کی مخالفت بھی ہوئی۔ اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومتی اتحاد نے ایف اے ٹی ایف بلز اسمبلی سے پاس نہ کرانے کے حوالے سے احتجاج بھی کیے۔ کل تک اس معاملے میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے آج 34 پوائنٹس پر مکمل عمل درآمد کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔حالانکہ عوام حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دوسری طرف سوال یہ ہے کہ کیا فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔ سری لنکا جب دیوالیہ ہوا تو وہ فیٹف کی گرے لسٹ میں نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی دعا اور دوا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے پر بھی اسی طرح ہنگامی طور پر متوجہ ہونا چاہیے۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالرز کی نفسیاتی حد سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ڈالر کی قدر میں روزانہ کی بنیاد پر ایک سے ڈیڑھ روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ڈالر اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ملنے سے پہلے ڈالر 238 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ مارکیٹ میں یہ افواہیں بھی اڑائی جا رہی ہیں کہ آئی ایم ایف نے ڈالر کی قیمت 240 روپے تک لے جانے کا ہدف دیا ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ‘ میں اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں لیکن کاروباری حضرات کے مطابق حالات مسلسل خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف اب بھی ناخوش ہے۔ اس کی وجہ حکومت کا آئی ایم ایف سے وعدہ کر کے مکر جانا ہے۔ سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ سالانہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے عین مطابق ہو گا لیکن مبینہ طور پر بجٹ میں بعض شعبوں میں ریلیف دے کر وعدے سے انحراف کیا گیا۔ اب دوبارہ بجٹ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جب حکومت جانتی تھی کہ عوامی پذیرائی وقتی ہے اور اصل مقصد آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے تو جان بوجھ کر تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ کاروباری طبقہ‘ خصوصاً چھوٹی انڈسڑی کے سٹیک ہولڈرز شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے سٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کو کوئی ایسی پالیسی بنانا ہو گی جس سے یہ صنعتیں ڈوبنے سے بچ سکیں۔ بینک سود کی ادا ئیگیوں کو کچھ عرصہ کے لیے التوا میں ڈال کر کاروباری لوگوں پر بوجھ کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجٹ منظور ہونے سے پہلے آئی ایم ایف پروگرام کا منظور ہونا ضروری ہے۔ اب تک آئی ایم ایف کا واضح بیان آ جانا چاہیے تھا کہ وہ نئی حکومت کے فیصلوں سے مطمئن ہے یا نہیں تا کہ سرمایہ کار مطمئن ہو سکتے۔ اسی صورت میں مارکیٹ میں ٹھہرائو اور مضبوطی آ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر پچھلے تین سالوں میں انڈسٹری لگانے میں جو محنت کی گئی تھی‘ وہ چند ماہ میں رائیگاں جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں کاروباری طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے یہ حساب کتاب ہی نہیں لگایا کہ اس سے کیا فائدہ ہو گا اور کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ بغیر سمت کے پالیسیاں بنانا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اندرون اور بیرونِ ملک سرمایہ کار موجودہ حکومت سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایک مضبوط معیشت کے لیے مضبوط اور مستقل سیاسی نظام کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کاروباری طبقے کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ موجودہ پالیسیاں طویل المدت ہوں گی، بصورتِ دیگر عدم اعتماد کی کیفیت میں اضافے کا خدشہ ہے جو ملکی معیشت اور کاروبار‘ دونوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved