تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     24-06-2022

ایشیا‘ نئی سرد جنگ کا میدان؟

پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی واحد بڑی مسلم طاقت سلطنتِ عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ مسلمان پہلے ہی سے علم و فن اور تحقیق کے شعبوں سے صدیوں دور تھے، لیکن واحد سلطنت کے خاتمے کے بعد تو بد قسمتی کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو آج تک نہیں رک سکا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سرد جنگ شروع ہوئی تو مسلم ممالک کی اکثریت واضح طور پر امریکی بلاک کا حصہ بن گئی۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا نے مسلم ممالک کو ایک غیر اعلانیہ جنگ کے نتیجے میں زیرِ حملہ کر لیا۔ یہ پانچویں نسل (ففتھ جنریشن)کی جنگ کے تحت ہونے والا پہلا حملہ تھا جس کے نتیجے میں تقریباً تمام مسلم ممالک کو عسکری، سیاسی، فرقہ وارانہ، معاشی اور انتظامی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے ایک بات لگ بھگ ثابت ہو گئی کہ مسلم ممالک اگر سرد جنگ میں سوویت یونین کے ساتھ ہوتے تو شاید اس کے تقریباً نصف صدی کے عروج میں وہ اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے اور حاصل بھی کر سکتے تھے۔ واضح رہے کہ روس صرف اشتراکی طرز کے ممالک کی معاشی و عسکری طور پر دل کھول کر مدد کرتا تھا۔ یہاں پر یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ دنیا کے کسی اور حصے میں اشتراکی نظام کی اتنی مخالفت نہیں کی گئی تھی جتنی مسلم ممالک میں کی گئی تھی۔ اشتراکی نظام کو کفر تک سے تشبیہ دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مسلح جنگ افغانستان میں لڑی گئی تھی جس میں تقریباًپوری مسلم ورلڈ سے لوگ لڑنے آئے تھے۔ اس جنگ میں سوویت یونین کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ یہ سلطنت کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔
جیسا پہلے ذکر ہوا کہ اس جنگ کے اختتام کے ساتھ ہی مسلم ممالک زیرِ عتاب آگئے اور اب تک ہیں۔ اگرچہ اب اس کی شدت میں کمی آگئی ہے مگر شدت میں کمی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ چین کا ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا ہے۔ اسی طرح روس کا اپنے آپ کو سنبھالنا اور چین کے ساتھ ایک اتحادی کے طور پر کھڑا ہونا بھی ایک اہم سبب ہے۔ امریکی بر سر عام یہ بات کرتے ہیں کہ روس نے اس کا صدارتی الیکشن ہیک کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا تھا، اس کے علاوہ امریکا یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ روس ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو امریکا کو اندرونی طور پر شدید قسم کے مسائل میں گھیرنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے اس سلسلے میں ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔ روس کے حوالے سے سب سے اہم بات اس کا یوکرین پر آپریشن کی طرز کا حملہ ہے جس سے یورپ ہی نہیں بلکہ امریکا بھی شدید پریشانی کا شکار ہو گیا ہے۔ اس جنگی مشن نے پورے مغرب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہوئے بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ جس طرح سرد جنگ کا بڑا میدان ایشیا تھا‘ اسی طرح اب چین اور امریکا کی سرد یا نیم گرم جنگ کا بڑا میدان بھی ایشیا ہی بن رہا ہے۔ ایشیا اپنی طرز کا واحد بر اعظم ہے جہاں پر افکار، نظریات، طرزِ سیاست اور معاشرتی ڈھانچے بہت زیادہ اقسام کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایشیا میں کسی بھی ملک کی سرحد عبور کرنے کے ساتھ ہی آپ کو احساس ہو گا کہ آپ ایک مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد دنیا میں آگئے ہیں۔ یہاں پر بیک وقت آپ کو خاندانی بادشاہت، ، خاندانی جمہوریت، تھیوکریسی، ڈیموکریسی، ملٹری حکومتیںاور دیگر اقسام کے طرزِ حکومت ملیں گے۔ یہ سب کچھ باعث تنوع نہیں بلکہ باعثِ تنائو بھی ہے۔ دنیا کے قدیم ترین ریاستی جھگڑے بھی اسی براعظم میں پائے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک جھگڑا سرائیل کے ریاستی وجود اور اس کی حیثیت کا ہے۔
اسرائیل امریکا کے اتحادیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ یورپ کے علاوہ‘ ایشیا میں اہم ترین امریکی اتحادی ہے۔ یہاں پر ایک اہم بات کا ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہے۔ اس کا آئین یہودیوں کی مذہبی کتاب ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایک خود ساختہ نظریہ کچھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ترقی کرنے کے لیے مذہب اور مذہبی افکار کو خیرباد کہنا بہت ضروری ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں یہ نظریہ سراسر غلط ثابت ہو جاتا ہے بلکہ یوں کہنا پڑتا ہے کہ بات مذہب کی اصل اساس کی ہوتی ہے اور یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آپ مذہب کی آڑ میں کوئی ذاتی مقاصد تو پورے نہیں کر رہے۔ اس کی ایک بڑی مثال یورپ میں عیسائی مذہبی قیادت کے ہاتھوں ذاتی مقاصد اور فوائد کا حصول تھا جسے پاپائیت کا دور کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تاریخ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ چرچ کے اسی منافقانہ سلوک اور طرزِ ریاست و معیشت کی وجہ سے وہاں کے لوگ اپنے مذہب سے دور ہو گئے تھے۔
بات ہو رہی تھی اسرائیل کی‘ اس ملک کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے بیشتر مسلم ممالک ہیں۔ لیکن اس ملک نے بالواسطہ طور پر اپنا آپ منوایا ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال آپ شعبہ تجارت میں دیکھ لیں۔ ہم جو بھی اشیا عالمی مارکیٹ سے خریدتے ہیں ان میں بڑی تعداد اسرائیل کے لوگوں یعنی یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ایک وڈیو پیش کی جاتی ہے جس میں وہ بڑے فخر کے ساتھ مشہور عالمی فرموں کے نام گنواتا ہے کہ یہ سب ہماری ہیں۔ اس فہرست میں کولڈ ڈرنکس‘ مشینری‘ الیکٹرونکس‘ میک اَپ اور جیولری وغیرہ تیار کرنے والی کمپنیاں ہیںجو پوری دنیا کے ساتھ تجارت کر رہی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسرائیل مسلمانوں سمیت تمام دنیا کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ یہاں ایک اور بات جو سیکھنے کی ہے‘ وہ یہودیوں کی کل تعداد ہے جو بمشکل ڈیڑھ سے دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ استعدا د تعداد پر بھاری ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زائد ہے۔ یہودیوں کی کامیابی دیکھنے کا ایک اور پیمانہ ان کے نوبیل انعام پانے والے لوگوںکی تعداد ہے جو مذہبی اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
آج کل پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تذکرہ واضح طور پر بڑھ چکا ہے۔ اس کا ایک اہم سبب اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی حیرت انگیز تبدیلیاں ہیں۔ ان تبدیلیوں کو اسرائیل کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات میں پیش قدمی کہا جا سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً تمام ممالک کو اسرائیل سے تعلقات کے باب میں کم تر، درمیانے درجے اور واضح تعلقات کی فہرست میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک بات اب نوشتۂ دیوار دکھائی دے رہی ہے کہ مستقبل قریب میں کم تر تعلقات والے ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اب سوال بچا ہے پاکستان کا‘ تو ایک بات سب پر عیاں ہے کہ اسرائیل محض پاکستان کی مخالفت میں بھارت کی عسکری مدد کرتا ہے۔ ایٹمی ملک ہونے کے ناتے مغربی دنیا سمیت اسرائیل کی نظروں میں سب سے زیادہ کھٹکنے والا ملک پاکستان ہی ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 1984ء میں عراق کا ایٹمی ری ایکٹرایک فضائی حملے میں تباہ کر دیا تھا۔ اگلی تشویش والی بات مقبوضہ کشمیر میں بڑھنے والے بھارتی جنگی جرائم ہیں۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مظالم عین اسی طرز کے ہیں جو اسرائیل فلسطینیوں پر روا رکھتا ہے۔ بظاہر اب حالات اس ڈگر پر آگئے ہیں اور اس کے کئی نمایاں اشارے بھی مل رہے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ میری دانست میں یہ ویسا ہی موقع بن رہا ہے جیسے پاکستان کو آفرز کی گئی تھیں کہ ایٹمی دھماکا نہ کرو اور بدلے میں یہ مراعات لے لو۔ اگرچہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ایک ناقابل یقین سی بات لگتی ہے لیکن دیگر مسلم بالخصوص خلیجی ممالک کے رویے کے بعد حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا عالمی سپورٹر چین ہے اور چین نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہر طرح کے روابط بھی رکھتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ پاکستان کا معاشی بازو مڑچکاہے‘ ان حالات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرانا درپردرہ کارفرما ایک عالمی منصوبہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے باب میں مغرب کو کھٹکنے والی چیز سی پیک کا منصوبہ ہی رہ جائے گا، اور میری دانست میں اس حوالے سے آثار وامکانات بھی ابھرنا شروع ہو چکے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved