دیر آید ‘ درست آید۔ آخر کار پاکستان کے امیر کبیر طبقے پر بھاری ٹیکس لگ گیا۔ سالانہ 15 کروڑ تک کمانے والے ریگولر ٹیکس کے علاوہ ایک فیصد‘ 20 کروڑ تک کمانے والے تین فیصد جبکہ 20 کروڑ سے زائد آمدنی والے افراد اور کمپنیاں چار فیصد اضافی ٹیکس دیں گی۔ یہ پاکستانی معیشت کے سٹرکچرل ریفارمز کی جانب ابتدائی لیکن اہم قدم ہے ‘ جس کا 50 فیصد سہرا وزیراعظم شہباز شریف جبکہ باقی 50 فیصد آئی ایم ایف کو جاتا ہے۔ ظاہر ہے حکومت نے 10جون کو پیش کردہ اپنے پہلے بجٹ میں یہ ٹیکس نہیں لگایا تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت اس ٹیکس کے نفاذ میں 100 فیصد راضی نہیں تھی کیونکہ ایک تو صنعتکار اور سرمایہ دار حکومتی ایوانوں کا حصہ ہیں جو ظاہر ہے خود اپنی کھال کھینچنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور دوسرا یہ کہ صنعتکار اور سرمایہ دار مختلف سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کرتے ہیں تو کون سی حکومت ان کے عتاب کو دعوت دینا چاہے گی؟ لیکن جب آئی ایم ایف نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ادھورے وعدوں کی بنا پر پاکستان کی ڈوبتی معیشت کیلئے ایک ارب ڈالر کی قسط کا سہارا دینے سے انکار کردیا تو پھر حکومت کے پاس سپر ٹیکس لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ ویسے بھی یہ 75 سالوں کی معاشی پالیسوں کا شاخسانہ ہے جس نے ملک کو موجودہ نہج پر لاکھڑا کیا ہے‘ یعنی خود کفالت اور خود انحصاری کی بجائے قرضے لو ‘ امداد لو اور ملک چلاؤ۔ آخر یہ کب تک چلتا؟ اب ہم غیر معمولی حالات کا شکار ہیں اور غیر معمولی حالات میں ہی بڑے فیصلے ہوتے ہیں‘ اور ابھی یہ درست سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم ہے وگرنہ ہم نے ابھی بہت سے مزید ٹیکس لگانے ہیں ‘ ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے ‘ملکی پیداواری صلاحیت بڑھانی ہے ‘ درآمدات کی بنیاد پر چلنے والی معیشت کو برآمدات سے تبدیل کرناہے۔
وزیراعظم شہباز شریف بنیادی طور پر سخت فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ سال کی مدت کیلئے حکومت لے کر اپنی سیاسی زندگی کا سخت ترین فیصلہ کیا ہے جو یا تو ان کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے ڈبو دے گی یا پھر تاریخ انہیں ایک ریفارمر وزیراعظم کے طور پر یاد رکھے گی۔ ویسے بھی جب سے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اور معیشت ٹِک گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن وہ اب اس امتحان میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ امر ہوگا۔
وزیراعظم شہبازشریف ہی کی طرح ان کے بیٹے اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کا سامنا بھی بڑے طوفان سے ہے۔ پنجاب کی تباہ حال گورننس کو ٹریک پر لانا‘ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کا مسلسل ان کی راہ میں روڑے اٹکانا ‘ اسمبلی میں معمولی اکثریت اور پھر اپنے والد کی گڈ گورننس کے ماڈل سے ان کا تقابل‘ تخت لاہور کو حمزہ شہباز کیلئے پھولوں کے بجائے کانٹوں کا سیج بنائے ہوئے ہے۔ پنجاب ان کی پارٹی کا گڑھ ہے جس میں میاں محمد نواز شریف نے بڑی محنت سے اپنا بھاری بھرکم اور وفادار ووٹ بینک تین دہائیوں کی محنت سے تیار کیا۔ اس سیاسی ترکے کو سنبھالے رکھنا ان کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ تبدیلی سرکار کے خاتمے کے بعد آنے والے معاشی بحران اور مہنگائی کے طوفان نے ان کیلئے پہاڑ جتنے مسائل کھڑے کردیے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کی بنائی پالیسیوں پرعوام کے ردعمل کا سامنا ان کو براہ راست کرنا ہوگا‘ پھر ضمنی انتخابات سر پر ہیں جہاں پی ٹی آئی کے منحرفین کو ٹکٹ دے کر ن لیگ کی مقامی قیادتیں ناراض ہیں۔ ہمارے ہاں جیسی دھڑے بندی اور ذات برادری کی سیاست ہوتی ہے اس میں جوڑ توڑ کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے میں حمزہ شہباز نے پنجاب کے متوسط اور غریب طبقوں کیلئے ایک جامع ریلیف پیکیج دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کی کامیابی اور افادیت ہی ان کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کرے گی مثلاً پنجاب حکومت نے 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ 24 روپے فی یونٹ بجلی کی بھاری بھرکم قیمت سے 76 لاکھ گھرانوں کو بچایا جاسکے۔ وہ چار سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے متوسط طبقے کے گھرانوں کو نہایت آسان شرائط پر سولر پینل فراہم کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں‘ منصوبے کے تحت سبسڈائزڈ قیمت پر سولر پینل فراہم کئے جائیں گے تاکہ بجلی کے بحران کے علاوہ عوام کا معاشی تحفظ بھی ممکن بنایاجاسکے۔اس وقت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کافی پتلی ہے‘ سابق حکومت نے مریضوں کو مفت علاج کے طور پر ہیلتھ کارڈ تو دے دیے لیکن عملی طور پر ہسپتالوں میں ادویات دستیات نہیں تھیں جو مریضوں کو خود خریدنا پڑتی تھیں‘ اب پنجاب حکومت نے یکم جولائی سے پنجاب کے 36 اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں مفت ادویات دینے کے ساتھ ساتھ کینسر کی ادویات بھی مفت میں دینے کا اعلان کیا ہے‘ جو پسے ہوئے غریب طبقے اور بمشکل اپنا بھرم رکھنے والے سفیدپوش طبقے کے لئے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
پنجاب حکومت کسانوں کیلئے بلاسود قرضے فراہم کرنے کا اعلان بھی کرچکی ہے ‘ ظاہر ہے یہ اعلان کسانوں پر کوئی احسان نہیں کیونکہ انہی کی محنت کے بدولت ہم غذائی اعتبار سے کافی حد تک خود کفیل ہیں لیکن ہماری معاشی پالیسیاں عموماً کسانوں کے استحصال کو ہوا دیتی ہیں۔ ہم یوکرین کے کسانوں کو تین ارب ڈالر دے کر گندم امپورٹ کرنا گوارا کرلیتے ہیں لیکن اپنے کسان کو فصل کی اچھی امدادی رقم نا دے کر اس کی تباہی و برباد کا سامان کرتے ہیں ‘ نتیجتاً ان پالیسیوں کا خمیازہ ملک میں غذائی قلت اور مہنگی امپوٹس کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اس وقت کسانوں کیلئے مہنگے ڈیزل سے ٹیوب ویل چلانا یا ٹریکٹر چلانا مشکل سے مشکل ہوچکا ہے‘ ایسے میں اگر بلاسود قرضے ان کو کاشت کاری میں کوئی مدد فراہم کریں تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟ اسی طرح پنجاب کے نوجوانوں کیلئے لیپ ٹاپ سکیم بحال کی جارہی ہے‘ ماضی میں یہ ایک کامیاب سکیم ثابت ہوئی کیونکہ اس سے متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا نہ صرف ٹیکنالوجی کے اس دور میں باقی دنیا سے ہم آہنگ ہوئے بلکہ انہوں نے اس کے ذریعے فری لانسنگ اور آن لائن کاروبار کرکے اپنے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ پنجاب میں خواتین کو 12ہزار سکوٹیز دی جائیں گی جو ان کیلئے خود انحصاری کی جانب اہم قدم ثابت ہوگا ‘ کیونکہ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو ہم خواتین معاشرے کی 50 فیصد آبادی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
مشکل وقت میں یہ چند اہم فیصلے ہیں جو پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت نے اٹھائے ہیں۔ اس مشکل دور میں عوام کو سہولت دینے کیلئے غیرروایتی فیصلے کرنا ضروری ہے تاکہ معیشت کا پہیہ اور عام شہری کا گھر چلتا رہے۔ بلاشبہ اس ریلیف پیکیج کو کامیاب اور دوسرے صوبوں کیلئے قابل تقلید بنانا وزیراعلیٰ پنجاب کی صلاحیتیوں کا امتحان ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved