ایلیٹ کو فرق نہیں پڑتا کہ ملک میں مہنگائی ہے یا لوگوں کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہورہی ہے۔ اگر فرق پڑتا تو شہباز شریف مشیران کی فوج بھرتی نہ کرتے۔وہ سعودی عرب‘ قطر‘ چین اور دبئی تک گئے تاکہ کچھ ڈالر مانگ سکیں۔ ان کا آج کل مذاق بنا ہوا ہے اور لوگ ان کی ویڈیو پر دھڑا دھڑ مزاحیہ کمنٹس کررہے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کو کہا کہ آپ ہمیں بھکاری نہ سمجھیں‘ ہم بھیک مانگنے نہیں آئے‘ بس اس دفعہ زرا ہماری مدد کر دیں‘ آئندہ نہیں آئیں گے۔ویسے اس اعتماد کی داد تو شہباز شریف کو دیں کہ ڈالرز مانگے اور ساتھ وضاحت بھی دی کہ یہ نہ سمجھئے گا کہ آپ سے ڈالرز کی بھیک مانگنے آئے ہیں۔ واللہ ایسا اعتماد۔ کمال۔ اس کے الگ سے نمبرز بنتے ہیں جیسے کبھی ہمارے استاد ہمیں ہوم ورک پر صفائی کے نمبر الگ دیتے تھے۔ اس لیے شہباز شریف کو بھی الگ سے داد کہ کس صفائی سے انہوں نے پیسے بھی مانگ لیے اور ہمیں بھی تسلی دی کہ فکر نہ کریں میں نے آپ کی پگ کو داغ نہیں لگنے دیا۔
یہ صرف شہباز شریف ہی کرسکتے تھے۔ یہ فن صرف انہی کو آتا ہے۔مزے کی بات ہے کہ پچھلے دنوں ہمارے حکمرانوں‘ وزیروں‘ مشیروں‘ ایم این ایز کے گوشواروں کے تفصیلات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ وہ امیر ترین لوگ ہیں۔ ارب پتی بھی ہیں‘ کروڑ پتی بھی اور شاید چند لاکھ پتی بھی۔ لیکن ہزار پتی کوئی نظر نہ آیا۔ اگر پاکستان میں بلیک انکم کا رواج نہ ہوتا تو ہمارے حکمران ارب پتی ہوتے۔ مگر ہمارے ہاں رواج ہے کہ اپنی دولت اور لوٹ مار کو گھریلو ملازموں‘ نوکروں‘ ڈرائیوروں‘ مالیوں‘ باورچیوں یا دوسرے ناموں پر بے نامی رکھنا ہے‘ لہٰذا قانونی طور پر ان کی اصل دولت کا پتہ نہیں چلتا ورنہ یہی دیکھ لیں کہ آصف زرداری نے ایک ہی ہلے میں چالیس ارب روپے فیک اکاؤنٹس سکینڈل میں ادھر ادھر گھمائے۔ اومنی گروپ اور دیگر بلڈرز‘ فالودے اور ریڑھی والوں کے اکاؤنٹس سے ادھر ادھر پیسے آتے جاتے رہے۔ دوسری طرف باپ بیٹا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو دیکھ لیں کہ سولہ ارب کے ٹی ٹی سکینڈل پر جیل سے ہوآئے ہیں اور نکلتے ہی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی بن گئے ہیں۔ میں حیران ہوتا تھا کہ جہانگیر ترین ہوں‘ نواز شریف‘ شہباز شریف یا زرداری ان سب کا مالی مشیر یا اکاؤنٹنٹ ایک ہی ہے۔ اس نے ان سب کو مشورہ دیا کہ دولت گھر کے ملازموں کے نام پر رکھنی ہے۔ جو آپ کے گھر میں دس پندرہ ہزار پر کام کررہا ہے‘ اس کا اکاؤنٹ کھلوا کراس میں دنیا بھر سے رقوم منگوا کر انہیں فارن زرمبادلہ ظاہر کر کے اسے لیگل کرتے جائیں۔ بلیک کو وائٹ کرتے جائیں۔ یوں گھر کے ڈرائیور کو کبھی پتہ نہ چلا کہ وہ ارب پتی ہے۔ فالودے والا ساری عمر سڑک پر دھوپ میں فالودہ بیچتا رہا۔ اس غریب کو کیا علم کہ اس کے اکاؤنٹ میں سندھ کا نواب اربوں روپے ڈال چکا ہے۔آپ اندازہ کریں ہمارے حکمرانوں کی ذہانت کا‘ کیسے کیسے طریقوں سے انہوں نے دولت کمائی اور چھپائی۔ جنہوں نے اپنے ملازمین تک کو نہیں چھوڑا کیا جو انہیں چوبیس گھنٹے سروس دیتے ہیں تو وہ قوم کا کتنا درد رکھتے ہوں گے؟
عمران خان نے سوچا وہ کیوں پیچھے رہیں اور انہوں نے عقل کا وہ استعمال کیا جس کا اُن سے پہلے کسی وزیراعظم کو خیال نہ آیا۔ انہوں نے بیس فیصد ادائیگی کر کے اسی فیصد منافع پر سعودی انگوٹھیاں‘ نیکلس اور گھڑی د بئی کے بازار میں بیچ کر چودہ کروڑ روپے ایک ڈیل میں کما لیے۔ عثمان بزدار سادہ لگتے تھے‘ اب ان کی وارداتوں کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئی ہیں تو بندہ حیران ہو جاتا ہے۔ فرح صاحبہ کے کارنامے اگر کم تھے تو ٹرسٹ کے نام پرعمران خان اور بیگم بشریٰ صاحبہ نے ساڑھے چار سو کنال کا تحفہ لے لیا۔ روز الزامات دہرائے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ خان صاحب نے وضاحت تک دی۔
لاہور کے سروس انٹرنیشل ہوٹل کا سکینڈل کسی دن اوپن ہوا تو خان صاحب کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے کہ اربوں روپوں کا چودہ کنال پر محیط کئی منزلہ ہوٹل جو مال روڈ پر جم خانہ کے سامنے پرائم لوکیشن پر واقع ہے کیسے کوڑیوں کے مول ایک لاڈلے کو بیچ دیا گیا۔ میرے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ایک کابینہ اجلاس میں خان صاحب نج کاری کمیشن پر برس پڑے کہ اتنے قیمتی ہوٹل کو کیسے ایک ارب اسی لاکھ کا بیچا جارہا تھا۔ خود خان صاحب نے اجلاس میں کہا کہ انہیں پتہ ہے یہ کتنی قیمتی جگہ ہے‘ یہ تو اربوں کی پراپرٹی ہے۔ کابینہ سیکرٹری احمد نواز سکھیرا نے بھی وزیراعظم کی بات کی حمایت کی کیونکہ خود سکھیرا صاحب نج کاری کمیشن میں سیکرٹری رہ چکے تھے لہٰذا انہوں نے بھی یہی رائے دی کہ ہوٹل کی قیمت بہت کم رکھی گئی۔ایک اجلاس میں اس ہوٹل کو فروخت کرنے سے روکا گیا لیکن اگلے اجلاس میں بڑے آرام سے عمران خان صاحب نے خاموشی سے وہ ہوٹل اسی قیمت پر ‘کوڑیوں کے مول بیچنے کی منظوری دے دی۔ یوں ایک لاڈلا بڑے آرام سے مال روڈ پر چودہ کنال کا ہوٹل لے گیا۔آج کل اس علاقے میں ایک کمرشل کنال ایک ارب سے کم پر نہیں بکتی‘ یہاں چودہ کنال پر بنا بنایا مال روڈ پر ہوٹل کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا جس پر خود وزیراعظم کو اعتراض تھا۔یہ ہے ہمارے ایماندار وزیراعظم کا چھکا۔
اب بتائیں ان سب نے جہاں تک حوصلہ تھا‘مال بنا لیا۔ شہباز شریف اور حمزہ کا ہاضمہ سولہ ارب کا تھا‘ زرداری کی مار چالیس ارب تک تھی تو پہلی دفعہ اقتدار میں آئے خان کا بس چودہ کروڑ کے تحائف‘ ساڑھے چار سو کنال مفت زمین اورایک ہوٹل کی حیران کن کم قیمت پر فروخت پر چل سکا۔ اب باقیوں کی آف شور کمپنیاں نکل رہی ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں ان سب حکمرانوں‘ وزیروں اور مشیروں کی جائیدادیں اور کاروبار راتوں رات آسمان پر پہنچ گئے‘ اربوں کما لیے‘ دنیا بھر میں جائیدادیں بنا لیں‘ ایک سے درجن فیکٹر یاں بن گئیں‘ پانچ براعظموں تک مال پھیل گیا‘ جنیوا کے بینک بھر لیے ‘ دبئی میں دس ارب ڈالرز کی جائیدادیں صرف پاکستانیوں نے خرید لیں۔اس وقت کینیڈا پاکستانی بیوروکریسی اور افسران سے بھرا ہوا ہے۔ سب نے بچے باہر شفٹ کر لیے ہیں۔ مال بنا رہے ہیں اور باہر بھیج رہے ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں کہ اتنی دولت گریڈ اٹھارہ یا انیس کا افسر کہاں سے کما رہا ہے کہ بچوں کو کینیڈا رکھا ہوا ہے اور یہیں سے سارا خرچہ جارہا ہے۔ بات وہی ہے کہ باڑ ہی کھیت کھا گئی۔ اب جس بڑے افسر یا حکمران نے ان افسران سے پوچھ گچھ کرنی تھی وہ خود یہ کام پہلے کرچکے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں ہے۔اگر ہمارے ریٹائرڈ فوجی بھائی بھی سویلین عہدوں پر تعینات ہوئے تو بھی کسر نہ چھوڑی۔ آج کل جنرل مزمل کو نیب ڈھونڈ رہی ہے اور وہ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ وہ پہلے اور آخری فوجی افسر نہیں جن پر یہ الزامات لگے ہیں یا نیب انہیں بلا رہا ہے۔اب بتائیں جب آپ کی ایلیٹ جس کیلئے آپ دن رات دعائیں مانگتے ہیں‘ دوستوں رشتہ داروں سے لڑے جھگڑتے ہیں‘ صحافیوں پر تبرا بھیجتے ہیں‘ ان کی اپنی حالت کیا ہے؟
حکمرانوں کے نزدیک ملک کا بادشاہ بننا بڑا اعزاز نہیں‘ جب تک وہ بڑا ہاتھ نہ ماریں۔ ان کے نزدیک بائیس کروڑ لوگوں کی بادشاہت اس روپے کے مقا بلے میں بہت کم ہے جو وہ بادشاہ بن کر کماتے ہیں۔ وہ بادشاہ اپنے سے کم اور کمزور لوگوں کی زندگیاں بدلنے کے لیے نہیں بنے بلکہ ان کے نزدیک خدا نے انہیں یہ موقع دیا کہ وہ اپنی سات نسلیں سنوار لیں۔جس سیاسی ایلیٹ کے نزدیک لٹ مار اور پیسہ اہم ہے‘ بادشاہ بن کر عزت کمانا اہم نہیں‘ اس کرپٹ کلاس کے لیے آپ سب لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا بڑا فن یہ ہے انہوں نے آپ کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ لٹ مار ہم کریں گے اور اس کا دفاع آپ لوگوں نے کرنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved