پاکستان کی تاریخ معاشی تجربات سے بھری پڑی ہے‘ ہر حکومت نے معیشت کو اپنے ڈھب سے چلانے کا پروگرام پیش کیا‘ تاہم حکومت ختم ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کو ایک ناکام تجربے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایوب خان کے دور کو معاشی حوالے سے سنہری دور اس لئے قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ملک میں انڈسٹری لگ رہی تھی۔ جن مصنوعات میں ہم بیرون ممالک کے محتاج تھے وہ پاکستان میں دستیاب ہونے لگی تھیں‘ یہی وجہ ہے کہ فرانس کے ڈیگال‘ امریکی صدر جانسن اور اس دور کے عالمی بینک کے صدر رابرٹ مک نمارا نے بھی ایوب خان کی معاشی پالیسیوں کو اہم کامیابی قرار دیا تھا اور یہ جملے زبان زد عام تھے کہ اگر پاکستان اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو چند سال میں ایشین ٹائیگر بن جائے گا کیونکہ ملک میں تیزی کے ساتھ صنعتیں فروغ پا رہی تھیں‘ روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہو رہے تھے اور جن مصنوعات کی خریداری پر پاکستان خطیر زرمبادلہ خرچ کرتا تھا وہ ضروریات پاکستان کی انڈسٹری سے پوری ہونے لگی تھیں۔ اس صنعتی ترقی کا کریڈٹ پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کو جاتا ہے جو ریاستی ادارہ ہے۔ تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایوب خان کے دور میں دولت کی تقسیم کا طریقہ کار درست نہ تھا‘ اسی معاشی ناہمواری کی وجہ سے دولت چند خاندانوں تک مرتکز ہو کر رہ گئی۔ صنعتوں کے قیام کے باوجود ایوب دور کے آخری سالوں میں معاشی بحران نے سر اٹھا لیا اور حالات ایسے ہو گئے کہ عوام کو چینی فراہم کرنے کیلئے راشن کارڈ جاری کرنے پڑے‘ گھر کے سربراہ کو ایک راشن کارڈ دیا جاتا تھا جس کے تحت ہفتہ میں صرف ایک بار آدھ سیر چینی مہیا کی جاتی تھی۔ ایوب خان کی طرف سے بڑے معاشی اقدامات کے باوجود ان کا دور بدترین معاشی بحران پر ختم ہوا۔
ایوب خان کا گیارہ سالہ دور ختم ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی تھی‘ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا شروع کر دیا‘ بھٹو کے وزیر خزانہ نے بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کے بعد مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ بینک صنعتوں کو اپنی مرضی سے سرمایہ فراہم کرتے تھے اس لئے ان کی اجارہ داری ختم کر دی گئی ہے۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے بھٹو نے بیانیہ اپنایا کہ ایوب خان کے دور میں سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہا گیا تھا سو سرمائے کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ بھٹو کی معاشی پالیسی سے کئی سرمایہ کار دلبرداشتہ ہوکر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔اس معاشی پالیسی کا اثر صنعتی پیداوار پر بھی ہوا‘ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا حتیٰ کہ نمک کی قیمت بھی بڑھ گئی تو پختونوں میں ایک نعرہ زبان زد عام ہوا کہ ''مالگہ خو لا سہ کئی پہ روپئی سیر کچالان شو۔ دہ سہ کئی بھٹو‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمک کو تو چھوڑیں کہ اس کی قیمت مقرر ہوئی آلو کچالو جو ہمارے کھیتوں میں عام چیز سمجھی جاتی تھی جسے عام طور پراس وقت لوگ قیمتاً خریدا بھی نہیں کرتے تھے اس کی قیمت بھی ایک روپے سیر تک پہنچ گئی تو لوگوں نے طنزیہ طور پر پشتو کا یہ محاوہ کہنا شروع کر دیا۔ یوں بھٹو کے دور میں صنعتوں کو قومیانے کی جو معاشی پالیسی ترتیب دی گئی وہ بھی معاشی تباہی کا باعث بنی۔
اس کے بعد ضیا الحق کے دور میں بھی معاشی پالیسی پر نئے سرے سے کام ہوا۔ ضیا حکومت کا شریف فیملی کو فائدہ یہ ہوا کہ بھٹو دور میں اتفاق گروپ آف انڈسٹریز کے جو کارخانے قومیائے گئے تھے وہ انہیں واپس مل گئے۔ جنرل ضیا کی پالیسی کی وجہ سے افغان جہاد میں ہم امریکہ کے قریب تھے تو ''وار منی‘‘ ہماری معیشت کا حصہ بنی‘ تاہم بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ امریکہ کی طرف سے جو مالی تعاون کیا گیا اس سے کئی گنا زیادہ ہم اس جنگ میں گنوا چکے ہیں جس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار حکومت ہیں جنہیں اپنا دور پورا کرنے کا موقع نہ ملا‘ ملک میں جمہوریت ہونے کے باوجود سیاسی عدم استحکام رہا‘ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے مگر میاں نواز کی ''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ سکیم کافی مقبول ہوئی۔ 1997ء میں اس سکیم کے تحت 175 کروڑ روپے جمع ہوئے تھے جو پاکستان کے شہریوں نے ریاست کو قرض حسنہ کے طور پر دیے تھے مگر بدقسمتی سے قرض تو نہ اتر سکا البتہ انیس سال بعد قرض دینے والوں کو ان کی رقم واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان واقعات سے ملک کی معاشی پالیسیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ جن شہریوں نے انیس سال پہلے ملک کے ساتھ خیرخواہی کرتے ہوئے خطیر رقم دی تھی کیا اس مقصد کیلئے دی تھی کہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد انہیں رقم واپس کر دی جائے؟
پرویز مشرف کے دور حکومت میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا تو پاکستان پر سے بین الاقوامی پابندیاں ختم ہو گئیں اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 2006ء میں جی ڈی پی کی شرح آٹھ فیصد سے بڑھ گئی لیکن اس کے بعد معیشت مسلسل بحران کا شکار ہے۔ مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس کی ساری توجہ قانون سازی اور اصلاحات پر تھی‘ ان کے دور میں اٹھارہویں ترمیم جیسی اہم قانون سازی تو ضرور ہوئی مگر معاشی و توانائی بحران شدت اختیار کر گیا اسی دور میں انڈسٹری تباہ ہوئی اور سرمایہ کار بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے پر مجبور ہوا۔ 2013ء انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے توانائی بحران کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور قلیل ترین مدت میں توانائی بحران پر قابو پا لیا‘ اسی دور میں سی پیک پر عملی پیش رفت شروع ہوئی اور عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں نواز شریف نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی اور موٹرویز میں اضافہ کیا۔
2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور الیکشن کے نتیجے میں تحریک انصاف اتحادیوں کی مدد سے وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی معاشی اصلاحات پر کام شروع کر دیا‘ تاہم تین وزرائے خزانہ تبدیل کرنے کے باوجود وہ معاشی بحران پر قابو نہ پا سکی‘ حکومت کے ایک سال بعد کورونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو حکومت کورونا کی چھتری تلے اپنی ناکامی کو چھپانے لگی‘ لیکن مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو جانے سے عوامی مقبولیت سے محروم ہوتی گئی جس کا سیاسی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کا آئینی آپشن استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت ختم کر دی۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ جتنے معاشی تجربے تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور میں کئے گئے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ تاہم تحریک انصاف کے دور میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور ٹیکس وصولی میں معمولی اضافہ بھی ہوا۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ 22 کروڑ سے زائد آبادی میںسے صرف 30لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں‘ حالانکہ دو کروڑ افراد کے اثاثے اس قدر ہیں کہ انہیں ٹیکس دینا چاہئے‘ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی شرح نہایت کم ہے‘ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس نہ دینے کا تصور بھی محال ہے‘مگر یہاں ٹیکس چوری اس لئے بھی آسان ہے کیونکہ ٹیکس چوری کو روکنے کیلئے فعال سسٹم موجود نہیں ہے۔ اب اتحادی حکومت معاشی بحران ختم کرنے کیلئے نیا تجربہ کرنے جا رہی ہے‘ حکومت کی طرف سے جن 13 بڑی صنعتوں پر 10 فیصد اضافی سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے اس کی کلی طور پر حمایت نہیں کی جا سکتی ہے مگر کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ملک بھر میں جیولرز کی 30ہزار سے زائد دکانوں میں صرف 22 رجسٹرڈ ہیں۔جب ہم ریاست کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمیں قطعی طور پر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اپنے حصے کا پتھر اٹھائے بغیر یہ معرکہ سر نہیں ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved