تو پھر ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں ؟
فادرز ڈے آتا ہے تو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ مغربی رسم ہے۔ ہمیں تو اپنے اپنے والد کو ہر روز یاد کرنا چاہیے! برسی مناتے ہیں تو کچھ حضرات بہت خلوص اور دلسوزی سے نصیحت کرتے ہیں کہ یہ جائز نہیں! ہم عقائد اور عقائد کی بنیاد پر اختلافات میں نہیں پڑتے نہ ہم اس کے اہل ہیں! بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب یاد کرنے کے بہانے ہیں ! اور رفتگاں کو یاد کرنے کا جو بہانہ ہو ‘ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے! یہ درست ہے کہ ہر روز یاد کرنا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟ زندگی کی مصروفیات نے ہر ایک کو باندھ رکھا ہے۔ ہر شخص جکڑا ہوا ہے۔ ہاں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ہر نماز کے بعد دعا کرتے ہیں: رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔''اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا‘‘۔ اور نماز کے علاوہ بھی کثرت سے یہ دعا کرتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھ کر کرتے ہیں !
اگر فادرز ڈے پر ایک بیٹا یا بیٹی اپنے باپ کو کوئی تحفہ دے دے ‘ ملبوس‘ یا کوئی کتاب یا اس کی کوئی پسندیدہ شے ‘ تو اس میں کیا حرج ہے ؟ چلیے! مان لیا کہ یہ رواج مغرب سے آیا ہے ! تو جو کیلنڈر ہم استعمال کر رہے ہیں وہ بھی مغربی ہے۔ ڈبل بیڈ کا رواج بھی مغرب سے آیا ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ڈبل روٹی اور کیک بھی نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہاں کا کلچر ہے۔ تو کلچرل تبدیلی اگر ہمارے عقائد سے نہیں ٹکرا رہی اور ہمارے مذہب سے متصادم نہیں تو اس پر کاہے کا جھگڑا! کلچر کبھی جامد نہیں ہو سکتا۔ اس میں تبدیلیاں آتی ہیں اور آتی رہتی ہیں! تین چار سو سال پہلے تک کھانا فرش پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ لباس مختلف تھا۔ انگرکھا تھا اور سلیم شاہی جوتا! آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ ثقافت ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور بدلتی رہے گی! کھانے کے اجزا تک بدل گئے۔ ٹماٹر‘ آلو‘ مالٹا‘ مرچ‘سب کچھ نیا ہے۔ اب جاپانی پھل آگیا ہے! تیس‘ چالیس سال پہلے یہاں لیچی تھی نہ سٹرا بیری نہ چَیری! قومی اسمبلی کے ارکان اور ملازمین اجلاس کے لیے ڈھاکہ جاتے تھے تو واپسی پر کیلا اور چیکو سوغات کے طور پر ضرور لاتے تھے۔
رہی یومِ وفات پر برسی منانا تو اتنا یاد ہے کہ جس عزیز کا یوم ِوفات ہوتا تھا‘ ہماری دادی جان کھانے پر درود پاک پڑھ کر اس کی بخشش کے لیے دعا مانگتی تھیں اور وہ کھانا مسجد بھیج دیتی تھیں۔ اسے ''درود بھیجنا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ شاید اُس وقت اختلافات نہیں تھے یا اگر تھے بھی تو رواداری اور برداشت کا زمانہ تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ ہر شخص اختلاف کی تلوار نیام سے نکال کر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ! بقول احمد ندیم قاسمی :
صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
ہمارے ناقص علم کے مطابق ‘ مذاہب ‘ مقامی رواجوں اور تہواروں سے منع نہیں کرتے۔ پنجاب میں بیساکھی اور بسنت ‘ مسلم غیر مسلم سب مناتے ہیں ! تقسیم سے پہلے عید پر مسلمان ‘ ہندو اور سکھ دوستوں کے گھر سویّاں ‘ حلوے اور دوسرے پکوان بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے تہواروں پر ‘ اُن کے ہاں سے بھی مٹھائیاں آتی تھیں۔ یورپ امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں یہ سب کچھ آج ہو رہا ہے۔ ایران‘ تاجکستان افغانستان وغیرہ میں سال کی طویل ترین رات ( شبِ یلدا) باقاعدہ منائی جاتی ہے۔ انار اور تربوز اس جشن کا لازمی حصہ ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی اصل کسی مذہب سے نکلی ہو مگر اب یہ مذہبی نہیں ثقافتی تہوار ہے۔یہی صورتحال نوروز کے جشن کی ہے! جس طرح غیر مسلم ہمیں عید مبارک کہتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ‘ کرسمس پر‘ مسیحی دوستوں کو ہیپی کرسمس کہہ دیتے ہیں؛ تاہم اب اس پر بھی اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ خوف کی فضا زیادہ سے زیادہ پھیل رہی ہے! اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے !!
فادرز ڈے اور مدرز ڈے کی طرف واپس آتے ہیں۔ ہر شخص اتنا خوش قسمت نہیں کہ اس کی اولاد فرمانبردار ہو‘ وفادار ہو اور خدمت کرنے والی ہو۔طبائع مختلف ہیں اور مزاج بھی! بے شمار عوامل اور محرکات بعض اوقات اولاد کو غافل کر دیتے ہیں۔ کچھ کا بخت سیاہ ہوتا ہے اور وہ خدمت نہیں کرتے۔ فادرز ڈے اور مدرز ڈے جیسے مواقع پر ایسے بے خبر اور بے پروا بیٹے بیٹیاں بھی ماں باپ کو یاد کر لیتی ہیں۔ بیٹیاں کیک بنا کر لے آتی ہیں۔ بیٹے کوئی تحفہ لے آتے ہیں۔ اس میں مغرب کا کیا فائدہ ہے اور مغرب کہاں سے آگیا؟ یہ مغرب‘ مشرق‘ شمال‘ جنوب کا مسئلہ نہیں۔ جس طریقے سے بھی اور جس حوالے سے بھی اور جس بہانے سے بھی ماں باپ یاد آتے ہیں‘ یاد آنے دیجیے۔ یاد کرنے دیجیے اور یاد کیجیے۔ کسی کو منع نہ کیجیے نہ حوصلہ شکنی کیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہر روز فادرز ڈے منائیں اور ہر روز مدرز ڈے منائیں اور ہر روز ان کی برسی برپا کریں تب بھی حق نہیں ادا ہو سکتا! ہم میں سے اکثر اطمینان بخش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ یہ آرام اُس والد کی وجہ سے ہے جو دن کو کام کرتا رہا اور رات کو ہمیں پاس سلاتا رہا۔ خود عید پر پرانے کپڑے پہنے۔ ہمیں نئے لے کر دیے۔ ہمارے منہ میں دو اور اپنے منہ میں ایک نوالہ ڈالا اور بعض اوقات وہ ایک بھی نہیں! سکولوں ‘کالجوں ‘ یونیورسٹیوں کی فیسیں بھریں! تعلیم دلوائی۔ پھر شادی کرائی! مغربی کلچر میں بچے کی تعلیم اور بچے کی شادی ہمارے ہاں کی طرح باپ کی کمر نہیں توڑ دیتی! کالج یونیورسٹی کے لیے بچے خود جزوی نوکریاں کرتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں حکومتیں قرض دیتی ہیں جو ملازمت ملنے کے بعد طلبہ اور طالبات قسطوں میں واپس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ جب تک تعلیم مکمل نہیں ہوتی ‘ باپ ہی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ طلبہ اور طالبات کا دورانِ تعلیم خود کمانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے ایسے ایسے نوجوان دیکھے ہیں جنہیں اچھی خاصی مقدار میں سکالر شپ ملتا ہے مگر پھر بھی گھر سے رقم منگواتے ہیں۔ رہی شادی ‘ تو شادی کے موقع پر مظلوم ترین شخص لڑکے یا لڑکی کا باپ ہوتا ہے جس نے بیٹے یا بیٹی کے سسرال کے علاوہ اپنے گھر کی خواتین کو بھی مطمئن کرنا ہوتا ہے جو ایک بے حد مشکل کام ہے۔ مغرب میں جہیز ہے نہ بَری نہ سینکڑوں مہمانوں کے لیے دعوتوں کا التزام ! اس کے باوجود فادرز ڈے کی رِیت اگر اہل مغرب نے ڈالی تو ہمیں تو ایک لحاظ سے یاد دلایا کہ باپ کا خیال کرو اور خیال رکھو! یہ بھی یاد رہے کہ جب ہم ماں باپ کہتے ہیں تو اس میں دادا دادی اور نانا نانی بھی شامل ہیں۔ ان کی دلجوئی‘ خبر گیری اور خدمت بھی ہمارا فرض ہے۔ ان کے حقوق بھی اتنے ہی ہیں جتنے ماں باپ کے ہیں بلکہ کئی لحاظ سے ان سے بھی زیادہ! دادا دادی‘ نانا نانی کے ساتھ بچوں کی دوستی مثالی ہوتی ہے۔ پوتوں‘ پوتیوں اور نواسوں‘ نواسیوں کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے ‘ اس کی مثال دنیامیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی!
تاہم ہمارے جو قارئین فادرز ڈے منانے کے مخالف ہیں ‘ ہم ان کے جذبات کی بھی قدر کرتے ہیں۔ ہم اصرار نہیں کر رہے کہ یہ دن لازماً منایا جائے۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ اگر کوئی فادرز ڈے یا مدرز ڈے کے حوالے سے ماں باپ کو اہمیت دے رہا ہے تو اسے ایسا کرنے دیجیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved