گوگیٹر(Go getter ) انگریزی کی ترکیب ہے۔ یہ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی بڑے آدمی کے ہر قسم کے احکامات بجا لانے کے لیے ہر وقت تیار رہے اور دیے گئے حکم پر عمل کرنے کے لیے کچھ بھی کرگزرے۔ اس قسم کے شخص کے کردار کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک جذبے یا اخلاقی اصول بے معنی ہوتے ہیں‘ با معنی کچھ ہوتا ہے تو وہ کام جو اسے دیا گیا ہو۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت سے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو بادشاہوں کے لیے یہ فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تاریخ میں ریجنٹ سے لے کر حاجب اور مصاحب تک بہت سے الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ ہر وہ عہدہ جو بادشاہوں کے دربار میں پایا جاتا تھا‘ وہ اسی انگریزی ترکیب کے مترادف ہی تھا۔ ایسے لوگوں کی زندگی اپنی پہلی ناکامی تک ہی ہوا کرتی تھی۔ اپنے آقا کے کسی حکم کو یہ پورا نہ کرپائے تو نظروں سے گر گئے‘ معتوب ہوگئے‘ گوشۂ گمنامی میں چلے گئے یا بعض انتہائی صورتوں میں قتل کردیے گئے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ بادشاہوں کی خواہشات کے گھوڑوں کو قانون کی لگام پڑی اور ریاستی نظام قواعد و ضوابط کے تابع ہوا تو ایسے افراد نمایاں تو نہ رہے مگر دورنِ خانہ ان کی خدمات کی طلب آج بھی موجود ہے۔ اہداف حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرگزرنے والے یہ لوگ ایک خاص حد تک تیزی سے ترقی کرتے نظر آتے ہیں‘ ان کی صلاحیتیں بھی غیرمعمولی دکھائی دیتی ہیں مگر جیسے ہی ان پر قیادت کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے‘ ان سے بڑے فیصلے نہیں ہوپاتے‘ ذمہ داری کے بوجھ تلے یہ کراہنے لگتے ہیں اور آخرکار خود کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر واپس عام سے آدمی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا انجام کچھ بھی ہو‘ ان لوگوں کی افادیت سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا‘ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سیاستدانوں اور حکومتوں میںایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو وقتی طور پر بڑے اہم ہوتے ہیں لیکن غائب ہوتے ہیں تو یوں کہ ان کے بارے میں یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ تھے بھی یا نہیں۔
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے پچھلے چند برسوں کے اندازِ سیاست پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے بھی گو گیٹر کا کرداراپنا لیا ہے۔ 2018ء کے الیکشن سے کچھ پہلے انہوں نے بلوچستان کی حکومت تبدیلی کرنے کا ذمہ لیا۔ اس وقت ان کے پاس اس صوبے کی اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں تھا۔ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو ایک دن ان سے ملے تو حالات ایک نئے رخ پر چل نکلے۔ یکا یک ایک گروہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ سردار ثنا اللہ زہری کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان کے عظیم تر مفاد کے تحفظ کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے عنوان سے ایک تحریک نے جنم لیا اور سردار ثنا اللہ زہری کی جگہ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس کے بعد پھر جو کچھ ہوا‘ وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ بلوچستان حکومت بدلنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا ستارہ زوال کے گھر میں داخل ہوگیا۔ اس زمانے میں شہباز شریف نے زرداری صاحب کا توڑ کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ کر سکے۔ عجیب بات ہے کہ سردار ثنا اللہ زہری آج کل پیپلزپارٹی میں ہی پائے جاتے ہیں۔
2021ء میں ان کے ذمے کام لگا کہ وہ عمران خان کی حکومت گرائیں۔ اس مشق کا آغاز بھی بلوچستان سے ہوا۔ اس بار یہ اتنی باریک چال تھی کہ عمران خان وزیراعظم ہوکر بھی اس کی گہرائی نہ سمجھ سکے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال ان کے پاس گئے اور اونچ نیچ سمجھانے کی کوشش کی۔ چند اور لوگوں نے بھی انہیں بتایا کہ اصل ہدف کہیں اور ہے لیکن وہ نہ مانے۔ سینیٹ کے چیئر مین صادق سنجرانی کی دی گئی اطلاعات کے بھروسے پر عمران خان خود جام کمال کو ہٹانے کے لیے تیار ہوگئے۔ جام کمال کے ایک حامی سینیٹر کو انہوں نے کہا: جام کمال کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ سینیٹر نے اشاروں میں بتایا کہ تحریک انصاف میں بھی کچھ ایسا ہو سکتا ہے مگر عمران خان نہ مانے۔ پھر وہی ہوا جو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک انصاف بھی ٹوٹی‘ اتحادیوں کو بھی حکومت میں خرابیاں دِکھنے لگیں اور زرداری صاحب کی چھڑی کہیں دور سے پھونکے ہوئے منتر کے زور پر یکا یک معجز نما ہوگئی۔ وہ جدھر اشارہ کرتے صفوں کی صفیں عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر ان کی اقتدا میں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوجاتیں۔مسلم لیگ (ن) کی تو انہوں نے ایسی نظر بندی کی کہ اسے اقتدار کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا‘ اور تو اور مولانا فضل الرحمن بھی کچھ نہ کر سکے۔ایم کیو ایم والے بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کر گئے۔ ملک‘ قوم یا ریاست پر حکومت بدلنے کے کیا اثرات ہو سکتے تھے‘ اس بارے میں جناب زرداری نے کچھ نہیں سوچا کیونکہ انہیں فقط اپنے ہدف سے مطلب تھا۔ غواص کو یوں بھی صدف مطلوب نہیںہوتا‘ گوہر ہی اس کی مراد ہے۔
جناب زرداری کو حکومت کی تبدیلی کے دوران پنجاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو چودھری شجاعت حسین پہلے آدمی تھے جنہیں پتا چل گیا کہ ان کی جادوئی طاقت کا راز کیا ہے۔ اسی لیے وہ بغیر کسی مزاحمت کے اپنا حصہ لے کر ان کے ساتھ مل گئے۔ چودھری پرویز الٰہی اس کھیل کو اچھی طرح سمجھنے کے باوجود ایک خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوگئے۔ انہوںنے جب زرداری صاحب کی دی ہوئی وزارتِ اعلیٰ قبول کرنے کے بجائے عمران خان سے وزارتِ اعلیٰ کا سودا کر لیا تو زرداری صاحب کا متبادل منصوبہ بروئے کار آگیا۔ اب سابق گورنر چودھری سرور کا کردار شروع ہوا۔ ان کے ذریعے پیغام بھیجا گیا کہ عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں تو پنجاب کی حکومت تحریک انصاف اپنے پاس رکھ سکتی ہے‘لیکن چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ اس پیغام سے چودھری سرور کا اعتماد جاتا رہا اور آخرکار انہیں گورنری کے ساتھ تحریک انصاف بھی چھوڑنا پڑی۔ مگر کام ہوگیا‘ چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے امیدوار تو بن گئے مگر وزارتِ اعلیٰ ان سے دور چلی گئی۔
گو گیٹر کا سب سے بڑا ہتھیار لالچ ہوتا ہے اور آخری حربہ خوف۔ زرداری صاحب نے اپنے اہداف کے حصول میں انہی دو طریقوں سے کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ وہ اسے حکمت عملی سمجھتے ہیں اور اب یہ بھی گمان کرنے لگے ہیں کہ انہیں ان صلاحیتوں کے بنیاد پر حکومت مل جائے گی اور ملک کو ایک 110ڈگری کے زاویے پر کسی نامعلوم سمت کی طرف موڑ دیں گے جس کا انجام فلاح ہو گا۔ پے در پے کامیابیوں نے انہیں یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ ملک وہی چلا سکتے ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ انہیں حکومت ملی تو انہوں نے کیا کیا یا انہیں حکومت ملے گی تو وہ کیا کریں گے‘ اصل نکتہ جو تاریخ بتاتی ہے وہ کچھ اور ہے۔ صدیوں کا انسانی تجربہ ہے کہ گو گیٹراقتدار کا تابع ہوتا ہے‘ خود مقتدر نہیں ہوتا۔ وہ حکمرانوں کے کام آتا ہے اور عطا کا سزاوار ہوتا ہے‘ خود حکمران نہیں بنایا جاتا۔ وہ اوجِ کمال پر پہنچ کر بھی دربار میں کرسی نشین نہیں بن سکتا۔ وہ کار آمد ہوتا ہے‘ ذمہ دار نہیں بنایا جاتا۔ اسے حصہ ملتا ہے‘ حصے داری کا شرف اسے نہیں ملتا۔ زرداری صاحب سیاستدان تھے تو وہ اس ملک کے حکمران بھی ہوگئے۔ اب وہ گو گیٹر ہیں‘ موجودہ بندوبست میں ان کا حصہ انہیں مل چکا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے حق میں صرف ایک دلیل جاتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ورنہ حقِ حکمرانی ان کے ہاتھوں سے کب کا پھسل چکا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved