ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی بڑی عجیب قوم ہیں۔ جب تک ہمیں کسی چیز کا ٹھیک ٹھاک بل موصول نہیں ہوتا یا وہ چیز یا سروس بہت زیادہ مہنگی نہیں ہو جاتی‘ تب تک ہم اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں نہ اسے ضائع کرنے سے باز آتے ہیں۔ اب پٹرول مہنگا ہوا ہے تو لوگ اسے انتہائی احتیاط سے استعمال کرنے لگے ہیں۔بلاوجہ گاڑی سٹارٹ کر کے سڑکوں پر نکل نہیں پڑتے بلکہ کئی مرتبہ سوچتے ہیں کہ جانے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ جو لوگ گاڑی کو کھینچ کر چلاتے تھے یا بلاوجہ ریس کے پیڈل دبا کر رکھتے تھے‘ وہ اب پیڈل کو ہلکا سا چھونے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ بس گاڑی چلتی رہے۔ لیکن پٹرول آج واپس ستر‘ اسّی روپے لٹر ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ جو آج اسے ضرورت سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں‘ دوبارہ سے پٹرول کو پانی کی طرح ضائع کرنے پر اتر آئیں گے ‘ خواہ مخواہ لانگ ڈرائیو پر نکل پڑیں گے اور ثابت کریں گے کہ انہیں جب تک مہنگائی کا جھٹکا نہیںدیا جاتا‘ وہ اپنا لائف سٹائل درست کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے۔قدرتی یعنی سوئی گیس کا بھی یہی حال ہے۔ آج سے پانچ‘ سات برس قبل تک گھروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حتیٰ کہ گھروں کی تعمیر کے دوران بیڈ رومز میں بھی ہیٹر جلانے کے لیے گیس کے پائپ پہنچا کر پوائنٹ رکھے جاتے تھے۔ پانی کو گرم رکھنے کی خاطر بڑے بڑے گیزر گھروں میں عام تھے‘ جو بندہ نہانے کیلئے جاتا تھا وہ سٹیم باتھ لینا شروع کر دیتا تھا اور ایک‘ دو گھنٹے سکون کے ساتھ پورے گیزر کا گرم پانی ختم کرکے ہی باہر نکلتا تھا۔ خواتین بھی کچن میں چولہے جلتے چھوڑ دیتی تھیں کہ دوبارہ جلانے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ ساری ساری رات بونگ پائے کے پتیلے چولہے پر چڑھے رہتے تھے۔عیاشی کی ان داستانوں کے باوجو د گیس کا ماہانہ بل دو‘ اڑھائی سو روپے سے زیادہ نہیں آتا تھا۔ پھر ایک روز پتا چلا کہ ملک میں گیس کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جس کے ساتھ ہی گیس کا پریشر کم ہونے لگا۔ کئی علاقوں میں گیس رات بھر غائب رہنے لگی اور پھر بجلی کی طرح گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو گئی۔ ساتھ ہی ساتھ گیس کی نئی قیمت بھی سلیبز کی صورت میں متعین کر دی گئی۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ لوگ جو قدرتی گیس کو مالِ مفت دلِ بے رحم کی طرح استعمال کرتے تھے‘ ماچس جلاتے وقت دس مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ لوگوں کے ماہانہ گیس کے بل دو‘ تین سو روپے کے بجائے آٹھ آٹھ‘ دس دس ہزار آنے لگے بلکہ سردیوں میں کئی صارفین کو تو چالیس‘ پچاس ہزار بلکہ لاکھوں روپے کے بل بھی موصول ہوئے۔ تب جا کر احساس ہوا کہ قدرتی گیس کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے تھے۔
دنیا میں آکسیجن کے بعد اگر کوئی زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور سب سے عام استعمال کی چیز ہے تو وہ سادہ پانی ہے۔ چاہے پینے کا ہو یا نہانے کا‘پانی کے بغیر گزارہ نہیں مگر پانی کے ساتھ پٹرول اور گیس سے بھی زیادہ بے رحمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔شیو کرنی ہو یا ٹوتھ برش ‘ برتن‘ کپڑو ں کی دھلائی ہو یا نہانا دھونا یا پھر کار واش‘ روزانہ کئی کئی گیلن پانی ضائع کیا جاتا ہے اور اس پر تھوڑی سی شرم بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ ویسے جب والدین خود شیو یا دانت صاف کرتے وقت نل کھلا چھوڑ دیں گے تو بچے بھلا کیوں پیچھے رہیں گے؟ ایسی ہر عادت بچپن سے پختہ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور بڑے ہوکر جب تک یہ پتا چلتا ہے کہ جیب خالی ہو گئی ہے اور پانی یا گیس کا بل دینا اب مشکل ہو تا جا رہا ہے‘ تب تک انسان لاکھوں لٹر پانی اور لاکھوں مکعب میٹر گیس ضائع کر چکا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان جیسے ممالک میں ہی ہو سکتا ہے۔ جدید ممالک میں بھی وہ عیاشیاں نہیں جو ہمیں یہاں میسر ہیں۔ اُن ممالک کو تو چھوڑیں‘ آپ اپنے ملک میں ہی جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر دیکھ لیں کہ لوگ کیسے صاف پانی کی بوند کو ترستے ہیں اور کیسے میلوں پیدل چل کر دن بھر میں بمشکل ایک بالٹی بھر کر لاتے ہیں۔کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پی رہے ہیں۔ شہروں میں بھی پانی نایاب ہو رہا ہے۔ کئی علاقوں میں زیرِزمین پانی چار‘ چار سو فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ موٹریں لگا کر زمین کے حلق سے پانی کھینچا جا رہا ہے اور اس پانی کا جو استعمال ہو رہا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ایک بندہ جو نہانے کیلئے شاور کے نیچے گنگنانے بیٹھتا ہے تو اپنے تئیں محمد رفیع بن کر ہی باہر نکلتا ہے۔عمومی طور پر گھروں میں ایک دن میں شیو کرنے‘ وضو یا ٹوتھ برش کرنے اور نہانے میں جتنا پانی ضائع کیا جاتا ہے اس سے دس خاندان اپنی پانی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ویسے اس معاملے میں امیر و غریب‘ سب برابر ہیں۔ دونوں تب تک ٹھیک نہیں ہوتے جب تک یا تو پانی غائب نہ ہو جائے یا قیمت قابو سے باہر نہ نکل جائے۔پانی اب بھی تقریباً مفت مل رہا ہے۔ سرکاری رہائشی علاقوں میں پانی کے میٹر لگے ہوتے ہیں لیکن بل برائے نام آتا ہے جبکہ اکثر نجی رہائشی منصوبوں میں میٹر نہیں لگایا جاتا اور گھر کے سائز کے حساب سے ماہانہ فکس بل بھیج دیا جاتا ہے جس کے بعد پانی ہوتا ہے اور رہائشی۔اورجب کبھی پانی نہیں آتا تو لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔صاف پانی کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ خرید کر پانی پینا بھی اب بہت سے لوگوں کے لیے ممکن نہیں رہاجبکہ بہت سے علاقوں میں جو سیوریج ملا پانی آتا ہے‘ پیناتو دُور کی بات ‘اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اس سے ہاتھ دھوئے جا سکیں۔
جس طرح زندگی لافانی نہیں ہے‘ اسی طرح اس زمین اور اس زندگی میں ہمیں جو وسائل اور سہولتیں میسر ہیں وہ بھی لامحدود اور لافانی نہیں ہیں۔ قدرت نے خطہ زمین کو مختلف نعمتوں کے حساب سے بانٹ رکھا ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور وہاں تیل بھی پانی کی طرح عام ہے لیکن ان علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے۔ اسی طرح کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دھوپ کا نام و نشان نہیں۔ کینیڈاجیسے کئی ممالک ہیں جہاں موسم کی شدت اور برف باری کے باعث زراعت سال میں چار مہینوں سے زیادہ ممکن نہیں۔ وہ پھل اور سبزیاں دوسرے ممالک سے منگوانے پر مجبور ہیں۔پاکستان قدرتی وسائل اور معدنیات کی جنت ہے۔ یہاں کے چار موسم ہمارے لیے کسی نعمتِ عظیم سے کم نہیں۔ہمارے ہاں کا آم دنیا کے کسی بھی آم سے زیادہ میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔ امریکا اور کینیڈا میں آج کل جو آم پاکستان سے جا رہا ہے وہ مقامی شہریوں کو بیس ڈالر فی کلو میں خریدنا پڑ رہا ہے یعنی تقریباً پاکستانی ایک ہزار روپے کا ایک آم۔پاکستان میں شہریوں کو یہ آم پچاس‘ ساٹھ روپے کا مل جاتا ہے جبکہ کاشتکاروں کو اس سے بھی کم قیمت پر پڑتا ہے اور اگر آموں کی پیداوار اور برآمدات پر خاطر خواہ توجہ دی جائے تو کثیر زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
یہاں کی پینسٹھ فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح کی سینکڑوں‘ ہزاروں نعمتیں ہیں۔ یہاں سب کچھ ہے اور اگر نہیں ہے تو احساسِ ذمہ داری نہیں ہے ‘ نعمتوں کی قدر نہیں ہے۔ ہم لوگ چیزوں کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں اور جب اشیا کی کمیابی یا مہنگائی ہوتی ہے تو رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ پانی سستا ملے یا مہنگا‘ پٹرول پچاس روپے فی لٹر ملے یا تین سو روپے‘ عوام کی تربیت کم از کم ایسی ہونی چاہیے کہ ہر شے کا استعمال احتیاط اور ضرورت کے تحت کریں‘ چیزوں کو ذاتی مال یا لامحدود سمجھ کر اڑانے کی عادت ترک کریں۔ جتنا ہو سکتا ہے دوسروں تک یہ پیغام پہنچائیں تاکہ وسائل کا ضیاع کم سے کم ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved