تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     22-06-2022

ٹورونٹو اور وقت کا بہتا دریا… (2)

وہ ٹورونٹو کی سرد رات تھی اور میں دروازہ کھول کے کھڑا تھا۔ پولیس کی گاڑی کی تیز روشنیوں سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ میرے سامنے دو پولیس والے کھڑے تھے جنہوں نے اپنے شناختی کارڈ مجھے دکھائے اور کہا: ہمیں پتا چلا ہے کہ اس گھر میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ میں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں۔اس پر ایک پولیس والے نے پوچھا: کیا آپ کو یقین ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں‘ ہم یہیں رہتے ہیں اور یہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ اس پر ایک پولیس والے نے دوسرے سے کچھ بات کی جس نے اپنا سر ہلایا اور پھر دونوں مجھے وہیں چھوڑ کر پولیس کی گاڑی میں جا بیٹھے اور گاڑی کو ایک جھٹکے سے سٹارٹ کر کے واپس روانہ ہو گئے۔ میں حیران و پریشان دروازے پر کھڑا رہ گیا‘ اس رات ہمیں دیر تک نیند نہیں آئی۔ اس بات کو کئی دن گزر گئے۔ ایک روز‘ شام کے وقت پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ اتفاق سے میں گھر پر تھا۔ دروازہ کھولنے پر دیکھا کہ پولیس کے دو آفیسر کھڑے ہیں‘ ایک نے کہا: آپ کب سے یہاں رہ رہے ہیں؟ میں نے بتایا: تقریباً ایک مہینے سے۔ اس پر وہ بولا: کیا آپ جانتے ہیں آپ سے پہلے یہاں کون رہتا تھا؟ میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس پر وہ بولا: کیا پرانے کرایہ دار کے نام کوئی ڈاک آئی ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے کہا: کیا ہم وہ خط دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے وہ خط ایک الماری میں رکھے تھے۔ میں نے وہ سارے خط جو پرانے کرایہ دار کے نام آئے ہوئے تھے‘ الماری سے نکال کر ان کے حوالے کر دیے۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور واپس چلے گئے۔ ان دو واقعات کے بعد باقی عرصہ چین میں گزرا۔
اسما نے یہاں ایک کمیونٹی کالج میں کسی کورس میں داخلہ لے لیا۔ صہیب کو ہم نے ایک قریبی سکول Essex Public School میں داخل کرا دیا۔ اس کے کلاس انچارج کا نام پیٹر تھا اور اس کی مونچھوں کے کونے دائرے کی شکل میں مڑے ہوئے تھے۔ تنزانیہ کی بی بی نامی خاتون سے اسما کی دوستی ہو گئی۔ اب ہم Ossington Avenueسے مانوس ہو چکے تھے۔
جہاز کے اندر اناؤنسمنٹ نے میرے خیالوں کا سلسلہ منتشر کر دیا۔ جہاز کا عملہ اب چائے اور مشروبات سے مسافروں کی تواضع کر رہا تھا۔ پی آئی اے کی اس فلائٹ میں ہم نے دیکھا کہ جہاز کی اندرونی حالت خستہ ہے۔ سیٹوں کے کورز (Covers)پھٹے ہوئے اور بوسیدہ ہیں۔ سیٹوں کے درمیان فاصلہ انتہائی کم ہے۔ بین الاقوامی پروازوں میں انٹرنیٹ کی سہولت (رقم کی ادائیگی پر) میسر ہوتی ہے لیکن پی آئی اے میں اس طرح کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ لیکن پرواز کا مثبت پہلو خوش اخلاق عملہ اور کھانے کا اچھا معیار تھا۔ اس فلائٹ کی خوبی یہ تھی کہ یہ براہِ راست ٹورونٹو تک تھی اور درمیان میں کسی جگہ پر پڑاؤ نہیں تھا۔ اب جہاز کی پرواز کو تقریباً بارہ گھنٹے گزر چکے تھے‘ ایسے میں جہاز کے کپتان نے اعلان کیا : ''خواتین و حضرات‘ آدھے گھنٹے تک ہمارا جہاز اترنا شروع کر دے گا‘‘۔ میں نے اسما سے کہا: ایئر پورٹ پر صہیب اور شعیب آئے ہوں گے۔ شعیب کا ایک سال پہلے ہی یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں داخلہ ہوا تھا۔ اس خیال ہی سے ہماری آنکھوں میں روشنی لَو دینے لگی اور پھر وہ وقت آ ہی گیا جب جہاز کے پہیے ٹورونٹو کے پیئرسن ایئر پورٹ کو چھو رہے تھے‘ کچھ دور ٹیکسی کر کے آخر جہاز رک گیا اور مسافر جہاز سے باہر نکلنا شروع ہوئے۔ ایئر پورٹ کے اندر کافی دور چلنے کے بعد ہم اس ہال میں پہنچے جہاں بہت سی مشینیں آویزاں تھیں۔ مشین میں پاسپورٹ کو Scan کرکے ضروری معلومات درج کرنا ہوتی ہیں‘ میں اور اسما اپنے پاسپورٹ Scan کرچکے تو دیکھا ہمارے پیچھے ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی جس کی گود میں ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ وہ بھی پی آئی اے کی پرواز سے یہاں پہنچی تھی۔ اسما کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ کینیڈا میں اپنے خاوند کے پاس آئی ہے۔ شاید مشین پر پاسپورٹ پراسیس کرنے کا عمل اس کے لیے نیا تھا‘ اس کے کہنے پر ہم نے اس کی مدد کی۔ اس سے اگلا مرحلہ کسٹمز حکام کے پاس جانا تھا۔ یہ مرحلہ بھی بخوبی طے ہو گیا۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے کسٹم آفیسر نے صرف ایک سوال پوچھا کہ ٹورونٹو میں آپ کس کے پاس جا رہے ہیں‘ ہمارے جواب پر وہ مسکرایا اور پاسپورٹ پر سٹیمپ لگا دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ یہ مرحلہ اتنی جلدی طے ہو جائے گا۔ اب ہمیں اپنا سامان لینا تھا جو بیلٹ نمبر 10پر آنا تھا۔ ہم سامان کے انتظار میں کھڑے ہو گئے‘ لیکن یہ انتظار طویل ہو گیا‘ اس دوران صہیب کا فون آیا کہ آپ کہاں ہیں‘ ہم نے بتایا کہ سامان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ بعض اوقات سامان بیلٹ سے اتار کر علیحدہ بھی رکھ دیا جاتا ہے‘ اس لیے چیک کر لیں۔ اسما نے گھوم کر سب جگہ دیکھا سامان کہیں نہیں تھا‘ آخر خدا خدا کر کے سامان نظر آیا جسے ہم نے دو ٹرالیوں میں رکھا اور گیٹ نمبر 34کی طرف روانہ ہو گئے جہاں صہیب اور شعیب ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ چلتے چلتے دور ہمیں صہیب نظر آیا جس نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ ہم گلے ملے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ شعیب گاڑی میں بیٹھا ہے۔ گاڑی کچھ فاصلے پر کھڑی تھی‘ وہاں پہنچے تو شعیب گاڑی سے نکل آیا اور ہم پُرجوش طریقے سے ایک دوسرے سے ملے۔ ایئرپورٹ سے صہیب کے گھر کا فاصلہ تقریباً آدھ گھنٹے کا تھا۔ صہیب سکار بروکے علاقے West Rouge میں اپنی بیوی ثنا کے ساتھ رہتا ہے۔ ثنا ایک آرٹسٹ ہے۔ اس کی پینٹنگز کو ٹورونٹو میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اس کی صہیب سے شادی چار سال پہلے ہوئی لیکن ہمیں یوں لگتا ہے وہ ہمیشہ سے ہمارے خاندان کا حصہ ہے۔ ہم گھر پہنچے تو دروازے پر ایک سفید بالوں والے خوب صورت کتے نے ہمارا استقبال کیا۔ اسے گھر میں سب گینڈی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ثنا نے ہمیشہ کی طرح گرم جوشی سے استقبال کیا۔ کھانے کی میز پر اس نے انواع و اقسام کی ڈشز سجائی ہوئی تھیں۔ کھانے کے بعد اس نے اپنے گھر کا وزٹ کرایا۔ گھر میں ایک کشادہ بیسمنٹ تھا جس میں قدرتی روشنی کا خاص اہتمام تھا۔ شعیب نے بیسمنٹ میں اپنا کمرہ دکھایا جس میں اس نے رنگ برنگ روشنیوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ کمرے کے ساتھ ایک واش روم تھا۔ بیسمنٹ کے باقی حصے میں Gymکا اہتمام تھا۔ گراؤنڈ فلور پر لِونگ (Living)روم‘ ڈائننگ روم‘ کچن‘ اور لکڑی کا ایک ٹیرس تھا جس کی چوبی سیڑھیوں سے نیچے اتریں تو وسیع لان تھا جس کی لکڑی کی Fence سے حد بندی کی گئی تھی۔ لان میں ایک قدِ آدم درخت تھا جس کے نیچے خرگوش‘ گلہریاںنظر آتی ہیں اور درخت پر مختلف پرندوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے۔ گھر کی اوپر کی منزل پر چار کمرے ہیں۔ ایک کمرہ صہیب کا آفس ہے‘ ایک بیڈ روم اور دو کمرے مہمانوں کے لیے۔ ایک کمرہ‘ جس کی شیشے کی بڑی سی کھڑکی سر سبز لان میں کھلتی تھی‘ ہمیں دیا گیا۔ میں کافی کا کپ لے کر کھڑکی کے پاس چلا گیا اور وہاںسے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔ لان کے ایک کونے میں ایک گھنے پتوں والا درخت کھڑا تھا جس کے نیچے گلہریاں دوڑ رہی تھیں۔ لکڑی کی Fenceپر لپٹی گہرے سبز رنگ کی بیلیں تیز ہوا سے جھول رہی تھیں۔ میں اس منظر کے سحرمیں کھو گیا۔ اچانک آسمان سے بارش کی پھوار اترنے لگی۔ میں نے کھڑکی کے پٹ وا کر دیے۔ ایک نم ہوا کا جھونکا آیا اور میں بارش کی رم جھم اپنے اندر محسوس کرنے لگا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved