لکھنؤ کے مرحوم شاعر عرفان صدیقی کا شعر ہے
گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم
اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں
لیکن اسی غزل کا ذرا یہ شعر بھی سن لیں
ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
ذرا غور کیجیے کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ مصرع ہمارے گردو پیش‘ہمارے معاشرے اور ہمارے بارے میں کہا گیا ہے ؟ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کس طرح جی رہے ہیں۔ کون سا دن ہے جب مہنگائی اور گرانی اپنی چٹانیں ہمارے سر پر نہ دے مارتی ہو۔آپ اس سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ ایسا ہے جیسے آپ پہاڑتلے کھڑے ہیں‘دوسری طرف کھائی ہے اور اوپر سے پتھروں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔ مفر کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ تندورچی ہر روز روٹی اور نان کی قیمتیں بیس روپے سے بڑھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عام گوالا ہو یا دودھ کی بڑی کمپنیاں ‘140روپے لٹر کی نوید دے چکی ہیں۔ بکرے کا گوشت 1700 سے 1800 روپے اور بعض جگہ دو ہزارروپے تک۔ گائے کا گوشت 850 تا 900۔چکن 400 تا 450۔ دال کی قیمتیں بھی اب پہنچ سے باہر ہیں جو کبھی غریب کا آسرا سمجھی جاتی تھی۔ پیاز کے بغیر کوئی ہنڈیا نہیں بنتی اور یہ پیاز سو روپے کے قریب ہے۔ پکانے کا تیل پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا تمسخر سے سب کو دیکھتا ہے۔ بجلی کی قیمت‘اللہ اکبر ! اس پر یہ کہ میسر بھی کم کم آتی ہے۔ ان مہنگے نرخوں پر مستزاد یہ کہ ہر محکمے میں بلنگ میں نا انصافی اور ظلم جائز قرار دے دیے گئے ہیں۔ آپ بل دیکھ کر دہل جاتے ہیں۔ داد رسی کے لیے جائیں تو بدتمیز اور بہرا عملہ صرف ایک بات کہتا ہے کہ پہلے یہ بل جمع کرائیں پھر سوچیں گے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں یا غلط۔ آپ ذرا سی اصولی بات کریں تو آپ اگلے دن بجلی ‘گیس ‘پانی کے کنکشن کٹوا کر اپنی قسمت کو رو رہے ہوں گے۔ کون داد رسی کرے اور کون انصاف دے۔ سرکاری محکموں میں تو اس انسان کا بھی فقدان ہے جو ہمدردی سے آپ کی بات ہی سن لے اور عملی طور پر نہ سہی ‘ اخلاقی طور پر ہی آپ سے ہمدردی کردے۔ جو مہنگے نرخ ہیں وہ تو اپنی جگہ ‘ لیکن بلنگ میں اور میٹر ریڈرز کی غفلت یا نا اہلی بھی محکمہ نہیں ‘عام آدمی بھگتتا ہے۔ اور کنزیومر کورٹس کس مرض کی دوا ہیں ‘پتہ نہیں۔ وہاں کون جائے ‘کون وقت نکالے ‘ کون وکیل کرے اور کون اس محکمے کے اہل کاروں سے دشمنی مول لے ؟نتیجہ وہ جو ہمارے ساتھ ‘اور ہمارے ہمسایوں کے ساتھ اور ہمارے ہم وطنوں کے ساتھ مسلسل ہورہا ہے۔ یعنی قہر درویش بجان درویش۔ آپ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر محکموں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔
احسن اقبال نے چائے صرف ایک کپ پینے کا مشورہ دیا اور گویا آخری چسکی کے ساتھ کپ میز پر رکھ کر تمام مسائل سے فارغ ہوگئے۔ گویا وہ تھکن اتارنے کا ایک وسیلہ جو کسی طرح امیر غریب سب کے بس میں ہے اور جو ہر جھونپڑی ‘ہر ڈیرے پر غریب آدمی کا روزگار بھی ہے‘وہ بھی ختم کردیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ احسن اقبال کے ذہن میں یہ ہے کہ باقی مشروبات سبھی ایک عام انسان کی پہنچ میں ہیں اور صرف چائے کم کرنی ہے۔ یہ جو حکومت روز روز سپورٹ پروگرامز‘غریبوں کی مدد کی سکیموں کے اعلانات کرتی ہے جس کا نتیجہ کہیں نظر نہیں آتا‘ صرف اتنا کردے کہ اپنے محکموں سے یہ ظلم ‘ نا انصافی ختم کردے تب بھی بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ سچ یہی ہے کہ ظلم حکومتی اداروں سے شروع ہوتا ہے‘ پانی ‘بجلی ‘گیس جیسی بنیادی ضرورتوں کے محکموں سے ہوتا ہوا نجی اداروں تک پہنچتا ہے اور یہ سب ملبہ بالآخر نچلے اور متوسط طبقے پر آگرتا ہے۔
میرا رزق کتب کے اشاعتی کاروباری ادارے اور دیگر کاروبار سے وابستہ ہے ‘میںمحسوس کرتا ہوں کہ کاغذ اور کتاب پر اتنا سخت وقت پہلے کبھی نہیں آیا۔ ہر دور میں گرانی بڑھتی رہی ہے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ کسی پیپر مل‘کسی کاغذ درآمد کرنے والے پر کوئی سرکاری نگرانی ہے ہی نہیں۔ ڈالر کی قیمتیں جیسے جیسے بڑھیں اور درآمدی اعلیٰ کاغذ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ مقامی پیپر ملوں کو بھی من مانی کرنے اور بے حساب منافع کمانے کا موقع مل گیا۔ کیاصرف ایک سال پہلے یہ تصور کیا جاسکتا تھاکہ درمیانے درجے کا مقامی کاغذ جو پہلے کسی شمار قطار ہی میں نہیں تھا‘ 240 روپے فی کلو گرام سے شروع ہوگا اور بہتر ملوں اور معیار کی طرف جاتے جاتے 380روپے کو چھونے لگے گا؟کاغذ کی ملیں آپس میں معاملات طے کرلیتی ہیں اور یہ معاملہ انتہائی اضافے کے ساتھ ہماری پشتوں پر لاد دیتی ہیں۔ وہ آفسٹ کاغذ جو انڈونیشیا سے آتا ہے اور بہتر کاغذ ہے 410 سے شروع ہوکر 430 تک جارہا ہے۔ اور یہ بھی بالکل نقد بلکہ پیشگی ادائیگی پر۔کتابوں کا کاروبار خالص پیسے کے نقطۂ نظر سے ہمیشہ ہی گھاٹے کا کاروبار رہا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ جنہیں کتابوں سے عشق ہے وہ اس سے مشکلات کے باوجود وابستہ رہے ہیں ‘اور ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو پیسے کو نہیں اپنے عشق کو پہلے دیکھتے ہیں۔ کاغذی کتاب کے پڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوری ہے۔ اور یہ مسئلہ کتابی دنیا میں بے حد سنگین ہے۔ ایسے میںجب کتاب کی لاگت میں دو دو سو روپے فی کتاب کا اضافہ ہوجائے گاتو لامحالہ کتاب کی قیمتوں میں دو تین گنے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اتنی مہنگی کتاب کون خریدے گااور کسے بیچی جائے گی؟ کتاب خریدنا کس کی مجبوری ہے بھلا؟ تو ناشر اس پر سرمایہ لگانے کے بجائے تندور کیوں نہ لگالیں ‘یا آٹا ‘چینی کیوں نہ بیچنا شروع کردیں کہ وہ کسی بھی حال میں خریدنا مجبوری تو ہے۔
کوئی محکمہ ‘کوئی شخص‘ کوئی افسر ‘کوئی وزارت تو ہوگی ایسی جس کی عمل داری میں یہ سب کچھ آتا ہے۔ کوئی وفاقی ‘ کوئی صوبائی محکمہ تو ہوگا جس کا یہ میدان ہوگا؟ آخر وہ سورما کون ہیں ؟یہ بھی ہم مسلسل سن رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں کاغذ پرڈیوٹی میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ہم ابھی پچھلے ہوش ربا اضافوں کو رو رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ دیوارِ گریہ تو ابھی آئی ہی نہیں۔ سچ یہ ہے کہ اب وہ سب ممکن ہے جو کبھی ناممکنات میں تھا۔ کتاب ہی نہیں بچوں کی کاپیوں ‘رجسٹروں ‘ نوٹ بکوں کی قیمتوں میں جو ہوش ربا اضافہ ہوا ہے اسے سن کر بس الامان کہنے کو جی چاہتا ہے۔ جن لوگوںنے نسل در نسل کتاب اور متعلقات کا کاروبار کیا ہے‘ اب وہ کیا کریں؟یہ شعبہ دم توڑ رہا ہے ‘اور کوئی ایسا نہیں جو اسے آکسیجن فراہم کرے۔
یہ بات کتنی بار دہرائی جائے ؟ کتنی دفعہ چیخا جائے ؟ کس آواز میں گریہ کیا جائے کہ متعلقہ اداروں متعلقہ وزارتوں تک یہ آواز پہنچ جائے ؟ہم لوگ جو نہ سیاست دان ہیں ؟ نہ جلسۂ عام کرسکتے ہیں ‘نہ لانگ مارچ۔ہمارا قلم ہی ہماری صدا ہے اور ہمارا کالم ہی ہمارا جلسۂ عام۔ یہی دسترس میں ہے اور وہ بات تو صدیوں سے درست ہے ہی کہ
کون سنتا ہے فغانِ درویش
قہرِ درویش بجان درویش
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved