تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     24-06-2022

چھوڑو بیکار کی باتیں

طوفان سامنے ہے‘ وقت ختم ہورہا ہے‘ مگر ہمارے حکمران ٹولے اور ان کے گماشتے قوم کو بیکار کی باتوں میں الجھائے ہوئے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ کہ سب کو اُفق پر اُبھرتے خطرات کا علم ہے‘ اور یہ بھی کہ کیا کرنا چاہیے‘ لیکن کس کو معلوم نہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان پر چلی گئی ہیں‘ پھر آپ عوام کو سستا تیل اور ڈیزل کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟ صرف ایک ہی صورت ہے‘ حکومت اندرونی اور بیرونی مالیاتی اداروں سے قرضے لے اور وہ امیر غریب‘ جس کے پاس موٹر سائیکل‘ کار‘ ٹرک اور بس ہے‘ کو سبسڈی دے۔ اور پھر ملک کی آبادی بے لگام بڑھ رہی ہے‘ جس رفتار سے گاڑیاں سڑکوں پر لائی جارہی ہیں‘ ان کے لیے آپ کو ہر ہفتے سینکڑوں ارب روپے کہیں سے نکالنے ہوں گے۔ تو پھر باقی سب ادارے بند کردیں۔ صحت اور تعلیم کا پہلے ہی ستیاناس کر چکے ہیں۔ انہیں بند کردیں اور عوام کو سستا ایندھن فراہم کریں تاکہ وہ گاڑیاں چلا لیں۔ اس وقت عالمی سطح پر انرجی کے شعبے میں ایک بہت بڑا بحران پیدا ہو چکا ہے‘ یا کردیا گیا ہے۔ اب یہ باتیں فضول ہیں کہ اس حکومت نے پٹرول مہنگا کردیا‘ یا اُس حکومت نے کردیا تھا۔
میری نظر میں ہمارے سیاست باز سیاست دان نہیں۔ یہ وہی ہیں جو آپ کے سامنے سیاست کرتے ہیں۔ لیکن سیاست ان کی دکانوں میں رکھا ہوا وہ سودا ہے جس میں دیگر دھندوں کی طرح جھوٹ اور ملاوٹ بہت ہے۔ اس کاروبار میں اصل جنس کی اب شکل تک دکھائی نہیں دیتی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر ملک میں معیشت کو منڈی کے فطری اتار چڑھائو‘ طلب اور رسد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑدیا جاتا۔ کسی بھی ملک کی معیشت آزاد مقابلے کی بنیاد پر نہیں چلتی۔ یہ پرانا مفروضہ ہے جو موجودہ مالیاتی نظریے کی اساس ہے۔ مقصد یہ نہیں کہ حکومتیں مارکیٹ کو کنٹرول کریں‘ بلکہ وہ اسے ریگولیٹ کرنے کے لیے مالیاتی پالیسیاں بناتی ہیں۔ ہمارے اقتصادی ماہرین کو یا دنیا کے دیگر ماہرین کو علم ہے کہ افراطِ زر کو کیسے کنٹرول کرنا ہے‘ مہنگائی سے نمٹنے کے کیا طریقے ہیں‘ سب حکومتیں ان ماہرین کی رائے کے مطابق چلتی ہیں۔
لیکن ہمارا مسئلہ کچھ اور ہے۔ ہمارے اکابرین معیشت پر سیاست کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اگر حکومت کی پالیسیاں غلط ہیں تو آپ ان پر تنقید ضرورکریں۔ مگر تنقید کا لازمی حصہ یہ ہوتاہے کہ آپ خرابی کی نشاندہی کریں اور اس کا حل تجویز کریں۔ سیاست ایسے فضول تبصروں اور بیان بازی سے بھری ہوتی ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھ دیا گیا‘ آئی ایم ایف سٹیٹ بینک آف پاکستان کو چلاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ کیا سٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومت کی سیاست کے تابع ہونا چاہیے؟ جب ہم نے ایسا کیا‘ کیے رکھا تو معیشت کا حال بگڑ گیا۔ سب ترقی یافتہ اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ترقی پذیر ممالک نے اپنے مرکزی قومی یا ریاستی بینکوں کو خود مختاری دی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ ڈاکٹر رضا باقر پر اس ملک میں کتنا کیچڑ اچھالا گیا اور انہیں لانے والوں پر کیا کیا الزامات لگائے گئے۔ وہ خاموشی سے کام کرتے رہے۔ کورونا کی وبا کے دوران مشکل حالات میں معاشی بڑھوتی کی تدبیرکی۔ اس حوالے سے ایوان کے اندر اور باہر عجیب و غریب باتیں کی گئیں‘ خاص طور پر جب سٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کا قانون بنایا گیا تھا۔
آئی ایم ایف کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ جو روزانہ اس عالمی ادارے کو ہد فِ تنقید بناتے ہیں‘ کچھ تو کھوج لگائیں کہ اس کے اغراض و مقاصد‘ سیاق و سباق اور عالمی معاشی نظام میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ ہر ملک ایک حد تک اس سے کچھ فنڈز بغیر کسی پروگرام کے لے سکتا ہے‘ جسے حقوقِ وصولی کہتے ہیں اور وہ معمول کے مطابق ادا کر دیے جاتے ہیں تاکہ جن ممالک سے آپ نے مال درآمد کیا ہے‘ اور رقوم واجب الادا ہیں‘ انہیں ایڈجسٹ کردیا جائے۔ جب آپ پروگرام کے لیے معاہدہ کرتے ہیں‘ اس کا مقصد آپ کو لوٹنا نہیں بلکہ آپ کو زبردستی مجبور کرنا ہے کہ آپ اپنے معاشی ڈسپلن میں رہیں‘ آمدنی اور اخراجات میں کچھ توازن ہو اور آپ کی درآمدات اور برآمدات میں جو فرق ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ اس معاشی نظم وضبط میں آپ کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اقتصادی بیماری یا بیماریاں حد سے بڑھ جائیں تو یہ ادارہ آپ کو کئی ایک کڑوی گولیاں نگلنے پر مجبور کرتا ہے‘ لیکن اس کا مقصد بھی تباہی نہیں بلکہ علاج ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ہمارے سیاست بازوں کو عوامی مقبولیت کے نشے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ حکومت میں ہوں تو یہ گولیاں وہ عوام کے حلق سے اتارتے ہیں۔ لیکن خود اپنے طبقے کو ان کی کرواہٹ سے محفوظ رکھتے ہیں۔ حزبِ اختلاف میں ہوں تو حکومتی گروہوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ان پر مہنگائی کا بوجھ لاد کر عوام کی کمر توڑ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہم گزشتہ چالیس برس سے یہ باتیں سن رہے ہیں۔ اب تو سر دکھنے لگا ہے۔ ملک بیکار کی باتوں سے نہیں‘ قومی اور عالمی حالات کا معروضی تجزیہ کرکے مناسب اور بروقت اقدامات کرنے اور پالیسیاں بنانے سے آگے بڑھتے ہیں۔
خطرات کا ذکر کیا تھا۔ کچھ اشارے کردیتا ہوں۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا کو خوراک کی فراہمی کی راہ میں مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ہم جو گندم درآمد کرتے ہیں‘ اس کا چالیس فیصد یوکرین سے لیتے ہیں‘ لیکن اب جنگ کی وجہ سے بندرگاہیں بند‘ کھیت ویران اور گوداموں میں پڑی گندم سڑ رہی ہے۔ ہم گندم میں کسی حد تک خود کفیل ہیں لیکن بہت کچھ جو پیدا کرتے ہیں‘ وہ افغانستان اور دیگر ممالک کو ہمارے اپنے ہی لوگ سمگل کروا دیتے ہیں۔ کھاد تک سمگل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جب ملک میں قلت پیدا ہوتی ہے تو پھر وہی جنس درآمد کر لیتے ہیں۔ دونوں طرح سے ہمارے حکمران طبقے مال بناتے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے تین ممالک‘ روس‘ ایران اور وینزویلا پر پابندیاں ہیں تو تیل کا بحران تو پیدا ہوگا اور قیمتیں بڑھیں گی۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ روس اور یوکرین کی جنگ جلد ختم ہو ورنہ دنیا کے کئی خطے قحط کا شکار ہوجائیں گے اور ہم اس صف میں نمایاں ہوں گے۔
بجلی کی پیداوار کے شعبے کے ساتھ جن خاندانوں نے معاہدے کیے تھے‘ ان میں سے کچھ نے سونے چاندی کے پہاڑ کھڑے کر لیے ہیں۔ اب وہ اقتدار میں بھی ہیں۔ ذرا ان سے پوچھیں کہ فرض کریں آپ پیداواری کمپنیوں کو تیس روپے فی یونٹ ادا کرکے عوام کو پندرہ روپے میں فروخت کریںگے تو پندرہ سو ارب روپے کا قرض کیوں نہیں چڑھے گا؟
بجائے اس کے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں‘ کبھی کبھار میز پر بیٹھ کر دونوں جانب کے ماہرین ہی بلا کر پوچھ لیں کہ اس بحران سے نکلنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ کون سے اقدامات‘ چاہے جتنے بھی مشکل ہوں‘ ہمیں کرنے کی ضرورت ہے؟ اہلِ ہوس اور سچائی سے گریز کرنے والوں کو ہمیشہ اپنے ہی جال میں پھنستے دیکھا گیا ہے۔ جو گزشتہ حکومت کے خلاف بیان بازی کرتے تھے‘ اب حکومت ان کے گلے پڑ گئی ہے۔ اس لیے وہ دل پر پتھر رکھ کر فیصلے کررہے ہیں۔ چلیں‘ کچھ تو کررہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved