تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں تین ریڈیو سٹیشن آئے تھے۔ لاہور، ڈھاکہ اور پشاور میں یہ ریڈیو سٹیشن واقع تھے مگر ہندوستان سے آنے والے آل انڈیا ریڈیو کے ملازمین اور آرٹسٹ زیادہ تر لاہور پہنچ رہے تھے۔ اس طرح 47ء میں ریڈیو کا ہیڈ کوارٹر لاہور ہی میں تھا۔ بے سر و سامانی کا عالم تو تھا ہی مگر اس میں بھی ریڈیو نے مہاجرین کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ چونکہ کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا تھا اس لیے ہیڈ کوارٹر کراچی منتقل ہو گیا جہاں کوئی ریڈیو سٹیشن نہیں تھا؛ تاہم ریڈیو کے ٹیکنیکل سٹاف نے وہاں بیرکس میں ایسا انتظام کر دیا کہ نشریات کا اہتمام ہو سکے کیونکہ لانڈھی میں ٹرانسمیٹر نصب کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ ان حالات میں ریڈیو نے ابلاغ کے حوالے سے ایک قومی ضرورت کو پورا کیا۔ مشرقی پاکستان سے رابطے کے لیے شارٹ ویو کے ٹرانسمیٹرز لگائے گئے اور یہ بھی ممکن بنایا گیا کہ کراچی سے قومی نشریاتی رابطے پر خبریں مشرقی پاکستان کے لیے بنگلہ زبان اور مغربی پاکستان کے لیے اردو زبان میں نشر ہوں۔
ریڈیو پاکستان کا عملہ دن رات سرگرم عمل رہا کیونکہ یہ واحد ذریعہ ابلاغ تھا جو پاکستان کی ایک قومی شناخت کے لیے کام کر رہا تھا اور ان کوششوں کا ثمر 65ء کی جنگ میں ملا جب ریڈیو کی مدد سے پوری قوم ایسے متحد ہوئی کہ آج تک اس کی مثال دی جاتی ہے۔ 71ء میں ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے سے دوچار ہوئے تو ہزاروں شہری اور فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ ریڈیو پاکستان نے اس دور میں قیدیوں کے رشتے داروں کے پیغامات گاؤں گاؤں جا کر ریکارڈ اور بعد ازاں نشر کیے۔ اسی طرح نوّے کے عشرے میں جب عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا اور خلیج میں جنگ کا ماحول بن گیا تو وہاں سے پاکستانیوں کو بھاگنا پڑا۔ اُس دور میں بھی ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس نے‘ جو مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک میں سنی جاتی تھی‘ ایسے ہی پیغامات نشر کر کے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
آج کرکٹ پاکستان میں ایک مقبول کھیل ہے۔ اس کھیل کو پاپولر بنانے میں ریڈیو کا بنیادی کردار ہے۔ عمر قریشی اور جمشید مارکر کی رننگ کمنٹری سے یہ کھیل مقبول ہونا شروع ہوا اور پھر اردو زبان میں ہمارے کمنٹیٹروں نے عام پاکستانیوں کو اس کھیل کی باریکیاں اس قدر سمجھا دیں کہ اب آپ کو ٹھیلے والا بھی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے فیصلے پر تنقید کرتا سنائی دے گا۔ گندم اور چاول وغیرہ کی پیداوار بڑھانے میں ریڈیو کے زرعی پروگرامز کی تعریف تو اقوام متحدہ بھی کر چکا ہے۔ ادب و ثقافت کے میدان میں بھی ریڈیو کا بے مثال کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جس وقت ہمارے ہاں ٹی وی آیا تو سارا ٹیلنٹ ریڈیو ہی نے مہیا کیا۔ حتیٰ کہ اسلم اظہر اور آغا ناصر جیسے افسر بھی بنیادی طور پر ریڈیو سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلم اظہر انگلش نیوز ریڈر تھے جبکہ آغا ناصر ڈرامہ پروڈیوسر تھے۔ مذہبی پروگرام ہوں، بچوں کا پروگرام ہو، خواتین کے لیے خصوصی پروگرام ہوں، مزدروں کا پروگرام ہو، کسانوں اور کاشتکاروں کے لیے پروگرام ہوں، ڈرامے، مزاحیہ فیچر، ادبی پروگرام اور مشاعرے، سٹیج شوز، آپ کی فرمائش، فوجی پروگرام، غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ریڈیو نے بنیادی ٹرینڈ سیٹ نہ کیے ہوں۔ یہ ساری تفصیل جو اصل حقیقت کا شاید دس فیصد بھی نہ ہو‘ اس لیے تحریر کی ہے کہ ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں کو اس ادارے کے قوم پر احسانات یاد دلائے جا سکیں۔
ظاہر ہے قاری یہ پوچھے گا کہ اب اس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو عرض ہے کہ اس ادارے کے ملازمین‘ خاص طور پر ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ بہت برا سلوک ہو رہا ہے۔ وزارتِ خزانہ اس حوالے سے مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ تک سننے میں آ رہا تھا کہ شاید جون کے مہینے کی ریڈیو ملازمین کی پنشن بھی نہ ادا ہو پائے؛ تاہم پنشنرز کے ایک وفد نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی چیئر پرسن سے ملاقات کی تو انہوں نے حوصلہ دیا کہ وہ پنشن ادا کرنے کی کوشش کریں گی اور یکم اپریل سے جو دس فیصد اضافہ ہوا تھا‘ وہ دلوانے کی بھی کوشش کریں گی۔ نئی حکومت کے آتے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن دس فیصد بڑھا دی جائے۔ یکم اپریل سے فنانس ڈویژن نے سب محکموں کو رقوم فراہم کر دیں اور ان کو اپریل کی پنشن میں دس فیصد اضافہ بھی موصول ہو گیا مگر ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین کو اب تک یہ اضافہ نہیں دیا گیا۔ وہ عدالت میں جائیں یا وفاقی محتسب کے پاس؟ انتظامیہ اس سلسلے میں یہی جواب دیتی ہے کہ اس بارے میں آفس آرڈر جاری کیا جا چکا ہے مگر فنانس ڈویژن ہمیں رقم فراہم نہیں کر رہی۔ اب بجٹ میں پانچ فیصد مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ ابھی اعلان ہی ہے ریڈیو کے پنشنرز کے لیے۔ یہ تو تازہ واقعات ہیں لیکن یہ امتیازی سلوک کافی عرصے سے جاری ہے۔ سرکاری نوکری میں جب کوئی ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اس کو آس ہوتی ہے کہ پنشن کمیوٹیشن کی رقم کی۔ ملازمین نے اس رقم کے حوالے سے اپنے بچوں کی شادیاں بھی پلان کی ہوتی ہیں بعض نے اپنے پلاٹس پر گھر تعمیر کرنے کا سوچ رکھا ہوتا ہے، کسی پر قرضہ چڑھا ہوتا ہے اور اس نے قرض خواہ کو آس دلائی ہوتی ہے کہ کمیوٹیشن کے پیسے ملیں گے تو ادا کروں گا۔ ممکن ہے کہ بعض قاری سوچ رہے ہوں کہ کمیوٹیشن کیا چیز ہے‘ تو عرض کر دوں کہ ریٹائرمنٹ کے وقت جو پنشن بنتی ہے‘ اس میں سے آدھی پنشن تو ماہوار ملنا شروع ہو جاتی ہے باقی آدھی کو بارہ برس تک روک لیا جاتا ہے اور وہ یکمشت ادا کی جاتی ہے۔ چھوٹے ملازمین کیلئے بھی یہ رقم لاکھوں میں بن جاتی ہے جس سے انہوں نے امیدیں لگائی ہوتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے ریٹائر ہونے والے افراد کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کو وزارتِ خزانہ کی کرم نوازی سے ابھی تک کمیوٹیشن کی رقم نہیں ملی۔ آپ خود سوچیں کہ اس قومی ادارے میں خدمات سر انجام دینے والے ان ملازمین کے ساتھ یہ سلوک روا رکھنا بھلے کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ ریڈیو پاکستان کا ہیڈ کوارٹر سارا حساب کتاب کر کے فنانس ڈویژن سے رقم مانگتا ہے تو وہاں سے کٹوتی لگ جاتی ہے‘ کس دلیل یا جواز پر لگتی ہے‘ یہ معلوم نہیں۔ لیکن کسی بھی دلیل یا جواز پر کسی ملازم کا حق غصب نہیں کیا جا سکتا۔
وفاقی حکومت پنشنز کے لیے پانچ سو ارب سے زائد رقم مختص کرتی ہے۔ وفاقی ملازمین کو پنشن بھی مل رہی ہے اور کمیوٹیشن بھی۔ ریڈیو کے ملازمین کے ساتھ نجانے کیوں یہ سوتیلا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ملازمین کے پنشن کے کیس میں کوئی سقم ہو تو ریڈیو پاکستان کا ہیڈ کوارٹر وزارتِ خزانہ سے رقم طلب ہی نہ کرے۔ صاف سیدھے کیسز ہیں‘ آفس آرڈر تک جاری ہو چکے ہیں لیکن صدا اٹھتی ہے کہ فنڈز نہیں ہیں۔ اگرچہ ریڈیو کی اب اہمیت کم ہو چکی ہے لیکن یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ اس وقت بھی پاکستان کی پوری آبادی تک جو آواز پہنچ پاتی ہے وہ ریڈیو کی آواز ہے۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں بھی صرف اور صرف ریڈیو ہی کے ذریعے پیغام دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن بھی پورا پاکستان اس لیے کور نہیں کر پاتا کہ اگر سگنل پہنچ رہے ہوں تو بھی ٹی وی سیٹ کا ہونا اور بعض علاقوں میں سیٹلائٹ ڈش کا ہونا ایسے پہلو ہیں جو اس مِیڈیم کی راہ میں حائل ہیں۔
نظر انداز کیے جانے کے باوجود بھی اب تک ریڈیو ہمارے ملک میں ایک اہم قومی اثاثہ ہے۔ سرکاری کنٹرول میں ہوتے ہوئے یہ ادارہ خود کفیل نہیں ہو سکتا۔ نجی شعبے میں اس کو دیا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے پروگرام پھر نجی چینلوں جیسے ہو جائیں گے اور چھوٹی بڑی گاڑی میں آپ کو ریڈیو پر وہی کچھ سنائی دے گا جو چینل پر چلتا ہے۔ دنیا میں ریڈیو کے میڈیم کے ذریعے ریونیو اسی طرح کمایا جاتا ہے۔ اگر حکومت ریڈیو کے اخراجات بچانا چاہتی ہے تو پھر بسم اللہ کرے اور اسے نجی شعبے کو دیدے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اس محکمے کے ساتھ انصاف کرے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved