پاکستان جنریشن گیپ کا کیس سٹڈی ملک ہے۔ پہلی جنریشن وہ جو پچھلی نصف صدی گزرنے کے بعد پیدا ہوئی‘ 60سال سے اوپر اور70کے پیٹے میں ہے۔ دوسری جنریشن 14سال سے 30 سال کے درمیان والی۔ ان دونوں کو آپ 5‘ 7 سال اوپر نیچے بھی کر سکتے ہیں۔ دونوں کی تخلیق کے بعد تعلیم‘ تربیت‘ پرورش‘ روزگار‘ معلومات اور معاملات چلانے کے طریقوں میں 180 ڈگری والا یوٹرن کہیں نظر نہیں آ رہا بلکہ یہ جنریشن گیپ 360 ڈگری سے بھی بہت آگے کا بڑا Phenomenon ہے۔
اس جنریشن گیپ کے کچھ سلوک (Conduct) یا مظاہر (Denominator) چادر اور چار دیواری کے اندر نظر آتے ہیں۔ اس کا دوسرا لیول ریاست کے درجے پر کھل کر دکھائی دیتا ہے۔ گھر کے بڑے کا نئی نسل پر کنٹرول چار دیواری کے اندر بھی برائے نام ہے۔ رہی چادر‘ تو وہ ان دوصدیوں کے درمیان ''معرکۂ فتوحات‘‘ کی بلَی چڑھ چکی۔ دانش مندوں‘ دانشوروں کے دانش کدوں میں اتنا بڑا سماجی Paradigm Shiftموضوع بحث تو دُور کی بات‘ سِرے سے کوئی موضوع ہی نہیں سمجھا جاتا۔
دنیا کی بہت سی دوسری ریاستوں میں اس چینج آف دی سنچری کو گلے لگانے کے لیے پچھلی صدی کے آخری عشرے میں تھِنک ٹینکس بنے۔ جہاں سماج کی دو انتہائوں کا تجزیہ کرنے‘ اُن کا طرزِ زندگی‘ انفرادی اور اجتماعی سوچ‘ معاشی رویوں اور ضرورتوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اگلی نسل کو سمجھنے کا کام شروع ہوا۔ ہمارا سماج پچھلے تین عشرے اتنی بڑی سماجی تبدیلی کو سِرے سے تبدیلی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس لیے یہاں پوائنٹ سکورنگ لیول پر شائوٹنگ میچ ہوتے ہیں‘ لیکن اس طرح کے بور موضوعات پہ سنجیدہ ڈائیلاگ ہر گز نہیں۔
پچھلے5سے 6عشروں میں جن کی کمائی اُن کی صلاحیتوں‘ تعلیم اور پیشہ ورانہ قابلیت سے جیٹ سپیڈ کے ساتھ آگے جا چکی ہے۔ اُن کے لیے یہ بحث تو کیا‘ یہ سماج بھی اس قابل نہیں جسے ایسی بحث کے لیے منہ لگایا جائے۔ یہ ایلیٹ اور اُن کے دُم چھلے اپنے سماج کو محض دیسی سمجھتے ہیں جبکہ سات سمندر پار کی کشتیوں پر ولایتی کپڑوں میں فوٹو کھنچوانا درجۂ تہذیب پر فائز ہونے کی نشانی۔ مغرب میں اسے جنریشنل گیپ کہا جاتا ہے۔ جس پر معروف سوشیالوجسٹ Karl Mannheim نے 1960ء کے عشرے میں Theory of Generation Gap کا ٹائٹل دے کر ریسرچ کا آغازکیا۔ مسٹر کارل نے اپنی سٹڈی کی بنیاد نو عمری سے نوجوانی میں قدم رکھنے والی نئی نسل کے گھریلو اور سماجی رویے سٹڈی کرنے کے لیے یوتھ سنٹرز‘ گراؤنڈ اور تعلیمی ادارے ٹارگٹ کیے جبکہ سینئر شہریوں کو سمجھنے کے لیے چرچ‘ بزرگوں کے ادارے اور بڑوں کے کلب۔ جس کے بعد جنریشن گیپ کو ایک نیا عنوان مل گیا جسے Institutional age Segregation کہا جاتا ہے۔
پھر سماج کی تین نسلوں میں فرق واضح کرنے کے لیے دلچسپ موضوعات دے کر سٹڈی کی گئی۔ جیسے سائلنٹ جنریشن‘ Baby Boomers‘ جنریشن X‘ Millennials اور جنریشن Alpha معروف ترین ہیں۔ یہ سٹڈیKyle Chivers اور اُن کی ٹیم نے سال 2021ء میں مکمل کی۔ آئیے ہم ان نسلوں میں اپنی کیٹیگری تلاش کرتے ہیں جو مختلف ایج گروپس میں تقسیم کرکے بنائی گئی۔
پہلی کیٹیگری: یہ ہیں Silent Traditionalists جو سال 1925ء سے سال 1945ء کے درمیان پیدا ہوئے۔
دوسری کیٹیگری: یہ ہیں Baby Boomersجن کی پیدائش سال 1945ء سے سال 1965ء کے درمیان ہوئی ہے۔
تیسری کیٹیگری: یہ کیٹگری جنریشن Xکہلائے گی‘ جن کی پیدائش کا سال 1965ء تا 1980ء بنتا ہے۔
چوتھی کیٹیگری: Millennialsوہ لوگ ہیں جو سال1980ء سے 1995ء کے عرصے میں ولادت کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
پانچویں کیٹیگری: جنریشنZ‘ اس میں گلوبل وِلیج کے وہ شہری شامل ہیںجو 1995ء تا 2010ء کے عرصے کے دوران پیدا ہوئے۔
آخری کیٹیگری: یہ جنریشنAlphaہے۔ 2010ء سے آج تک پیدا ہونے والی نسلِ انسانی۔
اس وقت کرۂ ارض پر انسان‘ آباد ی کے تین گروپوں میں تقسیم ہے۔ پہلا: سینئر سٹیزن‘ دوسرا: ماں باپ‘ تیسرا: بچے۔ اسی تسلسل میں ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ 1980ء کے عشرے میں ڈویلپ ہوا‘ اس لیے Millennials‘ جنریشنZ اور جنریشن Alpha تینوںکو Digital Natives کہا جاتا ہے۔
میوزک میں دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات Juke Box سے آشنا ہیں۔ یہ اپنے وقت میں سکے ڈال کر میوزک سننے کی بہترین ٹیکنالوجی تھی۔ اب زمین پر شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو کسی نہ کسی قسم کی ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کرتا۔ جن قوموں نے Geo Politicalاور Geo Economic لیڈر شپ کی دوڑ جیت لی‘ اُن کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ وہ معاشرے یہ دوڑ کیسے جیتے؟ ایسے سماج مشرق میں ہوں یا مغربی دنیا میں انہوں نے اپنے رویّے تین بنیادی اصولوں پہ استوار کیے۔ ان میں سے پہلا سماجی رویہ صبر (Patience) کا ہے۔ ایسے معاشروں میں شاپنگ مال‘ ٹرین سٹیشن‘ بس سٹینڈ پر مسافر صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ دوسرا رویہ ہے‘ برداشت (Tolerance) جس کا سادہ مطلب ہے ہر بات‘ ہر چیز اور زندگی کے ہر مرحلے میں دوسروں کو بھی مرضی سے جینے کے لیے تھوڑی جگہ دی جائے۔ تیسرا ہے نظر انداز (Ignoreیا Overlook) کرنے کا حوصلہ۔ یہ تینوں رویے ہمارے سماج میں کم ہی سہی‘ مگر انفرادی زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ اس صدی کے‘ اس سال کے‘ اس لمحے اگر ہم دل پر ہاتھ رکھ کے ریاستی سطح پر ان رویوں کو تلاش کریں تو یقینا یہ جنسِ ناپید شاید ہی کہیں ملے۔
آئیے! بدلے ہوئے سماج کے ساتھ دیمک زدہ ڈھانچہ جو سلوک کرتا ہے‘ اُس کے اشارے دیکھیں۔ مثلاً گمشدہ افراد‘ مرغی چور کی آخری عدالت سے ضمانت مسترد۔ نصف شب سادہ کپڑوں میں دیواریں اور دروازے توڑ کر گھروں میں داخل ہونے والے۔ خالی ہاتھ بچوں‘ بچیوں‘ بزگوں پر آنسوگیس کے گولے‘ ماڈل ٹائون‘گرفتاری کے بجائے بازو اور ٹانگیں توڑنے کے لیے لاٹھیاں اور رائفل کے بٹ کا استعمال‘ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ غیر اعلانیہ میڈیا مینجمنٹ۔ ٹی وی اینکرز‘ وکلا اور رپورٹرز پر دہشت گردی کے پرچے‘ آئینی حدود سے ماورا پروازیں۔ معیشت لوٹنے کے ملزموں کے ہاتھوں معیشت سنوارنے پر ضد۔ یحییٰ فارمولا‘ ضیا فارمولا‘ کاکڑ فارمولا‘ مشرف فارمولا‘ سیٹھی اور حقانی فارمولا۔ 70‘ 80اور 90ء کے عشرے کے دیمک زدہ فارمولے اور 2022ء کا بدلا ہوا سماج۔ دیمک زدہ ڈھانچے کو لگتا ہے ملک دشمن عناصر نے زیادہ چائے پی کر ڈالر214 روپے کا کردیا۔
پہنے ہوئے ہیں تن پر پیراہن ہوائی
رختِ سفر ہے اپنا‘ اپنی برہنہ پائی
آنکھوں میں صرف سپنے ہاتھوں میں ناتوانی اور کاسۂ گدائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
باندھی ہوئی ہے کَس کے ٹانگے سے چارپائی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved