عربی کا مقولہ ہے: ''سچ کڑوا ہوتا ہے، اگرچہ یہی گوہرِ نایاب ہوتا ہے‘‘۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر ہمارے حسبِ حال ہے، باقی سب کہانیاں ہیں، فسانے ہیں، بس سچ یہی ہے:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں!
رنگ لاوے گی، ہماری فاقہ مستی ایک دن
الغرض ہم عالمی ساہوکاروں کے آستانوں پہ جبیں سائی کرتے رہے، سودی قرضوں پر گزران ہوتا رہا، عشرتیں بھی کیں، لیکن فرد ہو یا قومیں اور ملّتیں، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایک دن یہی انجام نوشتۂ دیوار بن کر سامنے آتا ہے، سو اَب آ چکا اور اب ہماری فاقہ مستی رنگ لا رہی ہے، بلکہ رنگ کچھ چوکھا ہی آگیا ہے۔ باری باری مسندِ اقتدار پر فائز ہونے والے ہمارے حکمران ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں، حالانکہ سچ یہ ہے کہ سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں، کسی کا حصہ کم ہے، کسی کا زیادہ، کسی کے دور میں ان قرضوں کا کچھ حصہ صنعتی منصوبوں اور ذرائع مواصلات پر لگا اورکسی کے دور میں زمین پر اس کا کوئی نشان ہی نظر نہ آیا حتیٰ کہ مسٹر کلین خان صاحب کا حصہ اس میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے، سو یہ ذمہ داری سب کو مشترکہ طور پر قبول کرنا ہو گی اور اس سے نَجات کے لیے کوئی طویل المدت منصوبہ بنانا ہو گا، کیونکہ اس مسئلے کا قلیل المدت کوئی حل نہیں ہے۔
ہم ''پاکستان کا اصل مسئلہ‘‘ کے عنوان سے 21 مئی 2022ء کو اس پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں، یہ نہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے، نہ فلسفیانہ موشگافیوں سے اس سے گریز کیا جا سکتا ہے، یہ دو اور دو چار کا مسئلہ ہے، جب کوئی فرد یا قوم گلے گلے تک قرض میں پھنس جائے، تو مزید قرض کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''ذرااُس دن کو یاد کرو! جب ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا تو بھرگئی ہے اور وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے‘‘ (ق: 30)۔ سو اب ہم قومی اعتبار سے قرضوں کے حوالے سے قرآنِ کریم کے کلماتِ مبارکہ کے مطابق ''ھَلْ مِنْ مَّزِیْد‘‘ کے مرحلے میں ہیں۔ اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ''لیلائے اقتدار‘‘ کے سب دیوانے ہیں، لیکن جو بھی اس سِنگھاسَن پر آکر بیٹھے گا، اُسے ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہر قاری کے ذہن میں لازماً یہ سوال پیدا ہوگا: ''جب حالات اتنے کٹھن ہیں، توحصولِ اقتدار کی اتنی تڑپ کیوں‘‘، تو اس سوال کاجواب یہ ہے: ''اقتدار و اختیار کا نشہ شاید سب نشوں سے فزوں تر ہے اور اگر اس میں آتشِ انتقام بھی شامل ہو جائے، تو پھر یہ نشہ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو جاتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں نظر آ رہا ہے‘‘۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہمارے 2022-23ء کے قومی میزانیے میں آمدنی کا ممکنہ تخمینہ تقریباً سات ہزار ارب روپے اور اخراجات کا ممکنہ تخمینہ تقریباً 9502 ارب سے زائد بتایا گیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے: ''ڈھائی ہزار ارب کا جو فرق ہے، وہ کہاں سے آئے گا‘‘، سو وہی قرضوں کا جال ہے جو پھیلتا چلا جائے گا اور اگر یہی روش جاری رہی تو نادہندہ قرار دیا جانا کچھ عرصے کے لیے مؤخَّرتو ہو سکتا ہے، لیکن ہمیشہ کے لیے بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کا ایک ہی حل ہے: ''اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا، یعنی اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے جینے کا سلیقہ سیکھنا‘‘، اس کے سوا اس کا اور کوئی حل نہیں ہے، باقی سب خوش فہمیاں ہیں، خود فریبیاں اور طفل تسلیاں ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے 2022-23ء کے مجوّزہ بجٹ میں ممکنہ اخراجات کا سب سے بڑا کھاتہ (Head of Account) قرضوں کی ادائیگی کا ہے جو تقریباً چار ہزار ارب روپے ہے۔ لیکن اس کے لیے قوم اور نظامِ حکومت میں شامل یعنی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اور تمام سیاسی رہنمائوں کو اپنے آپ کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا، قوم کی ذہن سازی کرنا ہو گی، قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا ہو گا، ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے مجموعی طور پر ذمہ داری قبول کرنا ہو گی اور یہی چیز ہمارے ہاں مفقود ہے۔ آنکھیں کھولنے والے حقائق یہ ہیں:
ہمارے بیرونی زرِ مبادلہ کا محفوظ ذخیرہ دس ارب ڈالر سے کم ہیں، جبکہ بھارت کے بیرونی زرِ مبادلہ کامحفوظ ذخیرہ چھ سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے، ایک ارب انتالیس کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل بھارت کے اعلیٰ ترین سرکاری افسران کا مشاہرہ ہمارے آج کے کرنسی ریٹ کے مطابق تقریباً ساڑھے سات لاکھ روپے ہے اور بائیس کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان کے عالی مرتبت افسران کا مشاہرہ ومراعات تقریباً اس کا ڈبل ہیں، بلکہ ہمارے اعلیٰ سرکاری افسران کی پنشن بھی شاید بھارت کے اعلیٰ افسران کے مشاہرے سے زیادہ ہے۔ یہ صورتِ حال سبھی بااختیار اداروں اور مراعات یافتہ طبقات کی ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے انتہائی متمول رہنما سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بنے، اُن کی کابینہ نے سب سے پہلے صدر، وزیراعظم، وزراء اور ممبرانِ اسمبلی کے مشاہروں کو دوگنا یا اُس سے بھی زیادہ کرنے کافیصلہ کیا، جبکہ آزاد کشمیر کے بجٹ کا سارا انحصار پاکستان سے ملنے والی امداد پر ہے۔ جب تک اہلِ اقتدار و اختیار حقیقی تبدیلی کے لیے عملی مثالیں قائم نہیں کریں گے، تو غریب عوام سے قربانی کی توقع رکھنا فضول ہے، وہ تو بے اختیار ہیں اور بھگت رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم جناب عمران خان نے پہلے وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں اور گاڑیاں بیچنے کا ڈرامہ کیا اور پھر گھر سے وزیر اعظم ہائوس تک آمد ورفت کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے، جبکہ وہ اپنے آپ کو سب سے محبِّ وطن اور دیانت دار سمجھتے ہیں۔ سب کا حال یہی ہے۔
حقیقی مجبوری کے تحت اگرچہ بعض صورتوں میں قرض ناگزیر ہو جاتا ہے اور شریعت میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے، اسی لیے قرضِ حسنہ کے فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں، رسول اللہﷺ نے بھی ضرورت کے تحت قرض لیا ہے، قرض کے احکام بھی شریعت میں وارد ہیں، لیکن رسول اللہﷺ نے قرض کو عذاب سے بھی تعبیر فرمایا ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''نبی کریمﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں فکرِ (پریشاں)، غم، عَجز، سستی، بزدلی، بخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (بخاری: 6369)، (2): ''رسول اللہﷺ ایک دن مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابواُمامہ انصاریؓ کو وہاں دیکھ کر فرمایا: ابواُمامہ! (اس وقت یہاں آمد کا) سبب کیاہے، کیونکہ یہ نماز کا وقت تو ہے نہیں اور تم مسجد میں بیٹھے ہو۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ہجومِ افکار اور قرضوں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے دعائیہ کلمات نہ بتائوں کہ (ان کی برکت سے) اللہ تمہیں ان غموں سے نجات دیدے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ضرور بتائیے! آپﷺ نے انہیں صبح وشام پڑھنے کے لیے جو دعائیہ کلمات تعلیم فرمائے، ان میں یہ بھی تھے: ''اے اللہ! میں قرض کے غلبے اور لوگوں کے تسلّط سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ حضرت ابواُمامہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے یہ دعا پڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے غموں کو بھی دور فرمادیا اور میرے قرض کی ادائیگی بھی مقدر فرما دی‘‘ (ابودائود: 1555، خلاصہ)۔ (3) ''آپﷺ نے فرمایا: میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ایک شخص نے عرض کی: (یا رسول اللہ!) آپﷺ نے قرض کو کفر کے برابر ٹھہرایا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں!‘‘ (نسائی: 5474)۔ (4) ''حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مُکاتَب غلام اُن کے پاس آیا اور عرض کی: میں بدلِ کتابت (یعنی آزادی کامالی بدل) ادا کرنے سے عاجز ہوں، سو میری مدد فرمائیے! حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہٗ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھائوں جو مجھے رسول اللہﷺ نے سکھائے تھے، (آپﷺ نے فرمایا تھا:) علی! اگر تم پر ''جبلِ صِیر‘‘ (پہاڑ کا نام) کے برابر بھی قرض ہو گا، اللہ تعالیٰ اُس کی ادائیگی کی تدبیر مقدر فرما دے گا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو: اے اللہ! تو مجھے حلال رزق اتنا عطا فرما جو مجھے حرام سے بے نیاز کر دے اور مجھے اپنے فضل سے اتنا نواز دے کہ تیرے (کرم کے) سوا کسی اور کی (طرف التفات کی) حاجت ہی نہ رہے‘‘ (سنن ترمذی: 3563)۔
جب غلامی کا رواج تھا، تو بعض اوقات مالک غلام سے کہتا: ''اتنی رقم ادا کر دو، میں تمہیں آزاد کر دوں گا‘‘ پھر مالک اس کو محنت مشقت کر کے کمائی کرنے کے لیے عارضی آزادی دے دیتا تھا اور جب وہ مطلوبہ رقم کما کر مالک کو دے دیتا تو پھر وہ مکمل طور پر آزاد ہو جاتا۔
ہمارے لبرل حضرات اس طرح کی آیات و احادیث، جو بشارات پر مبنی ہوتی ہیں اور غمزدہ دلوں کے لیے سہارا بنتی ہیں، کا مذاق اڑاتے ہیں، کیونکہ وہ عالَمِ اسباب ہی کو مؤثر بالذات مانتے ہیں اور ذاتِ مُسَبِّبُ الاسباب کی قدرت کا انکار کرتے ہیں، جبکہ مومن کا شِعار اس سے مختلف ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے! اگر ہماری قوم دل وجان سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے، تو کیا ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ساحلوں کے قریب زیرِ زمین یا ہماری سرزمین میں بے حساب معدنیات نکل آئیں اور ہم خود کفیل ہو جائیں، جیساکہ عالَمِ عرب اللہ تعالیٰ کے ان قدرتی خزانوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ آخر لوگوں نے معاذ اللہ! باطل ''زمینی خدائوں‘‘ کی بندگی کرکے بھی دیکھ لیا ہے، کیا ملا اور آج ہم کس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور (اللہ سے) ڈرتے رہتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے، مگر انہوں نے (رسولوں کو) جھٹلایا تو ہم نے اُن کے کرتوں کے سبب اُن کو اپنی گرفت میں لے لیا‘‘ (الاعراف: 96)، (2) ''بھلا وہ کون ہے جو (عاجزی کے عالَم میں) مُضطَر (اور پریشاں حال شخص) کی دعائوں کو قبول فرماتا ہے اور اس سے تکلیف کو دور فرما دیتا ہے‘‘ (النمل: 62)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved