تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     20-08-2013

ریاست کی ناکامی

امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی۔ غرـضیکہ مغربی دُنیا کے ہر اخبار نے اپنی 31 جولائی کی اشاعت میں ایک خبر کو نمایاں جگہ دی اور خبر تھی ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر طالبان کے حملہ اور سینکڑوں قیدیوں کے فرار کی۔ روزنامہ ’گارڈین ‘نے مفرور ہو جانے والوں کی تعداد تین سو کے قریب لکھی اور یہ پریشان کن پیشین گوئی کی کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی کئی جیلوں پر اس طرح کے حملے کیے جائیں گے۔جیلوں پر حملوں کا جو سلسلہ اپریل 2012 ء میں بنوں جیل پر حملہ (جس میں چار سو کے قریب قیدی مفرور ہونے میں کامیاب رہے) سے شروع ہوا تھا وہ سارے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ برطانوی اخباروں کے مطابق ماہ جولائی کے تیسرے ہفتہ میں طالبان نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے جاسوسی ادارہ آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کر کے اپنی بڑھتی ہوئی قوت کا مظاہرہ کیا۔ ایک مغربی سفارت کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر یہ تبصرہ کیا کہ پاکستان میں جیلیں ، شاخوں سے بہت نیچے اور زمین کے قریب لٹکنے والے پھل کی طرح ہیں جنہیں توڑنا زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا۔ برطانوی اخباروں کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے کا نام عدنان رشید ہے۔ اسماعیل خان نے صدیوں قبل پختون خوا کے جنوب میں پھیلی ہوئی پہاڑیوں پر جب اپنا ڈیرہ جمایا اور وہاں اپنے خانہ بدوش قبیلہ کے مستقل قیام کے لیے ایک نئی بستی آباد کی تو اُس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن اُس کے نام پر آباد کی جانے والی گمنام بستی کا نام دُنیا بھر میں مشہور ہو جائے گا اور اُس کی وجہ اُس بستی میں بن بلائے مہمانوں کی آمد اور اُن کے آتشیں اسلحہ کا بے دریغ اور بے تحاشا استعمال ہوگا۔ اُن مہمانوں کی تعداد جو بھی تھی (چند سو تو ضرور ہوگی) ایک بات یقینی ہے کہ جب وہ اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹے تو ان کی تعداد میں تین سو کے قریب افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ شاید کوئی ہفتہ ایسا گزرے جب پاکستان کے ریاستی اداروں پر ایک کاری وار نہیں ہوتا، ریاستی اداروں کی دیمک زدہ اور کھوکھلی عمارت کی کوئی اور اینٹ نہیں گرتی، کوئی ایک اور ستون منہدم نہیں ہوتا، کوئی اور خستہ حال شہر زمین بوس نہیں ہوتا۔ جیل پر حملہ اتنا ڈرامائی واقعہ ہے کہ بجا طور پر کروڑوں پاکستانیوں کی نظریں اس پر جم جاتی ہیں اور لمحہ بھر کے لیے اُن کا دھیان اربوں کھربوں روپوں کی اُس لوٹ مار سے ہٹ جاتا ہے جس کو ہمارے حکمران طبقہ (افسروں، سیاست دانوں، صنعت کاروں، بینکوں کے مالکوں) نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل کر رکھا ہے۔ مجال ہے کہ اُس فرض کی ادائیگی میں حکمران طبقہ کے کسی فرد نے کوتاہی کی ہو۔ ہر سال، ہر ماہ، ہر روز اربوں کھربوں روپوں کی لوٹ مار نے پاکستان کو اس حد تک کھوکھلا اور کمزور کر دیا ہے کہ اس کی پولیس اور دیگر ادارے غیر ملکی جارحیت کا تو کجا، چند سو جنگجو اور منظم افراد کے مسلح حملہ کی بھی کامیابی سے مزاحمت کرنے سے قاصر ہے۔ اگر آپ کو پاکستان کے دفاعی اداروں کی مزاحمتی صلاحیت کے بارے میں اب بھی خوش فہمی ہے تو وہ آنے والے دنوں میں دُور ہو جائے گی۔ اب پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ آپ آمنہ مسعود جنجوعہ سے پوچھ لیں۔ سرزمین پاک میں انسانی حقوق کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے؟ طالبان سے ہمدردی رکھنے کے شک میں (مقدمہ چلائے بغیر) گرفتار ہونے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے؟ آپ سپریم کورٹ کے جج جناب اعجاز چوہدری صاحب اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب دوست محمد خان کے ارشاد ات گرامی پڑھ لیں۔سینکڑوں بے گناہ افراد جاسوسی اور نگرانی کرنے والے اداروں کی تحویل میں غیر معین حراست اور تشدد کا شکار بن رہے ہیں اور بلوچستان ہو تو مسخ شدہ لاش کی شکل میں عبرتناک انجام۔یہ اُس ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو سیاسی مسائل کا سیاسی حل نکالنے میں ناکامی (بلکہ اس صلاحیت سے محرومی) کی صورت میں بے گناہ اور قصور وار میں فرق روا رکھنے کی بجائے اندھی اور بہری ہو گئی ہیَ صرف اندھی اور بہری نہیں بلکہ مفلوج بھی۔ اس کالم کو پڑھنے والے ذہین قارئین جانتے ہوں گے کہ ریاست کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حدود کے اندر طاقت کے استعمال کی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی Sovereigntyیعنی حاکمیت اعلیٰ منواتی ہے۔ جس ملک میں دفاعی افواج کا ہر حصہ (بحریہ، فضائیہ اور آرمی) خود دہشت گردوں کے حملوں کا شکار بنا ہوا ہو اُس کی خود مختاری اور ریاست کی بنیادی شرط کو پورا کرنے کے آگے بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس بنیادی سچائی کا علم صرف افلاطون کو نہ تھا، ہر اُس شخص کو ہے یا ہونا چاہئے جو علم سیاسیات کی ابجد جانتا ہے۔ ماسوائے پاکستان کے نئے صدر کے ،جنہیں اپنے عہدہ جلیلہ کے باوصف استثنا حاصل ہے۔ جنگل کا شیرجنگل کے قانون سے ناواقف ہو تو ہوتا بہرحال شیر ہی ہے۔ خاص طور پر جب اُسے ایسی جماعت نے شیر بنایا ہو جس کا اپنا انتخابی نشان بھی شیر ہو۔یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے نئے صدر یہ جانتے ہوں گے کہ شیر اپنے تمام اوصاف سے محروم کر دیا جائے، پنجرہ میں بند کر دیا جائے، چڑیا گھر میں سامانِ تماشا بنا دیا جائے، وہ ہر وقت دُم ہلاتا رہے ،مگر اُسے کبھی کبھی دھاڑنا بھی پڑتا ہے تاکہ اصلی شیروں سے رسمی تعلق خِاطربرقرار رکھ سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved