تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     21-06-2022

کیا زرداری کا دعویٰ درست ہے؟

سابق صدر آصف علی زرداری وفاق میں اقتدار کے اہم شراکت دار ہیں‘ وہ لاہور میں بیٹھ کر سیاسی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں‘ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو گی‘ ساتھ ہی کہا کہ وہ اقتدار میں پورا حصہ لیں گے اور حکومت میں آ جانے کے بعد پاکستان کو 110ڈگری میں بدل دیں گے۔ سابق صدر کا بیان دراصل اس بات پر مہر ثبت کر رہا ہے کہ پنجاب میں قلعہ مضبوط کیے بغیر وفاق میں اقتدار کا خواب پورا ہونا مشکل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت میں سیاسی استدلال کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن جبکہ سیاسی حرکیات کے حوالے سے آصف علی زرداری کو دیگر قائدین پر فوقیت حاصل ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ زرداری صاحب اتحادیوں کی بدولت وفاق میں حکومت کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ اتحادیوں کے تعاون سے حکومت بنانا شاید ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری پر چھوٹی جماعتوں کو اعتماد بھی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے میں زرداری صاحب کا اہم کردار ہے‘ جے یو آئی تو پیپلزپارٹی کی قریبی اتحادی ہے‘ سندھ میں ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنا‘ خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کو ساتھ ملانا اور سب سے بڑھ کر (ق) لیگ کی حمایت حاصل کرنا‘ بالخصوص ایسے وقت میں جب چوہدری برادران کی قرابت داری کی دیوار میں شگاف پڑنے کا احساس پایا جاتا‘ آصف علی زرداری کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر اس جوڑ توڑ بارے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ قوم پرست جماعتیں زرداری پر اس لیے بھی اعتماد کرتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ زرداری صاحب وعدوں کو نبھانا جانتے ہیں۔
آصف زرداری کی طرف سے لاہور کو مسکن بنائے جانے کے بعد بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی اتحادی ہیں جبکہ تحریک انصاف ان دونوں کی حریف جماعت ہے۔اب آصف زرداری مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں یا تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے بندوبست کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ سو پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے مدمقابل کھڑے ہونے کے بجائے تحریک انصاف کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گی۔ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے مشترکہ طور پر میدان میں اترنے کا فیصلہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کا راستہ روکنا چاہتی ہیں۔ بعض حلقے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب تمام جماعتوں کے ساتھ آصف زرداری کے اچھے تعلقات ہیں تو پھر تحریک انصاف کے ساتھ تعلقات بہتر کیوں نہیں ہیں؟ اس ضمن میں معلوم ہونا چاہئے کہ مفاہمت کے تمام راستے عمران خان صاحب نے خود ہی بند کیے ہیں‘ خان صاحب جب حکومت میں تھے تو پیپلزپارٹی کی قیادت زیر عتاب رہی‘ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے جلسوں میں یہ تاثر دیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی قیادت کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ عمران خان فی الوقت تنہا کھڑے ہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی امکانی حد تک وہ اپنے مزاج کی وجہ سے تنہا رہیں گے کیونکہ جن چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا سکتے تھے ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دے رہی۔ غالب امکان ہے کہ قوم پرست اور علاقائی جماعتیں جس اتحاد کا فی الحال حصہ ہیں اسی اتحاد کے ساتھ آئندہ الیکشن میں اتریں گی۔
تحریک انصاف کے دور میں کرپشن کے الزامات مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر لگتے رہے‘ جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی قیادت پابندِ سلاسل بھی رہی‘امکان یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ایسے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ توشہ خانہ‘ خیبرپختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر ذاتی مقاصد کیلئے استعمال میں لانا اور دیگر الزامات تحریک انصاف کے دامن پر بھی لگ چکے ہیں‘ تحریک انصاف کو بہر صورت ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پارٹی مقبولیت کے اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو دیگر جماعتوں پر کسی حد تک فوقیت حاصل ہے‘ لیکن ضمنی انتخاب تک انتظار کرنا ہو گا کیونکہ ضمنی انتخاب کے نتائج سے اندازہ لگایا جا سکے گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک بڑھا ہے یا کم ہوا ہے‘ جبکہ پیپلزپارٹی سندھ کے ساتھ بلوچستان کی مقبول جماعت ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو چند وجوہ کی بنا پر برتری حاصل ہو گی‘ جس طرح موجودہ معاشی حالات کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کو ٹھہرایا جا رہا ہے اگر اگلے چند ماہ میں حکومت معاشی مسائل پر قابو پا لیتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی مسلم لیگ کو ہی ہو گا‘ اس کی مقبولیت بڑھ جائے گی اور عوام میں یہ تاثر قائم ہو گا کہ حکومت نے تباہ حال معیشت کو درست کر دیا ہے۔اس سے پہلے 2008ء میں پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں توانائی کا شدید بحران تھا مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تین سال کی قلیل مدت میں توانائی کا مسئلہ حل کر دیا‘ اسی طرح عوام میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی جاتی ہے‘ قسمت نے یاوری کی اور حکومت معاشی بحران سے نکل گئی تو عوام ایک بار پھر مسلم لیگ( ن) پر اعتماد کریں گے۔ آئندہ انتخابات میں چونکہ عوام معاشی حالات اور مہنگائی کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اس لیے کسی ایک جماعت کے بارے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی کامیابی یقینی ہو گی‘ آئندہ انتخابات میں مینڈیٹ کے منقسم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں‘ پنجاب کا مینڈیٹ مسلم لیگ( ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان منقسم ہو جائے گا۔
دوسری طرف آصف علی زرداری 2013ء میں ہونے والی غلطی کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس وقت انہوں نے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کیلئے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا تھا کہ عمران خان کے غبارے میں ہوا بھرنی چاہئے‘ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اگر عمران خان مقبول ہوتے ہیں تو اس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا‘ پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے زرداری کی اس سٹریٹیجی سے اختلاف کیا مگر زرداری صاحب نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کو قومی سیاست میں آگے آنا چاہئے۔ بعد ازاں انہیں معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کو سپورٹ کر کے دراصل انہوں نے پیپلزپارٹی کا نقصان کیا ہے‘ اس سٹریٹیجی سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک کم ہو گیا۔ آصف زرداری قومی حکومت میں پورے شیئرز کی بات کر رہے ہیں تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو مناسب سیٹیں حاصل ہو جائیں۔ ایسے لگتا ہے کہ آصف علی زرداری مرکز میں تحریک انصاف جتنی سیٹوں کے حصول کیلئے اشاروں کنایوں میں خاص حلقوں کو پیغام دے رہے ہیں۔وہ کچھ اس طرح کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ جب وفاق میں ان کی حکومت قائم ہو جائے گی تو صوبوں میں کم سیٹوں کے باوجود اتحادیوں کی بدولت حکومت بنانا آسان ہو جائے گا‘ جس طرح 1993ء میں ہو چکا ہے جب وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں ان کی 100نشستیں تھی اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی بھی اتنی ہی نشستیں تھیں اور دونوں جماعتوں کے مقابلے میں اٹھارہ نشستوں والے جونیجو گروپ کے میاں منظور وٹو حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے کیونکہ کم نشستوں کے باوجود ان کی اہمیت بڑھ گئی تھی‘ آصف زرداری اب بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں‘ اگر زرداری اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تو بلاشبہ ان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا‘ اور ان کا دعویٰ بے بنیاد نہیں ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved