صدر مرسی مرد درویش تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے شاہین کا تجسس اور چیتے کا جگر عطا فرمایا تھا۔ آپ نے قوم کے نام اپنے ایک خطاب میں کہا کہ کوئی بھی شخص دستور سے بالاتر نہیں ہوسکتا‘ ہر شخص کو برابر کی سطح پر انسانی حقوق حاصل ہوں گے‘ مصری سوسائٹی مختلف خیالات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے‘ اس لیے کسی کے بھی بنیادی حقوق سلب نہیں کیے جائیں گے‘ غیرمسلم قبطی، عیسائی اسی طرح مصر کے شہری ہیں جس طرح مسلمان ہیں‘ انہیں پوری آزادی حاصل ہوگی‘ جس طرح میں مصر کا شہری ہوں اسی طرح ہر قبطی بھائی بھی میرے برابر کا شہری ہے‘ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ صدر مرسی نے نظامِ اسلامی کی کتنی بہترین ترجمانی کی ہے۔ بلاشبہ قرآن وسنت کی روشنی اور خلافت راشدہ کی عملی مثال سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ہر شہری کے حقوق کا احترام لازمی ہے۔
عالمی معاملات میں اس سے قبل مصری حکمران دیگر مسلمان حکمرانوں کی طرح مصلحتوں کا شکار ہی رہے۔ اب قیادت تبدیل ہوئی، چہرے نہیں‘ نظام بدلا تو مردِ مومن نے اعلان کیا کہ ہماری پالیسی بزدلانہ نہیں، جرأت مندانہ اور اسلامی ہوگی۔ اس پالیسی کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، بالخصوص نائن الیون کا واقعہ ایسا ہے کہ جس پر بہت سے سوالات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی مضبوط عمارت محض کسی طیارے کے ٹکرانے سے زمین بوس نہیں ہوسکتی تھی۔ اسے اندر سے تباہ وبرباد کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ فلسطین کے مسئلے پر انہوں نے خالص اسلامی مؤقف اختیار کیا اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کھل کر اظہار کیا۔ غزہ کے محبوس اور مظلوم مسلمانوں کے لیے سابقہ حکومت کے دور سے بند رفح پھاٹک کو کھول دیاگیا۔ اہلِ غزہ کے لیے یہ اعلان اور اس پر فوری عمل درآمد عید کی خوشیوں سے زیادہ مسرت کا باعث تھا۔
اقوام متحدہ میں کسی بھی مسلمان رہنما کا کوئی خطاب اتنا جامع اور جرأت مندانہ نہیں ہوا جس قدر صدر محمد مرسی نے اپنے خطاب میں ملت اسلامیہ کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ ستمبر 2012ء میں اپنے خطاب میں انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں اپنی بات کا آغاز مظلوم فلسطینیوں سے کروں گا۔ ان کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ان کے حقوق کے بارے میں قراردادیں تو منظور کیں، مگر ان میں سے کسی پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ دورنگی اس عالمی ادارے کو زیب نہیں دیتی۔ فلسطینی ریاست کا مطالبہ کوئی ناروا بات نہیں، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ ہم اس حق کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔ نام نہاد دانش وروں نے کہا کہ یہ تو ''آبیل مجھے مار‘‘ کی پالیسی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست سہی‘ مگر منافقت اور بزدلی مردِ مومن کو زیب نہیں دیتی۔
آئین جوانمرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی!
عالم کفر ایسے قائد کو کہاں برداشت کرسکتا ہے۔ ان کے خلاف سازش کرکے انہی کے وزیردفاع جنرل سیسی کو حکومت الٹنے کا اشارہ ملا، جس کے نتیجے میں ایک سال کے بعد ہی صدر محمد مرسی کی حکومت ختم کرکے ملک میں آمریت قائم کردی گئی۔ جمہوریت کے خاتمے اور آمریت کے نفاذ پر جمہوریت کے علم برداروں نے بغلیں بجائیں اور ڈھول پیٹے۔ اخوان کے مرشد عام جناب ڈاکٹر محمد بدیع، سابق مرشدعام جناب محمدمہدی عاکف، صدر محمدمرسی اور ساری اعلیٰ قیادت کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیلوں میں بند کردیا گیا۔ جھوٹے الزامات کے تحت جعلی عدالتیں سزا پہ سزا سنائے چلی جارہی تھیں، مگر ترک حکومت کے احتجاج کے علاوہ ہر طرف سناٹا تھا۔ صدر محمد مرسی کو سزائے موت سنانے کے بعد عام کوٹھری میں بند کرنے یا کسی قسم کی مراعات دینے کے بجائے پنجرے میں قید کیا گیا۔ ان مظالم نے جمال عبدالناصر کے دورِ ظلم وجبر کی یادیں تازہ کردیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ناصر کے مظالم کو بھی مات کردیا۔
جیل کے اندر ملک کے پہلے منتخب صدر کو چھ سال جس اذیت سے گزارا گیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سارے عرصے میں ان کے اہلِ خانہ کو صرف تین مرتبہ ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی اور وہ بھی چند منٹ سے زائد نہیں ہوتی تھی۔ ان کے وکلا کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ایک پنجرے میں بند تھے جہاں ان کی مختلف بیماریوں شوگر، بلڈپریشر اور عارضۂ قلب کے باوجود کوئی دوا فراہم نہیں کی جاتی تھی۔ موت تو حق ہے، مگر اس طرح کی اذیت سے کسی بھی انسان کو گزارنا بدترین قسم کی بربریت اور ننگِ انسانیت عمل ہے۔ اس پر بھی مصر کے بدبخت آمر کو ذرا بھی شرم نہیں آتی۔
اور تو چھوڑیے‘ صدر محمد مرسی کی شہادت کے بعد وزیراوقاف نے مساجد کے تمام آئمہ وخطبا کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ خطبۂ جمعہ میں حکومتی آرڈر کے مطابق سابق صدر محمدمرسی کے جرائم کو تفصیلاً بیان کیا جائے اور بلند آواز میں اس کے لیے بددعائیں کی جائیں تاکہ وہ اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ! ان بدبختوں کو کیا معلوم کہ یہ بددعائیں پلٹ کر انہی کو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں مبتلا کریں گی۔ شہید تو اپنے مقامِ عالی پر رونق افروز ہے جہاں اس کے لیے نہ کوئی غم ہے نہ کوئی پریشانی اور خوف۔ ان بدبخت اور کمینہ فطرت دشمنانِ اسلام کو سنائی دے نہ دے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ سن رہا ہے۔
کیا میری قفس میں بندش پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا
رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا؟ خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا
صدر محمد مرسی سے پہلے سابق مرشد عام اخوان المسلمون جناب محمد مہدی عاکف بھی 22ستمبر 2017ء کی شام قاہرہ کی جیل میں شہادت سے ہم کنار ہوئے تھے۔ صدر محمد مرسی کی وفات پر حکومت نے اعلان کردیا کہ ان کے جنازے میں ان کے دو بیٹوں اور اہلیہ کے سوا کوئی شریک نہیں ہوسکے گا۔ بعد میں ان کے بھائیوں اور کچھ عزیزوں کو اجازت ملی تو ان کی کل تعداد آٹھ تھی۔ ان کے علاوہ چند سرکاری کارندے موقع پر موجود تھے، مگر جنازے میں شریک نہ ہوئے؛ البتہ ان میں سے بھی بعض کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اخوان کے بانی اور پہلے مرشد عام امام حسن البنا شہید کا جنازہ بھی اسی طرح ہوا تھا۔ زندہ مرسی سے ڈرنے والے بزدل حکمران ان کی شہادت کے بعد ان کے جسد خاکی سے بھی خوف زدہ تھے۔
مصر کے مختلف شہروں میں عوام الناس نے حکومتی پابندیوں کے باوجود شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔ اس موقع پر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دنیا بھر میں جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے وہاں سے لے کر جہاں سورج غروب ہوتا ہے ہر خطۂ ارض پر اہلِ ایمان نے شہید کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ہر دیس میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام ہوا۔ کروڑوں اہلِ ایمان اور اولیاء اللہ ان جنازوں میں شریک ہوئے۔
مرحوم نے وصیت کی تھی کہ انہیں اپنے بزرگوں کے ساتھ مصر کے ضلع شرقی میں آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے، مگر ظالم حکمرانوں نے کہاں اس پر عمل کرنے کی اجازت دینا تھی۔ انہیں قاہرہ کے مضافات میں النصرشہر کے قبرستان میں دفن کرنے کا حکم جاری ہوا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف جوجیل ہی میں اپنی موت سے ہم کنار ہوئے تھے، کو بھی اسی قبرستان میں حکومت نے دفن کیا تھا۔ ان کے پہلو میں جب شہید محمدمرسی کی قبر کھودی گئی تو محمدمہدی عاکف کی قبر بھی کھل گئی۔ اس سے خوشبو کی ایسی لپٹیں آئیں کہ جو جنت ہی کی خوش بو ہوسکتی ہے۔ ان کا جسم اور کفن بالکل تروتازہ تھا، حالانکہ ان کو فوت ہوئے کم وبیش دو سال ہوچکے تھے۔ یہ سب باتیں شہید محمد مرسی کے صاحبزادے احمد محمد مرسی نے ٹیلی فون سے رابطہ ہونے پر جناب عبدالغفار عزیز (مرحوم) کو بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والد صاحب کو جناب محمد مہدی عاکف سے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ ان کے پہلو میں دفن ہونا بھی شہید محمد مرسی کی روح کے لیے یقینا باعثِ طمانیت ہوگا۔
صدر مرسی کے پانچ بچے ہیں؛چار بیٹے اور ایک صاحبزدی۔ احمد محمد مرسی، شائمہ مرسی، اسامہ محمد مرسی، عمر محمد مرسی اور عبداللہ محمدمرسی جو ابھی تک سکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ صدر مرسی کے بچوں میں سے پہلے دو ان کے کیلیفورنیا میں قیام کے دوران امریکا میں پیدا ہوئے۔ اس لیے وہ امریکی شہری ہیں۔ صدر مرسی کی بیوہ نجلہ علی محمود بہت عظیم خاتون ہیں جو ان کی چچازاد ہیں۔ انہوں نے اپنے عظیم خاوند کی شہادت پر جس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے امام حسن البنا کی بیوی اور بیٹیوں کی استقامت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم خاتون اور ان کے بچوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور شہید کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved