انگریزی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ‘ اگست دنیا کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اگست میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس طرح یہ مہینہ ہم پاکستانیوں کی آزادی کا مہینہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کے کچھ من چلے آزادی کا جشن ون ویلنگ کرتے ہوئے مناتے ہیں‘ کچھ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سائلنسر کھول کر منا تے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر اپنی گاڑیوں میں نصب ڈیکوں کے ذریعے بھارتی میوزک کی کان پھاڑ دینے والی آوازیں نکال کر سڑکوں پر گھومتے ہوئے مناتے ہیں۔ کئی ’’شرم کے پُتلے‘‘ جشن آزادی منانے کیلئے خاندان کے ا فراد کے ساتھ آئی ہوئی خواتین پر آوازے کستے ہیں‘ قوم کی بیٹیوں کو وحشی نظروں سے گھورتے ہیں۔ شاید دوسروں کو یقین دلانے کے لیے کہ ہم کس قدر آزاد ہیں۔ یہ نسل شائد نہیں جانتی کہ اگست ہندوستان سے پاکستان کی طرف آنے والے مسلمانوں کے خون سے ڈوبا ہوا مہینہ ہے۔ انہیں شاید اب تک کسی نے نہیں بتایا کہ چودہ اگست اور اس کے بعد ہندوستان سے جو قافلے پاکستان میں داخل ہوتے تھے وہ خون میں نہائے ہوئے زخمیوں کے قافلے تھے۔ یہ قافلے راستے میں سکھوں اور ہندوئوں کے ہاتھوں اپنے بچوں‘ مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی لاشیں بکھیرتے ہوئے پاکستان پہنچے تھے۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں ہلا گلا کرتی ہوئی نئی نسل اس بات سے بھی یقینا بے خبر ہو گی کہ ان قافلوں میں وہ مائیں بھی تھیں جنہوں نے مرے ہوئے دودھ پیتے بچے اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔ ان قافلوں میں وہ بچے بھی تھے جو مائوں سے بچھڑ کر روتے بلبلاتے‘ بھوکے پیاسے‘ پاپیادہ پاکستان پہنچے تھے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسلمان بھائیوں کی کھال اتارنے والے تاجروں اور دوکانداروں کو شائد علم نہیں ہے کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کی مبارک اور برکتوں و رحمتوں والی شب معرض وجود میں آیا تھا۔ اگست قوم کی ان ایک لاکھ سے زائد بیٹیوں کا بھی مہینہ ہے جو مشرقی پنجاب میں ان کے والدین سے زبردستی چھین لی گئی تھیں۔ ان میں کچھ مار دی گئیں‘ کچھ عصمت فروشوں کے ذریعے پورے بھارت میں پھیلا دی گئیں اور جو باقی بچیں وہ سکھوں کی بیویاں بن کر ساری عمر ماتم کرتی رہیں۔لوگ جنہیں آزادی کی صحیح قدرو قیمت کا اندازہ ہے یا ۔قوم کی نئی نسل کے نوجوانوں کو یہ جاننے کا موقع ملے کہ آزادی کی اصل قدر و قیمت کیا ہے تو وہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے کسی شخص کے پاس چند لمحے بیٹھ کرپوچھیں یا ان سے پوچھیں جو صوبہ بہار اور مغربی بنگال سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان پہنچے تھے یا آج زندہ رہ جانے والے اس وقت کے نو جوان طالب علموں اور آج کے بزرگوں سے پوچھیں جنہوں نے لہو لہان قافلوں کا پاکستان کی سرحدوں پر استقبال کیا تھا۔کیا آج کی نسل یہ سننے کی ہمت رکھتی ہے کہ اگست کی سولہ تاریخ سے لٹے پٹے قافلے جب ہندوستان سے پاکستان کی سرحد پر پہنچنے شروع ہوئے توہر قافلے میں بچوں بوڑھوں اور جوان عورتوں اور مردوں کی درجنوں لاشیںہوتی تھیں جنہیں بلڈوزر وں کے ذریعے ایک بڑا گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا تھا۔ اور یہ ایک دن کی بات نہیں تھی 1947ء کے اگست میں ایسا روزانہ ہوتا تھا۔لاہور میں بسنے والی نئی نسل کو شاید یقین نہ آئے کہ واہگہ سے شالیمار باغ تک سڑک کے دونوں طرف کسی بھی جگہ زمین کھودی جائے تو ہر قدم پر آزادی کے شہیدوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں ملیں گی۔ یو پی ، مشرقی پنجاب ،بہار اور مغربی بنگال سے ہجرت کر کے پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں میں پہنچنے والوں کی قربانیوں کی وجہ سے ملنے والے آزاد ملک کا ایک حصہ ہم دشمن کی سازشوں کا شکار ہو کر گنوا چکے ہیں۔ باقی ماندہ پاکستان کی آزادی بھی آج ایک بار پھر خون میں ڈوب رہی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پاکستان کے صاحبان اقتدار نے کیا سوچا ہے اور آگ اور خون کے اس سمندر سے بحافظت نکلنے کے کیا منصوبے بنا رہے ہیں لیکن کھلے اور چھپے ہوئے دشمن کی نشاندہی کرنے کیلئے ایک لکھنے والے کا قلم اگر خاموش ہو گیا‘ وطن دشمنوںکی کمین گاہوں اور رابطوں کو آشکار کرنے والی آنکھیں اگر بند ہو گئیں اور دشمن کے جھوٹ کے پردے چاک کرنے والی زبانیں اگر خوف یا کسی مصلحت کی وجہ سے گنگ ہو گئیں تو تاریخ اس غفلت اور خاموشی کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اپنی آج کی نسل کے سامنے بڑے آرام اور پیار سے دو قومی نظریہ کو کھل کر بیان کرنا ہو گا۔ ہمیں ہندو اور مسلمان کی اصل دشمنی سے اپنی نسلوں کو آگاہ کر نا ہو گا۔ ہمیں قوم کو ساگ (بھارتی را کی ایک ویب سائٹ) سے قریبی رابطہ رکھنے والے کے بارے میں بتانا ہو گا۔ ہمیں کعبہ میںچودہ سو سال پہلے رکھے گئے بتوں کو توڑنے والوں اور ان بتوں کے پاش پاش ہونے پر رونے پیٹنے والوں کی نسل سے آگاہ کر نا ہو گا کیونکہ پاکستان کا دو قومی نظریہ یہیں سے شروع ہوتا ہے جس کے ایک طرف بت شکن ہیں اور دوسری طرف ان کے مقابلے پر کھڑے ہوئے بت پرست ہیں۔ اب یہ پاکستان کی نئی نسل پر منحصر ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو پاش پاش کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیں گے یا امن کی آشا کی آڑ میں بت پرستوں کے ساتھی بننا پسند کریں گے۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ جنہیں ہم اپنے لیڈر کہتے ہیں‘ جن کیلئے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں‘ جن کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ دیتے ہیں‘ جن کے لیے ہم اپنی گلی‘ محلے‘ شہر‘ گائوں یا قصبوں میں لوگوں کو قتل کرتے ہیں‘ یہ در اصل قبضہ گروپوں کے مختلف ٹولے ہیں جو شہیدوں کی اس سر زمین پر جبر اور دھوکہ دہی سے قبضہ کر نے کے بعد اسے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھ کر اس رقم سے شاہانہ زندگی بستر کرتے ہیں۔ اگر میری ان گزارشات سے آج کے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جو آزادی ملی تھی وہ خون میں ڈوبی ہوئی ملی تھی تو میں سمجھوں گا کہ انہیں وطن کی حرمت کااحساس ہونے لگا ہے۔ لیکن آج ان کے سامنے وہ خون ہے جو ہم ایک دوسرے کا بہا رہے ہیں اور ڈر ہے کہ ہماری یہ آزادی ہر روز بہنے والے خون کے اس سمندر میں ڈوب کر نہ رہ جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved