تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     23-06-2022

یہ کاغذ کی سڑکیں‘ یہ بارش کا پانی

وہ موسم آن پہنچا ہے جس میں حبس‘ مرطوب فضا‘ پسینہ‘ گھبراہٹ‘ نمی کی خوشبو سے بوجھل ٹھنڈی ہوائیں‘ سرمئی اور کالی گھٹائیں‘ جھما جھم بارش‘ کئی کئی دن کی جھڑی‘ چونسہ اور انور رٹول آم اور موٹی موٹی کالی گھلی ہوئی جامنیں گرما اور برسات کے سنگم میں اپنے اپنے ذائقے گھول دیتے ہیں۔
کل میں اپنے گھر کے قریب بڑی سڑک سے گزرا تو سڑک کے بیچ سیوریج نالے کی صفائی جاری تھی۔ کئی کام کرنے والے لمبے لمبے ترشول نما اوزار لیے نالے سے نکاسی میں رکاوٹ بننے والا کچرا نکال نکال کر ایک طرف ڈھیر لگا رہے تھے۔ ابھی مون سون کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا ہے‘ لاہور میں ایسی کوئی بارش بھی نہیں ہوئی جس میں سڑکیں نہریں بن جاتی ہیں اور موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے مستریوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے۔ لاہور‘ راولپنڈی‘ فیصل آباد اور ملتان سمیت نکاسیٔ آب کی صورت حال کہیں بھی تسلی بخش نہیں۔ لاہور میں ہر سال برسات کی کم از کم ایک بارش واسا کے بڑے بڑے دعووں کوشہر کی بڑی شاہراہوں پر سرِعام ڈبو دیتی ہے۔ بد نظم ٹریفک میں لاہور ویسے بھی سب سے آگے ہے اور جب پانی سڑکوں پر کھڑا ہو جائے تو لاہور جیسی تکلیف دہ ٹریفک دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتی لیکن شاید کراچی جیسی سنگین صورت حال کہیں کسی اور شہر میں نہیں ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ایسی مصیبت کو صورتحال کہنا بھی اس کی سنگینی کو کم کرنا ہے۔ ان لوگوں کو اس تکلیف اور ان مسائل کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا جو نہ کراچی میں رہتے ہوں نہ ان کا وہاں آنا جانا ہو۔
چند سال قبل میرا کراچی کا سفر اس مسئلے کا ناقابلِ فراموش مشاہدہ تھا۔ موسلا دھار بارش میں جہاز نے کراچی کے شہر کی طرف بلندی کم کرنا شروع کی اور شاید محض چار پانچ سو فٹ کی بلندی پر تھا جب لگاتار بارش کے ساتھ شدید کڑک کی آواز اور روشنی کے جھماکوں نے ہر مسافر کو خوف زدہ کردیا۔ یہ کڑک اگرچہ جہاز میں بہت زیادہ محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن بعد میںرشتے داروںنے بتایا کہ اتنی خوفناک‘ بلند اور مسلسل گرج انہوں نے ساری عمر میں نہیں سنی تھی۔ جہاز سے نکلتے نکلتے طوفانی بارش کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔ سامان وصول کرکے اپنے ان عزیز کو فون کیا جو مجھے لینے ایئر پورٹ آرہے تھے تو اندازہ ہوا کہ اگرچہ وہ راستے میں ہیں لیکن باہر شاہراہِ فیصل سمیت تمام سڑکوں پر تو پانی کے سیلابی ریلے ہیں اور پتا نہیں ایسے میں وہ پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ میرا باہر خود جانے کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا کہ ٹیکسی بھی بہرحال اس ٹریفک جام سے نہیں نکل سکتی تھی۔ دو تین گھنٹے انتظار کے بعد وہ عزیز ایئر پورٹ کے بہت قریب تو پہنچ گئے لیکن اندر آنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ میں تیز بارش میں سامان سمیت باہر جا کر شاہراہِ فیصل کے قریب ان کی گاڑی میں بیٹھا۔ شاہراہِ فیصل سے کورنگی انڈسٹریل ایریا جانا ایسا کٹھن کام کبھی نہیں‘ جیسا اُس دن محسوس ہوا۔ سڑکیں پانی سے بھری ہوئیں‘ ہر قسم کی چھوٹی‘ بڑی اور درمیانی سڑکوں پر خوار ہوتے بند گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے دائیں بائیں سے رینگتے اور اپنی گاڑی کو بند ہونے سے بچاتے ہوئے ہم چار‘ پانچ گھنٹوں کے بعد اپنی منزل کے قریب تو پہنچ گئے لیکن کورنگی انڈسٹریل ایریا میں پوری سڑک پر ٹرالر‘ ٹرک اور گاڑیاں اس طرح بمپر سے بمپر جوڑے کھڑے تھے کہ رینگنے کا لفظ بھی مبالغے کی ذیل میں آئے گا۔ چنانچہ گاڑی اسی مقام پر چھوڑ کر باقی راستہ پیدل طے کرنا پڑا۔ ایئر پورٹ سے کورنگی تک کا یہ سفر قریباً پانچ گھنٹوں میں طے ہوا اور اس پر بھی شکر ادا کیا کہ پہنچ تو گئے۔
اصل بتانے کی بات یہ ہے کہ اس پورے سفر میں‘ مجھے یاد نہیں ہے کہ کوئی ٹریفک پولیس کا اہل کار یا نکاسیٔ آب کا کوئی آدمی پورے شہر میں کہیں نظر آیا ہو۔ شہر کا کوئی والی وارث سرے سے تھا ہی نہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو ہر لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور جس پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی برسوں سے حکومت کرتی آئی ہیں۔ سچ یہ کہ شہر کی اس حالتِ زار کے ساتھ ان سیاسی وابستگیوں پر فراز کا شعر یاد آتا تھا؛
حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں
ہم ساکنانِ قریۂ آفت رسیدہ ہیں
کراچی میں دو تین دن تک بارشوں کی خبر سن کر مجھے وہ سارے دیکھے ہوئے مناظر ایک بار پھر یاد آگئے۔ مجھے ڈر تھا کہ بارش کی دعائیں مانگتا ہوا یہ پیارا شہر بارش ہونے پر ایک نئی مشکل صورت حال سے دوچار ہوگیا ہوگا لیکن ٹھیک صورت حال کس سے معلوم کی جائے۔ چینلز کی بنائی اور دکھائی ہوئی مخصوص رپورٹنگ سے تو اعتبار ہی اٹھ چکا ہے اس لیے اس کو ایک طرف ہی رکھ دینا بہتر ہے۔ لیکن ایک دوست کی زبانی یہ سن کر اطمینان ہوا کہ پچھلے برسوں کی نسبت اس سال پانی کی نکاسی خاصی بہتر تھی۔ بڑی شاہراہوں اور سڑکوں پر دیر تک پانی کھڑا نہیں رہا۔ ٹریفک کا ازدحام اگرچہ تھا لیکن قدرے کم اور اس میں لوگوں کی اپنی لاپروائیوں کا دخل کافی تھا۔ رہائشی علاقوں میں پانی کھڑا رہنے کی شکایات کافی رہیں لیکن اعلیٰ اور اوسط درجے کی آبادیوں میں پچھلے برسوں کی نسبت پانی کی نکاسی کچھ بہتر تھی۔ کم وسائل والی آبادیوں میں شکایات بدستور ہیں اور ان میں لوگوں کے اپنے طرزِ زندگی نے بھی خود انہی کا جینا مشکل کیا ہوا ہے۔ خیر یہ سن کر اطمینان تو ہوا لیکن یاد رہے کہ یہ بہتری صرف سابقہ برسوں کی بدترین صورت حال کے مقابلے میں ہے۔ کوئی قابلِ رشک نہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مون سون کے آنے والے موسم میں یہ نظام کتنی بارشوں کی مار سہہ سکتا ہے اور ایک موسلا دھار مسلسل بارش شہر کا کیا حشر کردے گی۔ اور برسات جو ہمارے پاکستان اور بھارت میں ایک رومانی اور پُرلطف موسم کے طور پر مشہور ہے‘ کتنے لوگوں کے لیے پریشانی کا سامان لے کر آئے گی۔
کانوں میں مسلسل یہ آواز پڑتی رہتی ہے اور آپ بھی سنتے رہتے ہوں گے کہ فلاں چھوٹے صوبے اور فلاں چھوٹے شہر کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ان کا حق مارا جا رہا ہے اور ان کے وسائل سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ان کے یہاں ترقیاتی کام پر توجہ نہیں دی جارہی۔ یہ سب باتیں ٹھیک ہوں گی لیکن انصاف سے دیکھا اور سوچا جائے تو ملک کے سب سے بڑے شہر سے سب سے زیادہ زیادتی روا رکھی گئی ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ زیادتی خود مقامی سیاسی جماعتوں اور نمائندوں اور انہی کے لوگوں نے کی ہے۔ کسی اور کو اس کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ ہم ہر شہر اور علاقے کا جائز حق ادا کرنے میں نا اہل ثابت ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی ذمہ داری بھی ہر سطح کے حکومتی اہل کاروں کے ساتھ اس علاقے کے نمائندوں کی ہے۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی شہر کے مکینوں کے ساتھ اتنی مدت تک اتنی متنوع ناانصافیاں نہیں کی گئیں جتنی ساکنانِ کراچی کے ساتھ روا رکھی گئی ہیں۔ نکاسیٔ آب کا مسئلہ تو ناانصافی کے اس پیکیج کا ایک‘ محض ایک حصہ ہے۔
کیا کرتے رہے سندھ کے سارے وزرائے اعلیٰ؟ جن میں اکثر خود کراچی میں مقیم تھے۔ باقی سب کو چھوڑیے‘ سابقہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی طویل العمری اور طویل وزارتی ادوار کے متعلق کیا کیا لطیفے اور چٹکلے مشہور ہیں۔ اور جناب مراد علی شاہ‘ اللہ انہیں لمبی زندگی دے۔ آپ میں سے کسی کی ملاقات ہے اُن سے؟ غالب کا شعر پہنچانا ہے ان تک‘ عمرِ خضر کی دعا کے ساتھ۔
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved