باقی تمناؤں کو خیرباد کہہ چکے‘ ان پہ اب وقت ضائع کیا کرنا۔ جہاں تک قوم کا حال ہے‘ قوم جانے اور اُس کا حال۔ قوم کی اصلاح کن ہاتھوں میں ہے ہم کیا جانیں؛ البتہ اب خیال آتا ہے کہ جیسے کئی بیماریاں لاعلاج ہوتی ہیں‘ قوم کا حال بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ نصیحت کی عادت ویسے بھی ہمارے قبیلے کو کچھ زیادہ ہی لگی ہوئی ہے حالانکہ سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ نصیحت کرنے سے زیادہ بیکار کام اور کوئی نہیں۔
پہلی تمنا یہ کہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ہاتھ نہ لگنا پڑے۔ اس دھرتی پر بیکار کا بوجھ بنے ہمیں بہتر سال ہو گئے ہیں‘ اب تہترویں سال میں ہیں۔ معمولی امراض کیلئے اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے لیکن ڈاکٹروں کے کسی بڑے جھٹکے سے اللہ نے اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ دعا ہے کہ ایسا ہی رہے۔ جیلوں سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا کہ ہسپتالوں سے۔ بس چلتے پھرتے رہیں‘ دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں وہ بھی ہاتھ روک روک کر۔ شام کے کھانے سے پہلے کچھ حکیمانہ دوا استعمال ہو جاتی ہے جس سے بھوک لگنے میں مدد ملتی ہے اور اداس موڈ بھی قدرے درست ہو جاتا ہے۔ ناشتے میں دیسی گھی کے پراٹھے پر گزارہ ہوتا ہے اور اگر اس عمر میں وہ ہضم ہو جائے تو پروردگار سے اور کیا مانگنا۔ قدرت کی تمام مہربانیوں سے بڑھ کر صحت کی مہربانی ہے۔ پہلوانوں والی صحت نہیں‘ اُسے لے کر ہم کیا کریں گے۔ کسی اکھاڑے میں تو جانا نہیں اور کئی ایسی تمنائیں ہیں جو پہلوانی کے بغیر ہی اچھی لگتی ہیں۔
اب میں اپنے آپ کو تھوڑا سا دہرانے چلا ہوں اور اس کیلئے معذرت خواہ ہوں۔ اس دھرتی کی اصلاح اور کچھ نہیں چاہیے لیکن جہاں اس دھرتی کے ساتھ اور بہت کچھ ہو رہا ہے کم از کم پلاسٹک شاپروں کی لعنت سے تو یہ بچ جائے۔ ہم تو اس زمین کے ساتھ وہ کررہے ہیں جیسے اس سے کچھ بدلہ چکانا ہو‘ لیکن سرفہرست واردات اس دھرتی کے ساتھ پلاسٹک کی چیزوں کا پھیلاؤ ہے۔ دیگر گناہ شاید معاف ہو جائیں لیکن یقینِ کامل ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال کی معافی نہ ہوگی۔ زمین برباد ہو رہی ہے‘ نالے اور دریا اس گند سے بھرے جا رہے ہیں‘ سمندرکو بھی ہم نے نہیں بخشا اور اب ہماری کم عقلی اور خود غرضی کے سبب سمندر بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں۔ ہم کتنی کم عقل قوم ہیں‘ یہ تباہی ہمارے سامنے ہو رہی ہے لیکن اس کا کچھ کرنا ہماری ہمت اور عقل سے باہر لگتا ہے۔ جو حکمران اس بارے کچھ کر سکے گا خدا کے ہاں سرخرو ٹھہرے گا۔ اُس کی باقی خطائیں اگر ہوں بھی تو معاف ہو جائیں گی۔
ہم تو گناہگار ہیں اور اب تو یوں لگتا ہے کہ ناقابلِ اصلاح گناہگار ہیں۔ ہماری کس نے سننی ہے لیکن مملکتِ خداداد میں بڑے بڑے روحانی اور مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں جن میں بڑی روح پرور باتیں کی جاتی ہیں۔ کسی عالمِ دین کا دھیان اس طرف بھی جائے۔ ہماری ڈھلتی عمر میں بس یہی ایک چیز ہو جائے تو ہم خوش ہو جائیں گے۔ لاہورجائیں تو یہی گند دیکھنے کو ملتا ہے۔ چکوال کا یہی حال ہے‘ بھگوال آتے ہیں وہاں بھی لگتا ہے کہ قوم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ پلاسٹک کی چیزوں کا پھیلانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ بنگلے کے پاس جو میری تھوڑی سی زمین ہے اُس میں چاروں اطراف خالی بوریاں رکھی ہوتی ہیں جن میں اُڑتے ہوئے پلاسٹک کے پیکٹوں کو ہم ڈال دیتے ہیں۔ خریداری کپڑے کے تھیلوں میں کی جاتی ہے۔ پلاسٹک کی کوئی چیز آئے بوریوں میں محفوظ ہو جاتی ہے اور تمام بوریاں بھر جائیں تو چکوال لے جاتے ہیں اور سرکاری بن کے پاس جو گندگی کا ڈھیر ہے وہاں پہ بوریوں کو پھینک دیا جاتا ہے۔ یعنی پچیس میل دور سے ہم اپنا گند لاکر شہر کے اکٹھے کیے ہوئے ڈھیر میں ڈال دیتے ہیں۔ اور کوئی طریقہ بھی نہیںہے۔ ایٹم بم تو ہم نے بنا لیا لیکن جسے سالڈ ویسٹ کہتے ہیں اُس کی ڈسپوزل کا نظام ہمارے کسی شہر میں نہیں۔ اسلام آباد میں فضول کاموں پر پیسے لٹا دیے جاتے ہیں لیکن ملک کے دارالحکومت میں بھی سالڈ ویسٹ کی ڈسپوزل کا کوئی انتظام نہیں۔ ہم کہتے نہیں شرماتے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ نصف ایمان کا تو یہ حال ہے باقی نصف کا کیا حال ہوگا‘ اُس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تیسری خواہش اور اس پر بھی میں اپنے آپ کو دہرا رہا ہوں‘ کہیں سے اس قوم میں ہمت آئے کہ جنرل ضیاالحق کا نفاذ کردہ حدود آرڈی نینس ختم ہو جائے۔ یہ ایک غیرضروری قانون ہے اور اس کا نفاذ ایک لحاظ سے ہوشیاری پر مبنی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ چل رہا تھا اور ضیا حکومت کی تجوریاں تقریباً خالی تھیں۔ سابق آئی جی پنجاب چوہدری سردار محمد اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ اس آرڈی نینس کا نفاذ سعودی حکومت کو خوش کرنے کی ایک کوشش تھی کہ وہاں سے کچھ پیسہ مل جائے۔ یہ بات ہو رہی ہے 1979ء کے اوائل کی۔ چالیس‘ بیالیس سال بیت چکے ہیں اور پاکستان کی کہانی اب بھی یہی ہے کہ کہیں سے کچھ مل جائے۔ بہرحال وقت گزر چکا ہے‘ اس قانون کی کوئی افادیت تھی بھی تو اب ختم ہو چکی ہے۔ اب اسے جانا چاہیے تاکہ کچھ تو یہاں قدرے آزادی سے ہو سکے۔
کرتے ہم سب کچھ ہیں لیکن چھپ چھپ کے اور ڈر ڈر کے۔ یا تو ایسے قوانین سے اس معاشرے پر نیکی اُتر آئی ہو پھر تو ٹھیک ہے‘ جواز بنتا ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ معاشرے میں منافقت کی روش تیز ہوئی ہے۔ پارسائی اگر ہے تو لبوں تک محدود ہے۔ ہماری جوانی کے زمانے میں اس طرز کی منافقت معاشرے میں اتنی نہ پھیلی ہوئی تھی۔ گمراہی کے راستوں پر چلنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہوا کرتی تھی۔ خواہ مخواہ کے قوانین کی وجہ سے جس گمراہی کا ذکر یہاں ہو رہا ہے معاشرے میں سرعت کر چکی ہے۔ کہاں بیچارہ وہ ایک محلہ جو لاہور قلعے سے متصل ہے۔ معاشرے کو نیک کرتے کرتے اُس محلے سے جڑی ہوئی روایات اب پورے شہر میں پھیل چکی ہیں۔
گمراہی کے راستے انسانی کمزوریوںکے زمرے میں آتے ہیں۔ انسانی کمزوریاں انسان کے مزاج کا حصہ ہیں۔ جب سے انسانی معاشرے تشکیل ہوئے جہاں بڑے اچھے اور اعلیٰ اقدار کا جنم ہوا ساتھ ہی انسانی کمزوریاں بھی پنپتی رہیں۔ باشعور معاشرے انسانی کمزوریوں کے پیچھے نہیں پڑ جاتے کہ انہیں ختم کرنا ہے۔ ایسے معاشرے ایسی روشوں کو ریگولیٹ اور کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بالکل ہی بے ہنگم نہ ہو جائیں۔ اب زیادہ تفصیل میں کیا جایا جائے۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہمارا معاشرہ نارمل معاشرہ نہیں رہا۔ اس پر ہم نے کچھ ضرورت سے زیادہ قدغنیں لگا دی ہیں اور اس سے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا۔
بس صفائی کا احساس تھوڑا بڑھ جائے‘ درختوں اور سبزہ زاروں سے جو ہماری پرانی دشمنی ہے اُس کی شدت میں ذرا کمی آ جائے اور معاشرے میں بیکار کی پابندیاں ختم کر دی جائیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ باقی نصیحت کیا کرنی ہے۔ ہاں! ایک اور چیز ہے‘ شہروں کے پرانے علاقوں کی رونقیں کچھ بحال ہو جائیں تو اُس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔ لاہور کو ہم نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لاہور قلعے سے متصل علاقے کی طرف دھیان دیا جائے تو اس کے سامنے دبئی اور بنکاک کی روشنیاں ماند پڑ جائیں۔ پرانے وقتوں میںحالتِ کسمپرسی میں اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ یقین مانئے پورے مشرق میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جو اُس وقت کے اس محلے کا مقابلہ کر سکے۔ لیکن ہم جو بدبخت ٹھہرے ایسی جگہوں کی ہمیں قدرکہاں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved