نہ جانے یہ عمر کا تقاضا ہے‘ قوم کی قسمت کے اثرات یا موجودہ سیاسی اور سماجی صورت حال کہ دل ماضی کے اچھے دنوں کو ایسے ڈھونڈتا ہے جیسے کسی زمانے میں کتب خانوں کے تہہ خانوں میں کاغذات کے پلندوں کو کھنگالا کرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسی بات‘ ایسے کھوئے ہوئے اوراق‘ یا گم شدہ قصہ تلاش کریں جس کی کسی اور کو خبر نہ ہو۔ معیشت کی اس حالت پر کیا کریں۔ اس بیان کو اب الفاظ کی حاجت کہاں رہی ہے؟ آپ لوگوں کے چہروں پر درج تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ ہر پیشانی حساب کا گوشوارہ ہے۔
اب یہ زندگی کہ نہ کسی سے ملنا‘ نہ کہیں جانا‘ نہ وہ محفلیں جو کسی زمانے میں سجتی تھیں اور جن کے لیے روح تڑپتی تھی۔ اگر بے چینی ہے تو یہ کہ برسوں سے جمع شدہ یادوں کا سرمایہ کیسے ایک بار پھر نظر سے گزارا جائے۔ ایسا نہ ہوکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ آنکھیں بھی جواب دے جائیں۔ ہمارے سرمائے میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو ہمیں اپنے برقی پروں پر بٹھا کر گزرے ہوئے وقت کی اُن جنتوں میں لے جاتی ہیں جہاں پُرسکون لمحات لوری دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ احساس کہ وقت کتنا اچھا گزرا ہے‘ نہ کوئی شکایت‘ نہ ندامت‘ نہ ملال‘ نہ کوئی ادھورے خواب۔ یہ خیال ہمیں حالاتِ حاضرہ کے عذاب سے کوسوں دور رکھتا ہے۔ شاید انسانی نفسیات ہی ایسی ہے‘ ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں۔ احساس کے بھی اپنے کرشمے ہوتے ہیں۔ تخیل کی اپنی آباد کاری ہوتی ہے۔
خطۂ پوٹھوہارا ور اسلام آباد کو تقریباً نصف صدی قبل دیکھنے کا موقع ملا۔ ہم بے شک نہ بدلے ہوں لیکن یہ دنیا بدل چکی۔ دریائے جہلم پار کرنے سے پہلے سرسبز پہاڑیاں‘ ابھرے ہوئے ٹیلے دکھائی دیتے تھے۔ ایسی نکھری ہوئی شاداب پہاڑیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میدانوں اور صحرائوں سے نکل کر پوٹھوہار کی سرزمین میں داخل ہونے کی کیفیت بیان سے باہر۔ حسنِ بے پروا کی ایسی بے نقابی! صرف قادرالکلام شاعر ہی اس کیفیت کو بیان کر سکتے ہیں۔ ہم عام لوگ صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کا نام سنا تھا اور اس کے افسانے بھی۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ ایوب خان نے اپنے آبائی گھر کے قریب ایک جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ ریاست کا مرکز وہاں ہو۔ سب کچھ بنا ہوا تھا۔ اب اسے ڈھنگ اور سلیقے سے بنایا جارہا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ ان بستیوں‘ ڈیروں‘ گھروں‘ آبادیوں اور دیہات کی تاریخ جہاں یہ شہر روز بروز ہر سمت پھیلتا چلا جارہا ہے‘ ان کالی سڑکوں‘ ریت‘ پتھر اور اینٹوں کے بے ہنگم بلند و بالا پلازوں اور اشرافیہ کے محلات تلے دب کر دم نہ توڑ جائے۔ ہمارے محترم معاصر‘ آصف محمود صاحب اور سجاد اظہر صاحب اچھے وقتوں کے بوڑھوں کو تلاش کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ جہاں یہ شاہراہ ہے اور یہ ایوان اور یہ مارکیٹ ہے‘ وہاں کئی صدیوں سے یہ لوگ آباد تھے۔ ان کا سب کچھ اجاڑ کر اسلام آباد کو آباد کیا گیا۔ یہ اس درویش کا آبائی علاقہ تو نہیں لیکن میں نے اسے اچھے وقتوں میں دیکھا ہوا ہے۔ اس کا بہت کچھ یادوں کے دفتر میں محفوظ ہے۔ ایک شہزاد ہوٹل تھا اور دور کہیں دوچار سفید رنگ کی عمارتیں نظر آتی تھیںجنہیں اب سیکرٹریٹ کہا جاتا ہے۔ زیرو پوائنٹ سے آگے مغرب‘ جنوب یا مشرق میںکچھ نہ تھا۔ یاد آیا کہ ہمارے قیمتی اثاثوں میں نیشنل جیوگرافک کا ایک شمارہ ہے جس کے سرورق پر طاہرہ سید کی ان ایام کی تصویر ہے‘ وہ گجروں میں لدی ایک جھولے میں بیٹھی ہیں۔ خود فوٹو گرافر بھی کم صاحب ذوق نہ تھا۔ تصویر خود مصور کے ذوق کی گواہی دیتی ہے۔ مرکزی مضمون نئے شہر کے پُرامید اور تاب ناک مستقبل کے بارے میں تھا جو اس وقت کے عالمِ اُفق پر ابھرنے والے نئے پاکستان کی عکاسی کرتا تھا۔ اندر کی تصویر میں وہی دو سفید رنگ کی عمارتیں قدرتی جنگل اور سرسبز پہاڑ تھے۔ اسلام آباد‘ مارگلہ نیشنل پارک کے سائے اور دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ہم پہاڑوں میں نکل جاتے اور اپنے راستے خود ہی بناتے۔ اکثر صبح سویرے مری جانے والی ویگن پر سوار ہو جاتے اور ایوبیہ اور نتھیا گلی سڑک پر پیدل چلتے۔ واپس آکر مال روڈ کے ایک مشہور کیفے میں ٹھنڈی کافی نوش کرنے کے بعد واپس آجاتے۔ اس وقت وہاں شاید ہی کوئی کار دکھائی دیتی تھی۔ یہ معمول تب ٹوٹا جب ہم لاہور اور پھر امریکا چلے گئے۔ کئی برس اُدھر گزرے۔ اس کے بعد اسّی کی دہائی کے اوائل میں ایک بار پھر یہاں آگئے۔ اس مرتبہ مری کے پرانے راستوں پر چلنا آسان نہ تھا۔ ایک مرتبہ کوشش کی تو دھواں اور زہر اگلتی گاڑیوں نے ایسی حالت بنائی کہ دم گھٹنے لگا۔
گزشتہ ہفتے کئی عشروں کے بعد گلیات کی پرانی راہوں کی تلاش ایک بار پھر اس علاقے میں کھینچ لائی۔ ذمہ دار ہمارے دوست‘ سردار شاہنواز ہیں جو ہر سال مری میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک سالانہ ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم صرف بقدر مجبوری ہی سرداروں کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے ہیں‘ وگرنہ ہمیشہ حاضر خدمت۔ ہم پر یہ راز پہلی مرتبہ کھلا کہ وہ وہاں کے تاریخی اور نئے راستوں کے بارے میں کتابی علم ہی نہیں بلکہ عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ نتھیا گلی کے قریب کسی ٹریل کا ذکر کرکے سو گئے تاکہ کل ان کی قیادت میں قدم بقدم دم سادھے چلیں گے۔ صبح بیدار ہونے سے پہلے وہ استاد اپنے شاگردِ خاص‘ ظفر اقبال گوندل کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے ایک قریبی ٹریل پر چلنے کی مشق کر آئے تھے۔ ٹریل کیا تھا‘ بس ہر طرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار‘ گندگی کے ڈھیر اور کئی مقامات سے راستہ غائب۔ بے اختیار پنجاب کی نوکر شاہی یاد آگئی۔ اس پر ہم نے جو کچھ اسے دل ہی دل میں کہا‘ وہ دل ہی میں رہے تو بہتر ہے۔ جھینگا گلی سے ہم نے پائپ ٹریل لی تو ایسا لگا کہ کے پی میں نہیں بلکہ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔ ہم نے دل ہی دل میں کسی کو زندہ باد کہا اور دعائیں دیتے چلتے رہے۔ یہ ٹریل 1892ء میں انگریز نے پانی کے پائپ کے ساتھ ساتھ بنایا تھا مگر اسے جدید اور محفوظ بنانے کا سہرا وہاں کی حکومتِ وقت کے سر ہے۔ ہم نے جانے اور واپس آنے کا کل ملا کر نو کلو میٹر پیدل سفر کیا لیکن کہیں کوڑا کرکٹ‘ پلاسٹک کے بیگ یا کوئی ریپر دکھائی نہ دیے۔ ٹریل کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بہت معقول جگہیں بنائی گئی تھیں اور مشروبات کا انتظام تھا۔ وقت پر دونوں جانب گیٹ کھلتے اور بند ہوجاتے ہیں۔ تقریباً بیالیس سال بعد ایوب نیشنل پارک میں گزرنے والے اس ٹریل اور گھنے جنگل میں وہ کچھ دیکھا جو ہماری یادوں کی کئی تہوں میں کہیں دفن ہو چکا تھا۔ سوچتا ہوں کہ کہیں تو کچھ ہے کہ یہ ڈگمگاتا‘ لڑکھڑاتا‘ لٹا پٹا ملک چل رہا ہے۔ ایک شخص ڈبا گلے میں لٹکائے مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ پتا چلا کہ فرسٹ ایڈ کی سہولت ہے جو ٹریل پر ہر وقت دستیاب ہے۔ اگر روزانہ تین سے چار سو لوگ فیس ادا کرکے اس پارک کی سیر کرتے ہیں تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ یہ بتاتا تو بھول ہی گیا کہ پہاڑیوں کے ارد گردکیسے رنگوں کی بہار اتری ہوئی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved