گزشتہ دنوں انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ ستر سال کے ناکام معاشی و سیاسی تجربات کے بعد اب پاکستانی دانشوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ متبادل نظام پر غور کریں۔ لیکن یہ متبادل نظام یا نظریہ تصوراتی اور خیالی نہیں بلکہ عقلی‘منطقی اور سائنسی سوچ پر مبنی ہونا چاہیے۔ گزشتہ ستر برسوں کے دوران پاکستان میں ہر معلوم نظام آزمایا جا چکا ہے۔ حکمران طبقات وقتاً فوقتاً اسلام سے لے کر سوشلزم تک ہر نظام لانے اور نافذ کرنے کے دعوے کر چکے ہیں۔ سرمایہ داری‘ نیو لبرل ازم‘ جمہوریت اور آمریت کو بھی پرکھا جا چکا ہے۔ مگر یہ سب نظام عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ چند کالموں میں مَیں نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل کیا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں تھیوکریٹک سوشلزم اور یوٹوپیائی سوشلزم کا جائزہ لیا تھا‘ جس کے بعد دنیا کے دانشور اخلاقی سوشلزم کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
اخلاقی سوشلزم ایک سیاسی فلسفہ ہے۔ اس سیاسی فلسفے کا نقطۂ ماخوذ حکومتوں کا فلسفیانہ مطالعہ ہے۔ یہ فلسفہ پبلک اداروں اور حکام کی ماہیت‘ سکوپ اور اختیارات اور ان کے درمیان تعلق کا جائزہ لینے کے علم کا نام ہے۔ سیاسی فلسفے کے دائرہ کار میں سیاست‘ آزادی‘ انصاف‘ حقوق اور قوانین جیسے موضوعات شامل ہیں۔ یہ فلسفہ قوانین کے اطلاق کا جائزہ بھی لیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ قوانین کیا ہیں‘ ہمیں ان کی کیا ضرورت ہے‘ وہ کیا چیزیں ہیں جو حکمران طبقات کو عوام پر حکومت کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں‘ کون کون سے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرنا حکمران طبقات کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ قانون کیا ہے اور قانون کے مطابق ایک شہری کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اس طرح یہ فلسفہ اخلاقی بنیادوں پر سوشلزم کی بات کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت پر زور دیتا ہے‘ جس کی بنیاد اخلاقی اصولوں پر قائم ہو۔ ان اخلاقی اصولوں میں پہلا اصول یہ ہے کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی ضروریات اور فلاح و بہبود کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔ اس اصول کے تحت انسان کو دوسروں کی مادی اور روحانی زندگی بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ اصول دنیا کے کئی مذہبی اور سیاسی کلچرز میں کسی نہ کسی شکل میں پا یا جاتا ہے‘ جو انسان کو خود غرضی کے بجائے ذا تی اغراض اور مفادات سے اوپر اٹھ کر دوسروں کی بھلائی کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس فلسفے کا دوسرا اصول باہمی تعاون ہے۔ اس اصول کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انسان اجتماعی مفادات کے لیے اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرتے ہوئے ایک دوسرے کے تعاون سے سماج کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اس فلسفے کا تیسرا اصول سماجی انصاف ہے۔ سماجی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ سماج میں موجود دولت‘ مواقع اور مراعات کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جائے۔ یہ ایک ایسے پراسیس کا نام ہے جس میں ایک فرد سماج کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور جواب میں سماج اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس فرد کو سماج کی طرف سے اس کا حصہ ملتا رہے۔ اس طرح یہ سیاسی فلسفہ انفرادیت کی نفی کرتا ہے۔ انفرادیت پسندی یا انفرادیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ذاتی اور انفرادی مفادات کو سماج کے گروہی اور مشترکہ مفادات پر ترجیح دی جائے۔ ظاہر ہے انفرادیت پرستی اور افراد کے انفرادی حقوق اور آزادیوں میں فرق ہے۔ اخلاقی سوشلزم کے مقابلے میں سائنٹفک سوشلزم کی بنیاد تاریخی مادیت کی مارکسی تھیوری ہے اور تاریخی مادیت تاریخ کے بارے میں مارکسی نظریہ ہے۔
سوشلزم کی دوسری بنیاد ''نیو کلاسیکل‘‘ معیشت ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق پیداوار‘ کھپت اور قدر کا دار و مدار طلب اور رسد کے ساتھ ہے۔ تیسری بنیاد عقلیت پسندی ہے جس کے مطابق علم کا ماخذ اور ٹیسٹ دلیل ہے‘ یعنی کسی چیز کے درست یا غلط ہونے کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عقل و منطق پر پوری اترتی ہو۔ اس کے برعکس اخلاقی سوشلزم اخلاقیات پر بھروسا کرتا ہے‘ جس کا عقل اور منطق کی کسوٹی پر پورا اترنا ضروری نہیں۔
اگر تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو اخلاقی سوشلزم کی جڑیں یوٹوپیائی سوشلسٹوں‘ خاص طور پر ہنری ڈی سینٹ سائمن اور چارلس فوئیر‘ فرانسیسی سوشلسٹ پیئر جوزف پرو دھون کے ساتھ ساتھ اطالوی انقلابیوں اور سوشلسٹ جیوسیپ گیریبالڈی جیسے لوگوں کے نظریات سے بھی ملتی ہیں۔ یوٹوپیائی سوشلسٹ جدید سوشلسٹ فکر کے اولین دھاروں میں سے ایک ہیں۔ ان دانشوروں نے خیالی یا مستقبل کے مثالی معاشرے کے لیے تصوراتی خاکے پیش کیے‘ جن کی خصوصیت ایک اخلاقی معیشت کا قیام ہے‘ جس میں اخلاقی بنیادوں پر مبنی مثبت نظریات معاشرے کے آگے بڑھنے کی بنیادی وجہ تھے۔ سائنسی مارکسزم کی طرف سے سوشلزم کی واضح تعریف سامنے لانے سے پہلے‘ سوشلزم کی اصطلاح ایک وسیع تصور تھی‘ جس میں ایک یا ایک سے زیادہ مختلف نظریات کا حوالہ ہوتا تھا‘ جس کا مقصد سرمایہ دارا نہ معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے مزدور کے مسئلے کو حل کرنا تھا۔ مسئلہ کی تفصیل‘ اس کی وجوہات کی وضاحت اور تجویز کردہ حل جیسا کہ نجی املاک کا خاتمہ یا کوآپریٹو اور عوامی ملکیت کے سوال پر سوشلسٹ فلسفیوں میں وسیع اختلاف پایا جاتا تھا۔
اخلاقی سوشلزم کی اصطلاح ابتدائی طور پر مارکسی ماہر معاشیات روزا لکسمبرگ کی طرف سے مارکسی ترمیم پسند ایڈورڈ برنسٹین اور ان کے سوشلسٹ اصلاح پسند حامیوں کے خلاف تنقید کرتے ہوئے استعمال ہوئی۔ ان اخلاقی سوشلسٹوں نے سوشلزم کے حق میں نیو کانٹیائی لبرل نظریات اور اخلاقی دلائل کو جنم دیا تھا۔ عملی سیاست میں اخلاقی سوشلسٹ آگے چل کر برطانیہ کی سیاست میں ابھرے۔ اس کے اہم دانشور ایک عیسائی سوشلسٹ آر ایچ ٹاؤنی تھے۔ اس کے نظریات کرسچین سوشلزم‘ فیبین ازم‘ اور گلڈ سوشلزم جیسے نظریات سے جڑے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے ذریعے آگے چل کر برطانوی لیبر پارٹی کے اندر اخلاقی سوشلزم ایک اہم نظریے کے طور پر شامل ہوا۔ برطانوی وزرائے اعظم ریمسے میکڈونلڈ‘ کلیمنٹ ایٹلی اور ٹونی بلیئر نے اپنے اپنے دور میں‘ اپنے اپنے انداز میں اخلاقی سوشلزم کی عوامی حمایت کی ہے۔
اخلاقی سوشلزم نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں‘ خاص طور پر برطانیہ میں سماجی جمہوری تحریک اور اصلاح پسندی پر گہرا اثر ڈالا۔ اخلاقی سوشلزم صرف سرمایہ داری کی اخلاقیات کا نقاد ہی نہیں تھا‘ بلکہ یہ سرمایہ داری کے معاشی اور مادی مسائل کا نقاد بھی ہے۔ جب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف جرمنی نے 1950ء کی دہائی میں گوڈس برگ پروگرام کے دوران آرتھو ڈاکس مارکسزم کو ترک کیا تو اس پارٹی کے اندر اخلاقی سوشلزم سرکاری فلسفہ بن گیا۔ سرمایہ دار مخالف روایتی پالیسی کو ترک کرنے کے فیصلے نے پارٹی کے ان لوگوں کو ناراض کیا‘ جنہوں نے سرمایہ د ارانہ مخالف پالیسی کی حمایت کی تھی۔ پارٹی کا یہ اقدام سوشلزم کے کلاسیکی تصور کو ترک کرنے کے مترادف تھا۔ جرمنی اور برطانیہ کی ان پارٹیوں میں اب بھی کبھی کبھی جو سوشلزم کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘ وہ اخلاقی سوشلزم ہی ہے‘ جو سائنٹفک سوشلزم کے معیار پر پورا نہیں اترتا‘ لہٰذا اسے کئی سنجیدہ دانشور محض نیک خواہشات قرار دیتے ہیں اور معاشرے میں محض نیک خواہشات سے تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ پاکستان میں ان خواہشات کا اظہار اسلامی سوشلزم‘ ریاستِ مدینہ‘ سویڈن‘ ناروے اور چین جیسے نظام کی باتوں سے ہوتا رہا ہے‘ لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کسی بھی حکمران نے کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستان کے موجودہ دگرگوں ہوتے معاشی اور سیاسی نظام میں واحد حل متبادل نظام کی طرف پیش قدمی ہے۔ جس کا جائزہ آئندہ کسی کالم میں لیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved