تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-06-2022

ایشوز کا گورکھ دھندا

ایجنڈے اندرونی ہوں یا بیرونی‘ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایک بحران ختم ہوتا نہیں کہ دوسرا سر اٹھانے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود ہوتا ہے؟ کچھ بھی خود بخود نہیں ہوتا۔ ہر معاملے کی پشت پر کوئی نہ کوئی عامل ضرور ہوتا ہے۔ اب چاہے وہ فرد ہو‘ کوئی تنظیم یا پھر حکومت۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر معاملہ مختلف النوع ایشوز کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ سبھی کچھ ایجنڈوں کی چوکھٹ پر قربان ہو رہا ہے۔ ابھی ہم ایک معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا معاملہ سامنے آکر ہماری ساری توجہ ہڑپ کرنے لگتا ہے۔
1998ء میں ریلیز ہونے والی مشہور بالی وُڈ مووی 'ستیہ‘ کا ایک سین ہے کہ ہیرو‘ جو پولیس کو مطلوب ہے‘ ہیروئین کے ساتھ فلم دیکھنے سنیما جاتا ہے جہاں ایک دشمن غنڈا اُسے دیکھ لیتا ہے اور پولیس کو مطلع کردیتا ہے۔ پولیس کی نفری سنیما ہال کو گھیر لیتی ہے۔ فلم جب ختم ہوتی ہے تب پولیس انسپکٹر پردے کے سامنے کھڑا ہوکر حاضرین کو مطلع کرتا ہے کہ ہال میں ایک مطلوب مجرم موجود ہے جسے گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری نے سنیما ہال کو گھیر لیا ہے۔ ہال کے تمام درازے بند کرکے صرف ایک دروازہ کھلا رکھا گیا ہے جس سے سب کو نکلنا ہو گا۔ اتنا سننے پر ہال میں موجود لوگ بدحواس ہونے لگتے ہیں۔ خیر‘ لوگ ایک ایک کرکے نکلنے لگتے ہیں۔ ہیرو بھی ہیروئین کے ساتھ قطار بند ہو جاتا ہے۔ اگر سب کچھ یونہی چلتا رہا تو ہال سے نکلنے پر پکڑا جائے گا۔ ہیروئن نہیں جانتی تھی کہ پولیس جسے لینے آئی ہے وہ اُسی کے ساتھ سینما آئی ہے! ہیرو کے بچ نکلنے کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے ... یہ کہ ہال میں افراتفری مچ جائے اور ہڑبونگ کا فائدہ اٹھاکر وہ بھی نکل لے۔ ہیرو کے پاس پستول ہے۔ وہ جب یہ محسوس کرلیتا ہے کہ گرفتاری سے بچنے کی کوئی اور صورت نہیں تو وہ ایک فائر کرتا ہے۔ ہال میں افراتفری مچ جاتی ہے اور لوگ پولیس کے انتباہ کو نظر انداز کرکے بھاگنے لگتے ہیں۔ ہیرو اورہیروئین بھی اس ہڑبونگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں؛ البتہ اس افراتفری میں ایک درجن سے زائد لوگ کچل کر مارے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں حکومتیں یہی کھیل کھیلتی آئی ہیں۔ جب وہ محسوس کرتی ہیں کہ بچ نکلنے کی کوئی اور راہ نہیں بچی تو فائر کھول کر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہیں۔ ہڑبونگ مچتی ہے، لوگ بھاگ نکلتے ہیں اور حکومت کو بچ نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا سب سے خطرناک پہلو یہی ہے کہ اس سمندر میں کچھ بھی غرق کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے خالص انفرادی معاملات کو بھی یوں پیش کیا جاتا ہے گویا قومی مسائل ہوں اور اُنہیں اجاگر کیے بغیر قوم کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔ اگر کسی بچی کو اُس کی سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ نے (یا پھر اصلی ماں باپ) نے گھر میں قید کر رکھا ہو، زنجیروں میں باندھ کر ذہنی مریض بنادیا ہو تو کوئی سماجی کارکن کسی چینل کی ٹیم کے ساتھ چھاپہ مارتا ہے، لڑکی کو آزاد کراتا ہے اور پھر اُس لڑکی کو پوری قوم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کو یوں قید کرکے رکھنا انتہائی قبیح فعل ہے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی ہی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ ایسے کسی بھی معاملے کو پوری قوم کا مسئلہ بناکر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا بھر میں اس نوعیت کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ خالص انفرادی سطح کے ان معاملات کو مین سٹریم یا سوشل میڈیا پر لاکر پوری قوم کو خلجان میں مبتلا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ترقی یافتہ دنیا ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر وہاں مین سٹریم یا سوشل میڈیا پر اُنہیں اشتہاری مہم کے سے انداز سے پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ ''ڈی ہیومنائزیشن‘‘ کی ایک شکل ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے بیان کرنا معاشرے میں محض خلجان اور خلفشار پیدا کرتا ہے۔ ریٹنگ اور ہِٹس کے چکر میں ایسی ہر بات کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے۔ معروف سماجی کارکن کسی بچی یا بچے یا پختہ عمر کے کسی فرد کو اُس کے اپنے اہلِ خانہ کے چنگل سے نکال کر آزادی سے جینے کا موقع فراہم کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے جسے سراہا جانا چاہیے مگر اِسے قومی اِیشو کے درجے میں رکھنا کہاں کی دانش ہے؟ یہ کون سا ایجنڈا ہے؟ قوم کو زیادہ سے زیادہ مثبت باتوں کی ضرورت ہے۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات پیش کرنے کی ضرورت ہے جن سے لوگوں کو کچھ سیکھنے کو ملے۔ اگر کسی سوتیلی ماں کی بدسلوکی یوں طشت از بام کی جاتی ہے تو ہر سوتیلی ماں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن گھروں میں سوتیلی ماں یا سوتیلا باپ ہو اُن کا ماحول بگڑتا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی سطح پر ذہنوں میں یہ تصور میخ کی طرح گاڑ دیا گیا ہے کہ سوتیلی ماں ظالم ہوتی ہے یا سوتیلا باپ سفاک ہوتا ہے۔ سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ کے ہاتھوں بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر یہ معاشرے کا عمومی چلن نہیں۔ اِسے معاشرے کا چلن بناکر پیش کرنا بُری بات ہے۔ یہ بات حکومت بھلا کیوں سکھانے لگی؟ حکومتوں کو ایسے واقعات و معاملات کی تلاش رہتی ہے تاکہ بڑھاکر چڑھاکر پیش کیا جائے اور قوم کو اِنہی باتوں میں الجھاکر رکھا جائے۔
لوگ عمومی سطح پر جو کچھ کر رہے ہیں اب وہ سب کچھ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین سٹریم پر بھی پیش کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جارہی۔ اگر چائے کے ہوٹل پر کوئی شخص ٹیبل مین کی تذلیل کر رہا ہو تو لوگ وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ ایسے معاملات پوری قوم کا مسئلہ نہیں ہیں کہ یوں پھیلائے جائیں۔ لازم ہے کہ اس معاملے میں لوگ خود ہی کوئی حد مقرر کریں اور اُس سے آگے نہ جائیں۔ ہر چیز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والی نہیں ہوتی۔ ایسا کرنے سے محض ذہنی خلفشار بڑھتا ہے۔ ہر حکومت کو چند ایک ایشوز درکار ہوتے ہیں تاکہ لوگ اُن میں الجھے رہیں اور حکومتی کارکردگی کے بارے میں سوچنے اور سوال اٹھانے کی طرف نہ آئیں۔ جب کوئی ایشو دکھائی نہ دے رہا ہو تو (بظاہر) حکومت خود کچھ ایسا کرتی ہے کہ لوگ متوجہ ہوں اور اُسی میں گم رہیں۔ بیانات اور جوابی بیانات بھی اِسی کھیل کا حصہ ہیں۔ کوئی ایک متنازع بیان یا انٹرویو دے کر لوگوں کو ردِعمل میں الجھادیا جاتا ہے تاکہ وہ بنیادی مسائل کی طرف نہ دیکھیں، اپنے شب و روز تبدیل کرنے کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں۔
ایجنڈے پر کام کرنے والے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ اُنہیں روکا نہیں جاسکتا کیونکہ اس حوالے سے قوانین ہیں نہ ارادہ و ولولہ۔ ہاں‘ کسی بھی منفی معاملے کی راہ روکنے کی کوشش کر گزرنے کی پوری آزادی سبھی کو میسر ہے۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی منفی ہے اُس کے مقابل مثبت کو پیش کرنا ہر اُس انسان کی ذمہ داری ہے جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی درجے میں اس حوالے سے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ فی زمانہ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کے ساتھ ساتھ پام ٹاپ پبلشنگ کی سہولت بھی میسر ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ فضول پوسٹس سے آنکھ بند کرکے گزر جائیں۔ منفی باتوں پر شدید ردِعمل کے ذریعے بھی معاملات کو درست کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب فیڈ بیک دینے میں تاخیر یا تساہل سے کام نہ لیا جائے۔ ہر معاملے کو ایشو بلکہ عوامی ایشو بنانے کی ذہنیت سے گریز لازم ہے۔ عام آدمی کو سوچنا چاہیے کہ جو کچھ اُس کے کام کا ہے بس وہی اُس کے کام کا ہے۔ ہر معاملے پر متوجہ ہونا لازم بھی نہیں اور سودمند بھی نہیں۔ مثبت سوچ صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان پوری شعوری کوشش کے ساتھ ایسا کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ معاشرے کا عمومی چلن منفی ہوتا ہے۔ اگر ذہن کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ منفی معاملات ہی کی طرف جاتا اور لے جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved