وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے پاک بھارت تعلقات پر ایک حالیہ بیان پر وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ وضاحت میں نہ کوئی نئی بات کہی گئی ہے اور نہ ہی یہ غیر متوقع ہے۔ وضاحت میں دفترخارجہ نے پاکستان کی اسی پالیسی کو دہرایا ہے جو پانچ اگست 2019ء سے بھارت کے ساتھ بات چیت اور تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں رہی ہے۔ پاکستان نے بات چیت اور مختلف شعبوں میں تعلقات قائم کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا‘ بلکہ 2004ء سے شروع کیے گئے امن عمل کے نتیجے میں تجارت و ثقافت‘ سپورٹس اور عوامی رابطوں کے شعبوں میں اس حد تک ترقی ہو چکی تھی کہ 2012ء میں پاکستان نے بھارت کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ضوابط کے مطابق موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا لیکن 2014ء میںبی جے پی کے برسرِ اقتدار آنے اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد یہ عمل رک گیا کیونکہ نئے بھارتی وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دوران اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک طرف چین اور دوسری طرف کشمیر سے ملنے والی سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری تیز کر دی تھی۔
لائن آف کنٹرول پر اس تنائو کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے تعلقات متاثر ہوئے بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان لوگوں کے آنے جانے اور تجارت کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا‘ وہ بھی رک گیا‘ لیکن 5 اگست 2019ء کو یک طرفہ اقدام کے ذریعے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے پاکستان کو شدید رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس رد عمل کے تحت گزشتہ تقریباً تین برس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان آنے جانے کے تمام زمینی اور ہوائی راستے بند ہیں‘ دو طرفہ تجارت‘ جو 2012ء میں پانچ بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی‘ زیرو ہو چکی ہے۔باہمی مسائل کے باعث ملکوں میں اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان اختلافات کے نتیجے میں تعلقات بھی منقطع ہوتے رہتے ہیںلیکن پاکستان اور بھارت کا باہمی اختلافات کے بارے میں رویہ نرالا ہے۔ انہیں دیکھ کر بچپن میں کھیل کے دوران آپس میں ''کٹی‘‘ یاد آ جاتی ہے‘ لیکن بچپن کی کٹی کی بھی دو کیٹیگریز ہوا کرتی تھیں‘ ایک کچی اور دوسری پکی کٹی۔ پاکستان اور بھارت باہمی تعلقات منقطع کرنے پر آئیں تو لگتا ہے کہ دونوں ملکوں نے انہیں کبھی بھی بحال نہ کرنے کیلئے قدم اٹھایا ہے‘ مگر جیسا کہ ان سطور کے بعد بیان کیے جانے والے واقعات سے واضح ہو جائے گا‘ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا تعطل کبھی بھی طویل نہیں رہاکیونکہ ایسی روش تاریخی منطق‘ جغرافیائی حقائق اور ثقافتی تقاضوں کے خلاف ہے۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے‘ پاکستان اور بھارت میں بات چیت کا سلسلہ پہلے بھی تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے‘ مگر یہ کبھی بھی زیادہ دیر جاری نہیں رہا۔ حالات کے دبائو‘ بین الاقوامی رجحانات اور قومی مفاد کے تقاضوں کے زیرِ اثر بات چیت کا سلسلہ پھر سے بحال ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال: 1990ء کی دہائی کے شروع میں پاک بھارت مذاکرات میں اس اختلاف پر چار برس تک ڈیڈلاک جاری رہا کہ پاکستان دیگر مسائل مثلاً تجارت‘ پانی اور آمدورفت کی بحالی کے بجائے پہلے کشمیر پر بارآور مذاکرات چاہتا تھا‘ مگر بھارت تجارت اور باہمی اعتماد کے اقدامات پر پہلے اور کشمیر جیسے پیچیدہ اور دیرینہ مسائل پر بعد میں بات چیت پر اصرار کرتا تھا۔ اس ڈیڈ لاک کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اندر کمار گجرال نے سارک کی ایک سربراہی کانفرنس کے موقع پر ایک غیررسمی ملاقات میں ختم کیا۔ دونوں ملکوں نے طے کیا کہ ایک سٹرکچرڈ ڈائیلاگ‘ جسے کمپوزٹ ڈائیلاگ کا نام دیا گیا‘ کے فریم ورک میں تمام اہم متنازع مسائل‘ جن میں کشمیر اور دو طرفہ تجارت کی بحالی بھی شامل تھی‘ پر بات چیت ایک ساتھ شروع کی جائے گی۔دونوں ملکوں کے درمیان ان مذاکرات کے نتیجے میں فروری 1999ء میں بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا تاریخی دورۂ لاہور اور مینارِ پاکستان پر ان کی حاضری کے اہم واقعات رونما ہوئے۔ لاہور میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ''اعلانِ لاہور‘‘ جاری کیا گیا جس میں دونوں رہنمائوں نے کشیدگی سے پاک ہند باہمی تعلقات کے قیام اور متنازع مسائل‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا‘ کے حل کیلئے ایک ٹائم فریم پر اتفاق کیا۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک کے مطابق لاہور میں نواز شریف اور واجپائی کے درمیان غیر رسمی بات چیت میں مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ایک فارمولے پر اتفاق ہو گیا تھا‘ جس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے اُسی برس ستمبر میں باقاعدہ مذاکرات ہونے والے تھے‘ لیکن مئی 1999ء میں کارگل آپریشن نے اس مفاہمت کو سبوتاژ کر دیا۔ پاکستان کے ایک اور سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے کھوئے گئے متعدد مواقع میں سے یہ بھی ایک موقع تھا۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ تین بڑی اور دو مقامی (رن آف کچھ اور کارگل) جنگوں‘ وقفے وقفے سے کشیدگی اور اگست 2019ء سے مسلسل ڈیڈ لاک کے باوجود دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے ساتھ سرکاری اور عوامی تعلقات قائم کرنے کی خواہش ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس کی ضرورت کا اظہار کیا جاتا ہے‘ کیونکہ دونوں ملک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کے درمیان مسلسل کشیدگی خطرے سے خالی نہیں۔ یہ کشیدگی بڑھ کر کسی بڑے تصادم اور تصادم بڑھ کر جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے‘ جس میں جوہری خطرات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستان کے چار بڑے ہمسایہ ممالک میں سے سب سے طویل سرحد بھارت کے ساتھ ہے‘ جس کے دونوں طرف ایسے لوگ رہتے ہیں‘ جن کی نہ صرف زبان مشترک ہے بلکہ آب و ہوا‘ پانی بھی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی آمدورفت کو روکنے سے متعلق مسائل کو حل کرنے کیلئے باہمی تعاون ناگزیر ہے۔ اسی لیے مختلف حلقوں کی طرف سے دونوں ملکوں پر کشیدگی ختم کرنے اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے متنازع مسائل کے حل پر زور دیا جاتا ہے۔ وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان روابط کی بحالی کی اہمیت پر بیان اسی تناظر میں دیا ہے۔ وزیر خارجہ کے بیان سے پہلے پاکستان کے مختلف حلقوں کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کے حق میں متعدد بیانات آ چکے ہیں۔ بین الاقوامی حلقوں‘ جن میں چین‘ روس‘ اقوام متحدہ‘ امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں‘ کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور متنازع مسائل کے حل کو علاقائی اور عالمی امن بلکہ پورے خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کیلئے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔
پچھلی حکومت (پی ٹی آئی) کے دور میں ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ فروری میں دونوں ملکوں نے 2003ء کے معاہدے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے آرپار سے ایک دوسرے کے مورچوں پر فائرنگ اور گولہ باری کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ سابقہ حکومت نے بھارت سے چینی اور کپاس کی محدود مقدار خریدنے کا فیصلہ کر کے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ بعد میں رائے عامہ کے منفی رد عمل سے ڈر کر یہ کوشش ترک کر دی گئی‘ مگر اس ترکِ تعلقات کی رسم کو ہمیشہ کیلئے نہیں نبھایا جا سکتا۔ ہمسایہ ملک جیسا بھی ہو‘ اس سے میل جول اور لین دین ختم نہیں کیا جا سکتا‘ جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں: You can choose your friends, but not your neighbours۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved