اعلیٰ قیادت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''ہم اعلیٰ قیادت کی حفاظت کریں گے اور یہ ہمارا فرض ہے‘‘ کیونکہ حکومت کوئی بھی ہو اپوزیشن اس کی اعلیٰ قیادت کی حفاظت کرتی ہے، ہم ابھی بڑے شدومد سے پی ڈی ایم حکومت کی اعلیٰ قیادت کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل تین‘ ساڑھے تین سال تک اس نے بھی ہماری اعلیٰ قیادت کی حفاظت کی تھی اور پھر کسی مغالطے کی بنا پر اس نے ہمارا تختہ ہی الٹا دیا اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی حالانکہ اگر اقتدار میں سے نکالیں تو اس کی وجہ بھی بتانی چاہئے۔ ہمارے وزیر خزانہ شوکت ترین نے تو یہ بھی کہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب نکالا گیا تھا تو وہ بھی سڑکوں پر یہی پوچھتے پھر رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟ امید ہے کہ آئندہ یہ روایت تبدیل ہوگی۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
فکاہات
٭...ایک صاحب اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ ایک ٹریفک کانسٹیبل نے انہیں روک لیا اور چالان کی کارروائی کا آغاز کرنے لگا ،جس پر ان صاحب نے کہا کہ مجھے بہت جلدی ہے‘ مجھے جانے دو‘ میری گاڑی کی ڈِگی میں لاش ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل یہ بات سن کر خوفزدہ ہو گیا اور فوری طور پر فون پر اپنے باس کو مطلع کیا جس نے کہا کہ میں پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں؛ چنانچہ وہ آیا اور کار ڈرائیور سے کہا ''گاڑی کی ڈِگی کھولیے‘‘۔ ڈِگی کھولی گئی تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا، جس پر اس نے پوچھا: ''وہ لاش کہاں ہے؟‘‘
''کون سی لاش؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
''جس کا ذکر میرے کانسٹیبل نے کیا تھا‘‘ باس بولا۔
''اس احمق نے آپ سے یہ بھی کہا ہو گا کہ میں اوورسپیڈنگ کر رہا تھا‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
٭... ایک خاتون گاڑی پر کہیں جا رہی تھیں کہ اُن کی گاڑی بند ہو گئی۔ وہ نیچے اتر کر انجن کو دیکھنے لگیں کہ اور پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی۔ سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے عقب سے آنے والی گاڑی کا سوار ہارن پر ہارن دیے چلا جا رہا تھا۔ خاتون نے دوبارہ اتر کر انجن کو دیکھا اور پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سٹارٹ نہ ہوئی‘ اس دوران وہ صاحب ہارن پر ہارن دیے جا رہے تھے۔ وہ خاتون اُس شخص کے پاس گئیں اور بولیں:
''بھائی صاحب! آپ میری گاڑی سٹارٹ کر دیں، آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں!‘‘
در مدحِ خود
٭...اوکاڑہ سے ہمارے پیپلز پارٹی کے رہنما جو صوبائی وزیر بھی رہے ہیں، رانا اکرام ربانی‘ بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے میں اپنی بیمار ہمشیرہ کو لے کر بغرضِ علاج امریکا گیا تھا۔ وہاں میری روٹین تھی کہ ہمشیرہ کو کلینک میں چھوڑ کر میں قریبی ریستوران میں چلا جاتا جہاں چائے‘ کافی‘ کولڈ ڈرنک اور کبھی کھانا بھی کھا لیتا تھا۔ اس ریستوران کا مالک جو مشرقی جثے والا تھا‘ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ پاکستانی ہے یا ہندوستانی۔ ایک دن وہ مالک خود ہی میرے پاس آیا اور پوچھا: آپ کہاں سے ہیں؟ میں نے کہا: پاکستان سے۔ بولا: پاکستان تو بہت بڑا ملک ہے‘ آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں نے کہا: پنجاب سے۔ پھر بولا: پنجاب میں کہاں سے؟ تو میں نے بتایا کہ اوکاڑہ سے۔ اس پر وہ بولا: شہرِ ظفر اقبال سے آئے ہیں آپ؟ پھر اس نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی کہ آئندہ رانا صاحب جب بھی آئیں‘چائے، کافی یا کھانا کھائیں تو ان سے بل نہیں لینا۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ حالانکہ میں اسے کہتا بھی رہا کہ کوئی بات نہیں میں بل دے سکتا ہوں مگر اس نے کہا کہ آپ سے بل وصول کرنا ظفر اقبال کی توہین ہے۔
٭...ہمارے ایک عزیز میاں ہمایوں دستگیر اپنی والدہ کا چیک اپ کرانے کے لیے نامور ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر شہر یار کے پاس گئے جن کے کاغذ دیکھ کر انہوں نے کہا: اچھا تو آپ شہرِ ظفر اقبال سے آئے ہیں حالانکہ میں پہلے کبھی ان سے نہیں ملا تھا۔
٭...سینئر صحافی وقار انبالوی کی صاحبزادی جو اُن دنوں اسلام آباد میں مقیم تھیں‘ کے ساتھ میری خط و کتابت رہی، انہوں نے ایک بار لکھا کہ آپ کا ایڈریس مختصر ترین ہے۔ میں ظفر اقبال‘ اوکاڑہ لکھ کر خط پوسٹ کر دیتی ہوں اور وہ آپ کو مل جاتا ہے۔ ایک بار انہوں نے شرارتاً صرف ظفر اقبال لکھ کر خط پوسٹ کر دیا۔ سو وہ بھی مجھے اوکاڑہ میں مل گیا۔ میں اوکاڑہ کے لیے باعثِ فخر ہوں‘ ہوں یا نہیں لیکن اوکاڑہ میرے لیے باعث فخر ہے کہ اسی کی خاک سے اُٹھ کر میں شعر و ادب کی ٹوٹی پھوٹی خدمت سرانجام دے سکا ہوں۔
اور‘ اب آخر میں انجم قریشی کے مجموعہ کلام ''دوسرا پاسا‘‘ میں سے یہ خوبصورت نظم:
تھوڑ
سادے ہو گئے رُکھے ماہی
پانی دے گھٹ سُکے ماہی
تیرے مُکھ دے بھکھے ماہی
تیری اکھ دے دُکھے ماہی
تیرے لئی ہتھ چکُے ماہی
اپنے آپ توں لکُے ماہی
تیری تانگھ وچ مکُے ماہی
نہ سنیہا نہ رُقعے ماہی؟
کون اے تینوں تیتھوں اگے
تینوں میرے نال کیہ لگے
دنیا سوندی، تتڑی جگے
رتڑے سُفنے ہو گئے بگے
سُنجے گھر وچ کھکھر لگے
نہ چندرا کوئی اتھرو ڈگے
نہ گڑ پکے نہ ای وگے
ٹھگاں دا ٹھگ تُوں، گئے ٹھگے
آج کا مقطع
کچھ بھی ہو بے سود ہے مجھ سے سفر کرنا ظفرؔ
جو کہیں جاتی نہیں وہ رہگزر باقی ہوں میں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved