پاکستان کی موجودہ اقتصادی پالیسیاں جولائی 2019ء میں شروع کیے گئے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کو یقینی بنانے پر مرکوز ہیں‘ اور اس بات پر کہ پاکستان بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ نہ کر جائے۔ اس پالیسی نے عام شہریوں کے معاشی حالات پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے خورونوش اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت عام لوگوں کی معاشی تکالیف کو دور کرنے پر مشکل ہی سے کوئی توجہ دے رہی ہے؛ البتہ یہ آبادی کے غریب ترین طبقوں کو محدود مالی امداد اور منتخب پوائنٹس پر چند کھانے پینے کی اشیا رعایتی قیمتوں پر فراہم کرکے کچھ ریلیف فراہم کر رہی ہے۔ اس پروگرام کی رسائی محدود ہے اور یہ مہنگائی‘ قیمتوں میں اضافے اور یوٹیلٹیز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرحوں کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی ناکامی کی تلافی نہیں کرتا۔
عام لوگوں کو مناسب معاشی ریلیف فراہم کرنے میں حکومت کی نااہلی کی بنیادی وجہ ملکی معیشت کا غیرملکی ذرائع پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ ان ذرائع میں مالیاتی گرانٹس‘ پروجیکٹس سے متعلق مادی و تکنیکی امداد‘ ممالک سے انفرادی طور پر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے غیرملکی قرضے‘ رقم حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ٹرم بانڈز کی فروخت اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم شامل ہیں۔ حکومت اب پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کچھ نئے قرضے لیتی ہے۔ یہ عمل ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچاتا ہے‘ لیکن یہ معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے غیرملکی ذرائع پر انحصار بڑھاتا ہے۔ زیادہ تر ممالک بیروِن ملک سے رقم ادھار لیتے ہیں یا بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری چاہتے ہیں؛ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ غیرملکی قرضوں پر انحصار کی حد کیا ہے اور قرضے کے طور پر لیے گئے فنڈز کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ کیا یہ فنڈز تکنیکی ترقی‘ صنعت کاری اور اقتصادی ترقی کے لیے استعمال ہوتے ہیں؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ملک نہ صرف بغیر کسی پریشانی کے قرضے واپس ادا کر سکتا ہے بلکہ معاشی طور پر خود کفیل بھی ہو سکتا ہے۔ یوں غیرملکی قرضوں اور امداد کا بنیادی مقصد معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہ بیرونی مالی امداد پر انحصار کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک نے جب غیرملکی مالی مدد حاصل کرنا شروع کی تو ان کی ایک بڑی تعداد اس طرح کا راستہ اختیار نہیں کر سکی۔
پاکستان نے 1950ء کی دہائی کے اوائل سے غیرملکی اقتصادی گرانٹس اور قرضے حاصل کرنا شروع کیے تھے۔ قرضے حاصل کرنے کی رفتار میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب پاکستان نے 1954-55ء میں امریکی سرپرستی میں قائم اتحاد کے نظام میں شمولیت اختیار کی۔ 1950ء کے وسط سے 1965ء تک پاکستان کو ملنے والی مختلف قسم کی مالی امداد میں گندم‘ کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی‘ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہنگامی امداد‘ باقاعدہ کثیر سالہ گرانٹس اور قرضے‘ تعلیم اور انسانی ترقی کے لیے گرانٹس اور قرضے‘ پانی کے ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالی امداد‘ اور ملٹری گرانٹس و سیلز شامل ہیں۔ یہ تعاون بنیادی طور پر امریکا‘ دیگر مغربی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے حاصل ہوا۔ چین نے 1963ء کے بعد سے پروجیکٹس سے متعلق مالی مدد فراہم کی۔ بعد ازاں 1970ء میں‘ چین نے پاکستان کی سویلین اور ملٹری سے متعلقہ صنعت کاری میں تعاون کیا۔ سوویت یونین نے 1968-69ء میں کچھ ہتھیار فراہم کیے‘ اور 1971ء کے بعد کے دور میں کراچی کے قریب سٹیل مل قائم کی۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی سربراہی میں تین آمر حکومتوں کو قرضوں اور گرانٹس کی شکل میں زیادہ سے زیادہ بیرونی مالی معاونت حاصل ہوئی کیونکہ پاکستان اس وقت کے امریکی عالمی ایجنڈے میں بالکل فٹ تھا۔ پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا اور1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اس نے ایک اہم رجحان کی شکل اختیار کر لی۔ ایوب خان کے دور میں پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے والے کچھ بڑے ڈیم مکمل ہوئے؛ تاہم غیر ملکی امداد کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد دھچکا لگا جس سے پاکستان پر سکیورٹی دباؤ بڑھ گیا اور غیرملکی امداد اور فوجی سازو سامان اتنی آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔ یہ رجحان 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھی جاری رہا‘ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں نے اس وقت معاشی بحالی میں ہماری مدد کی جبکہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے پاکستان کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیا۔
1980ء کی دہائی کے دوران پاکستان کو امریکا، مغربی ممالک اور کچھ عرب ریاستوں سے افغانستان پر حملہ آور سوویت فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کی تشکیل میں مدد کے لیے کافی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ غیرملکی مالی مدد ملی۔ پرویز مشرف کی قیادت میں بھی پاکستان کی حکومت نے ستمبر 2001ء کے بعد کے عرصے میں امریکا کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت کے نتیجے میں مغرب سے آزادانہ اقتصادی امداد حاصل کی۔ پاکستان ان دو مرحلوں کے دوران عالمی مالیاتی امداد سے فائدہ نہیں اٹھا سکا کیونکہ دونوں حکومتوں نے غیر ملکی فنڈنگ کو اپنے قابلِ قبول ہونے کے بیرونی اور داخلی بحران پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔ داخلی طور پر انہوں نے اس فنڈنگ کو طویل مدتی تحفظات کی بنیاد پر اقتصادی اور صنعتی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے سیاسی حمایت کے لیے استعمال کیا۔ ایوب خان کے برعکس‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا بڑا ہدف اپنی حکومتوں کے مستقبل کو غیرملکی فنڈنگ کا سیاسی استعمال کر کے محفوظ بنانا تھا‘ بجائے اس کے کہ اس فنڈنگ کو معیشت کو ایک قابل عمل وجود میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا۔ اس عمل نے شہری آبادی کے ایک حصے میں مصنوعی خوشحالی پیدا کی‘ ریاستی سطح پر آسانی سے دستیاب غیرملکی دولت کو بے دریغ خرچ کرنے کا رجحان پیدا کیا اور متمول طبقوں میں وسائل سے باہر رہنے کی عادت ڈالی۔ تاجر اشرافیہ کے ایک طبقے نے بھی ان میں شمولیت اختیار کر لی‘ جس نے پاکستانی مزدوروں کو بیرون ملک بھیج کر اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی لانچنگ سے پیسہ کمایا۔ لوگوں کا ایک اور گروہ بھی تھا جس نے سرکاری محکموں میں دوسرے لوگوںکے کاموں کو آسان بنا کر‘ سرکاری منصوبوں کے لیے ٹھیکیدار کی مدد کر کے اور حکومتی شعبہ جات کو سامان اور خدمات کی فراہمی کے ذریعے پیسہ بنایا۔ پچھلے تیس برسوں میں بہت سے لوگ امیر ہو گئے اور انہوں نے اپنی دولت کو سیاسی اثر و رسوخ خریدنے کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں وہ زیادہ پیسہ کمانے کے قابل ہوئے۔ ریاست نے ضیاء‘ مشرف کے ادوار میں غیر ملکی امداد کا فائدہ محدود حد تک ہی اٹھایا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں انتہا پسندی کے عروج‘ بندوق کے کلچر کے پھیلاؤ اور 2004ء کے بعد سے دہشت گردی اور تشدد کے بڑھنے سے اس (ریاست) کے مفادات کے ایک بڑے حصے پر سمجھوتا کیا گیا۔ ریاست اور معاشرے نے دونوں صورتوں میں مغرب کے ساتھ صف بندی کی بھاری قیمت چکائی۔
اس دوران جب پاکستان کا غیرملکی اقتصادی تعاون پر انحصار بڑھتا گیا‘ حکمران اشرافیہ کے ایک حصے اور ان کے ساتھیوں کی معیشت ترقی کرتی گئی۔ اب پاکستان قرضوں کے خطرناک عالمی جال میں پھنس چکا ہے۔ یہ خود غرض اور خود پسند اشرافیہ کی کہانی ہے جس نے ریاستِ پاکستان کے طویل مدتی مفادات کی قیمت پر اپنے مفادات کو پورا کیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved