تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-06-2022

جنگلوں میں لگی آگ

ہم ایک ہاتھ سے درخت لگاتے اور دوسرے سے درخت جلاتے ہیں۔ ایک طرف ہزاروں لاکھوں نہیں اربوں درخت لگوانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس کیلئے مہم چلائی جاتی ہے۔ بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ پھر ہر سال ان جنگلوں کے ایک بڑے حصے کو جلا کر بھسم کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران جنگلوں کو آگ لگنے کے دو ہزار واقعات رونما ہوئے‘ نجانے شاعرِ احساسات و جذبات مجید امجد کی روح اس خبر سے کیسے کیسے تڑپی ہو گی جسے درختوں سے بے حد لگائو تھا۔ درختوں سے مجید امجید کے لگائو کا ان کی شاعری میں بار بار اظہار ہوتا ہے۔ دیکھئے شاعر نے کتنی شدتِ احساس میں ڈوب کر یہ شعر کہا ہو گا:
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
دنیا میں ایسے لاکھوں کروڑوں باذوق سیاح بھی ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں دیمک زدہ تاریخی عمارتیں دیکھنے کے بجائے جنگلوں میں حسنِ فطرت کی بے حجابی سے لطف اندوز ہونے کیلئے افریقہ و برازیل وغیرہ کے گھنے جنگلوں میں درختوں‘ چہچہاتے پرندوں‘ انواح و اقسام کے جنگلی جانوروں کی رفاقت میں کئی کئی دن گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے جنگل ہیں اور نہ ہی ہم فطرت کی ہم نشینی کا ذوق رکھتے ہیں۔
ڈونگا گلی سے ایوبیہ تک چار کلو میٹر کا ایک ٹریک ہے۔ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تابہ گل سربفلک صنوبر کے اشجار سے ڈھکا ہوا یہ ٹریک دنیا کے خوب صورت ترین ٹریکس میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں بھی اس ٹریک سے گزرنے کا بارہا موقع ملا ہے۔ یقین کیجئے اس حسین و جمیل جنگل سے گزرتے ہوئے آپ چند گھنٹوں کیلئے بھول جاتے ہیں کہ زمانے میں اور بھی غم ہیں۔ شاہ بلوط کے آسمان کو چھوتے ہوئے درختوں کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر ٹریک پر املتاس کی شاخیں زرد رنگ کے پھولوں سے آنے والوں کو خوشدلی سے خوش آمدید کہتی ہیں۔ شاید اسی طرح کے مناظر سے متاثر ہو کر ڈاکٹر خورشید رضوی نے یہ خوبصورت شعر کہا تھا؎
کانوں میں پھول پہنے ہوئے کنجِ دل میں آج
اترا ہے کون شاخِ املتاس کی طرح
ذرا سوچیے کتنا دل خراش ہو گا وہ منظر جب ایسے باغ و بہار اور ہنستے مسکراتے درختوں کو جلا دیا جائے۔ صرف مئی اور جون کے مہینے میں خیبرپختونخوا میں 200 سے زائد مقامات پر بھڑک اٹھنے والی آگ نے 14 ہزار ایکڑ پر مشتمل لہلہاتے جنگلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ سوات کے دلکش جنگلات کو مئی جون میں آگ لگا دی جاتی ہے‘ مگر موردِ الزام موسم کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے کئی ممالک ‘ جن میں برازیل‘ امریکہ‘ آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ شامل ہیں‘ وہاں آگ لگنے کا ایک سبب موسم کی شدت بھی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کا مرکزی سبب موسم نہیں ہم انسان ہیں۔
پاکستان میں جہاں ویسے ہی جنگلات کم ہیں وہاں بارشوں کی قلت‘ ہماری غفلت اور ناجائز منافع خوری کی بنا پر کم کم جنگلات مزید کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے جنگلوں میں آگ لگنے کا بالعموم موسم وسطی سے لے کر جون کے مہینے تک رہتا ہے۔ اس سال مئی کے مہینے میں سوات میں درختوں کو آگ لگنے کے دس واقعات جبکہ جون میں اب تک 78 واقعات ہو چکے ہیں۔ سوات کی تاریخ میں ایک یہی سیزن ہے‘ اتنے سارے واقعات آج سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئے تھے۔ گل بوٹے اور درخت بھی ہماری طرح جاندار ہیں۔ شاید بعض لوگوں کیلئے یہ باعثِ حیرت ہو کہ وہ بھی انسانوں کی طرح محسوس کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ جذبات و خیالات بھی کرتے رہتے ہیں۔ 9 مئی کو خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہونے والی آگ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان تک جا پہنچی۔ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزوں کے نہایت قیمتی درخت ہزاروں کی تعداد میں جل کر راکھ ہو گئے۔ اسلام آباد میں بنی گالا کا بارہ کہو اور مارگلہ کے جنگلات میں بھی تین چاربار آگ کے بھڑک اٹھنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مری کے قرب و جوار کی گلیات میں بھی جنگلوں کو آگ لگانے کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ماہرینِ ارضیات کی تحقیق کے مطابق شیرانی کے علاقے میں چلغوزوں کے جنگلات کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ موسم کی حدت و شدت سے جل اٹھے ہوں گے تاہم سوات جیسے سرد علاقے میں جنگلات کو آگ لگنے کی جو رپورٹیں پاکستانی و عالمی میڈیا پر سامنے آئی ہیں ان کے مطابق آگ لگنے کے اسباب موسمی نہیں بشری ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق رات کی تاریکی میں سوات کے دلکش جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے۔
سوات میںبونیر کے علاقے میں واقع پہاڑیوں پر جو آگ بھڑکی تھی وہ کہیں ساتویں دن جا کر ٹھنڈی ہوئی۔ اس دوران علاقے کے لوگوں نے احتجاج بہت کیا مگر حکومت نے آگ بجھانے کیلئے بروقت کوئی تیز رفتار ایکشن نہیں لیا تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر نفیس کی تحقیق کے مطابق 1993ء سے لے کر 2003ء کے دس برس کے دوران سوات میں آگ لگنے کے 20 واقعات رونما ہوئے جن میں سے صرف تین کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اسباب موسمی تھے باقی سترہ واقعات میں آگ مقامی لوگوں نے خود لگائی تھی۔ پروفیسر موصوف کی ریسرچ کے مطابق کئی لوگ گرفتار بھی ہوئے تھے مگر معاملہ رفت گزشت کر دیا گیا اور صرف ایک مجرم کو صرف چار ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ۔
سوات میں جنگلات کو آگ لگانے میں وہاں کے مقامی لوگوں کوشاملات کے قانون کی بنا پر سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔ سوات میں ملکیتِ جنگلات کا قضیہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ قضیہ یہ ہے کہ کیا یہ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں یا مقامی لوگوں کی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ 16ویں صدی عیسوی میں سوات پر یوسف زئی قابض ہوئے تو انہوں نے یہاں کی زمین بحیثیت فاتح تقسیم کر لی تاہم پہاڑوں اور بڑے جنگلات کے بارے میں یہ طے پایا کہ وہ متعلقہ قریبی علاقے کے شاملات یعنی مشترکہ ورثہ شمار کیے جائیں گے۔ ان جنگلات تک ملحقہ دیہاتوں کے ہر باشندے کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے آزادانہ اور مفت رسائی حاصل تھی۔ اس طرح مقامی لوگوں کواپنے مویشی اور بھیڑ بکریاں چرانے اور گھاس کاٹنے اور گھریلو و زرعی اوزاروں کی ضروریات کیلئے لکڑی کی کٹائی اور جڑی بوٹیاں وغیرہ جمع کرنے کی آزادی حاصل تھی۔
1969ء میں ریاست سوات پاکستان میں ضم ہوئی تو اس وقت بھی اس سابقہ قانون میں کوئی واضح ترمیم اور جنگلات کی ملکیت والے معاملے کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ لوگ جان بوجھ کر جنگل جلا دیتے ہیں درختوں کی عدم موجودگی سے جو زمین بچتی ہے وہ زرعی شمار ہوتی ہے جس پر مقامی لوگ قابض ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹمبر مافیا گھاس پھونس جلانے کا بہانہ بنا کر درختوں کو دھوئیں سے سیاہ بنا دیتے ہیں اور بعد میں اسے کاٹ لیتے ہیں۔ ٹمبر مافیا کی اس کارروائی میں بسا اوقات مقامی حکام بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران خیبرپختونخوا میں جنگلات کو آگ لگانے کے جتنے واقعات سامنے آئے ہیں اس سے پہلے کبھی نہ آئے تھے۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ اس صوبے کی حکومت مئی جون کے انہی ہفتوں میں اپنی پارٹی کے چیئرمین کی اپنے صوبے میں میزبانی میں مصروف تھی‘ اس کا دھیان کسی اور طرف کیسے جاتا ۔ شاعرنے تو کہا تھا کہ
آگ جنگل میں لگی ہے دور دریائوں کے پار
اور کوئی شہر میں پھرتا ہے گھبرایا ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved