ہم اب تک یہ سمجھتے آئے تھے کہ یوگا میں جسم کو متوازن رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ باقاعدگی سے یوگا کرتے ہیں اُن کا جسم درست حالت میں رہتا ہے، سانسوں کی آمد و رفت میں توازن برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مگر بہت سے دوسرے معاملات کی طرح اِس معاملے میں بھی ہم نے اپنی ’’روایت‘‘ برقرار رکھی۔ یعنی غلط ثابت ہوئے! بات یہ ہے کہ بھارت میں یوگا کے بڑے گرو بابا رام دیو ہزاروں، بلکہ لاکھوں چیلوں کو تنفس بہتر بنانے کی مشق کراتے آئے ہیں مگر اب اُنہوں نے موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے سیاسی تنفس بہتر بنانے پر بھی توجہ دینا شروع کردیا ہے! لائن آف کنٹرول کی ایک بڑی کرامت یہ ہے کہ اِس کے قرب و جوار میں رُونما ہونے والے واقعات بُہتوں کو آؤٹ آف کنٹرول کردیتے ہیں۔ مرتے تو دو چار بدنصیب ہی ہیں مگر بیانات اور الزامات داغ کر میڈیا کی بَھٹّی میں مِٹّی کو سونا بنانے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اِن میں بابا رام دیو بھی شامل ہیں۔ رام دیو کے ساتھ بابا کا لفظ اچھا نہیں لگتا۔ وہ ابھی جوان ہیں۔ اِس سے پہلے کہ کوئی اُنہیں بوڑھا سمجھ لیتا، رام دیو نے ایسا دھانسو قسم کا بیان داغا ہے کہ سبھی کو اُن کی رگوں میں لہو کے گرم ہونے کا احساس ہوگیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر دوسروں کی طرح بابا رام دیو کے بھاگوں بھی چھینکا ٹوٹا اور وہ بھی بھڑک اُٹھے۔ اپنے چیلوں کو علی الصباح تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے کی ہدایت کرنے والے بابا رام دیو کے سَر پر ’’ہندو راشٹر واد‘‘ کا جُنون ایسا چڑھا کہ وہ عسکری قیادت کو مشورہ دینے پر تُل گئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کو سبق سکھانے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ وہ پانچ ماریں تو تُم پچاس مارو! میڈیا کی بہتی گنگا میں کون ہے جو ہاتھ دھوتے دھوتے اشنان کرنے پر مائل نہیں ہوتا؟ بابا رام دیو نے بھی موقع غنیمت جانا اور بیان کی لنگوٹ کر میڈیا کی گنگا میں ڈُبکی لگالی۔ لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں مزید خرابی پیدا کرنے کے حوالے سے بھارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ سبھی مقدور بھر اِس جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ تنفس کی مشق کرانے والے رام دیو کا سانس واقعی بہت مضبوط ہے تبھی تو وہ ایک سانس میں اِتنی بڑی بات کہہ گئے۔ ہم نہیں اب تک یوگا گرو اور امن کا داعی سمجھ رہے تھے وہ تو مہا سنگرام کے پرچارک نکلے! بھارت کے مہا اَدھیاپکوں کی ایک بڑی سَمسیا یہی ہے کہ وہ سبق پڑھانے سے زیادہ سِکھانے پر زور دیتے آئے ہیں! مگر اِس میں بھی احتیاط ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہے۔ چھوٹے اور کمزور ہمسایوں ہی کو سبق سِکھانے کا درس دیا جاتا ہے۔ ہمسایا چین جیسا یعنی بہت بڑا ہو تو دُم پر پاؤں آ جاتا ہے اور پسپائی کو بہترین حکمتِ عملی کی حیثیت سے اختیار کرنے پر دھیان دیا جاتا ہے! کنٹرول لائن پر اپنے چار پانچ فوجی مار کر بھارت کی عسکری قیادت نے ماحول تو بنا دہی دیا ہے۔ میڈیا کے چولھے پر شَر انگیز بیانات اور الزامات کی دیگ چڑھائی جاچکی ہے اور سب اِس میں مقدور بھر اشتعال ڈال رہے ہیں! بیان بازی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے۔ تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار ہے۔ زور اِس بات پر ہے کہ پاکستان کو سبق سِکھایا جائے۔ الزامات کا معاملہ یہ ہے کہ نہلے پہ دہلا مارا جارہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے شروع ہونے والی بات آؤٹ آف کنٹرول ہوکر آسمانوں پر گئی اور دیوتاؤں کو زمین پر اُتار لائی! بابا رام دیو کے بیان پر گرما گرم اور چٹ پٹے تبصروں نے عجیب سماں پیدا کردیا ہے۔ حامیوں نے بابا رام دیو کی ’’ذہانت‘‘ کو خوب سراہا ہے۔ دوسری طرف مخالفین چاہتے ہیں کہ پاکستان سے معاملات کو مزید نہ بگاڑا جائے۔ رام دیو کے حامی کرشن جی کا حوالہ دے رہے ہیں کہ اُنہوں نے جنگ کے میدان میں ارجن کو یہی سبق دیا تھا کہ دُشمن پر کاری ضرب لگائی جائے۔ رام دیو کے مخالفین کہتے ہیں کہ اِس معاملے میں کرشن جی کا حوالہ دینا درست نہیں۔ رام دیو چونکہ یوگی ہیں اِس لیے اُن کے حامیوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ کرشن جی بھی یوگی تھی۔ بعض نے اُنہیں ’’کرم یوگی‘‘ یعنی عمل پر غیر متزلزل یقین رکھنے والی ہستی قرار دیا ہے۔ دوسری طرف مخالفین میں سے دو ایک نے کرشن جی کو ’’کام یوگی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’کام یوگی‘‘ کو محتاط ترین لفظوں میں بھی عورتوں کا رَسیا کہا جاسکتا ہے! میڈیا کے بازار میں تمام اسٹال شہرت اور نیک نامی کے نہیں ہوتے، بدنامی رُسوائی کے ٹِھیے بھی جا بہ جا پائے جاتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول اور پاکستان سے شروع ہونے والی بات شری کرشن اور مہا بھارت تک جا پہنچی ہے اور تبصروں کے میدان میں وہ دھماچوکڑی مچی ہے کہ خود بابا رام دیو بھی پریشان سے ہیں کہ یہ کہاں بِھڑوں کے چَھتّے میں ہاتھ دے بیٹھے! پاکستان پر اُچھالے جانے والے کیچڑ کا رُخ اب دیوتاؤں کی طرف ہوگیا ہے۔ مگر صاحب ع اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں! بابا رام دیو کے بیان پر تبصرہ کرنے والوں نے اِس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اب بھارت کو سیکولر ازم اور گاندھی ازم کا لبادہ اُتار کر پھینک دینا چاہیے۔ اِس بات پر صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔ کون سا سیکولر ازم اور کون سا گاندھی ازم؟ بھارت میں اب بھی لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ گاندھی جی تعلیمات اپنانے سے کچھ نہیں ملا۔ اِس بات پر گاندھی جی کی آتما تڑپ جاتی ہوگی۔ آزاد بھارت میں گاندھی جی تعلیمات کو قبول ہی کب کیا گیا ہے؟ کون ہے جس نے گاندھی جی کی امن پسندی کو زندگی بسر کرنے کے بنیادی طریقے کی حیثیت سے اپنایا ہے؟ جب بھی موقع ملا ہے، بھارتی قیادت نے پاکستان کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی ہے اور اِس پر بھی امن پسندی کے دعوے؟ ع وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا! بابا رام دیو شاید ’’آج کا ارجن‘‘ بننا چاہتے تھے مگر حتمی تجزیے میں راکشس بنتے دِکھائی دے رہے ہیں! لائن آف کنٹرول کے واقعات اور پاکستان سے نفرت نے اور کچھ نہ سہی، اِتنا تو کیا کہ ایک اور بھارتی لیڈر کے اندر چُھپے ہوئے چانکیہ کو باہر نکالنے پر مجبور کردیا! لائن آف کنٹرول کے اُس طرف سے پانچ کے بدلے پچاس مارنے کی بات کی جارہی ہے اور ہم اب تک امن کی آشا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بھارت اچانک پانی چھوڑ کر فصلوں سے مکانات تک سبھی کچھ ڈبونے پر کمر بستہ ہے اور ہم اب تک آلو، پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کو دو طرفہ تعلقات کا محور بنائے ہوئے ہیں! سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے، پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے اور ممبئی حملوں کی طرح لائن آف کنٹرول کی اصل کہانی بھی کچھ ہی دنوں میں منظرِ عام پر آ جائے گی۔ اور یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ بھارت نے اپنے فوجی خود ہی مارے تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ مگر شاید ہماری قیادت کو تب بھی ہوش نہ آئے گا اور وہ دوستی ہی کی ڈفلی بجاتی رہے گی۔ وہ پانچ کے بدلے پچاس مارنے کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ اوکھلی تیار بھی کر رہے ہیں اور ہم اوکھلی میں سَر دینے کو بے تاب ہیں۔ ع ناطقہ سَر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved