صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کوئی ڈھائی ماہ ہوئے‘ ایک درخواست بھیج رکھی ہے جس میں انہوں نے ملک کے صدر کی حیثیت سے یہ پوچھا تھا کہ ''اس خط یا سائیفر کا پوسٹ مارٹم کر دیجیے تاکہ اس قوم کو‘ ملک کے عوام کو‘ یہاں کے ووٹرز کو‘ اس ملک کے عمر رسیدہ افراد اور نوجوانوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے سامنے ہمہ وقت بولی جانے والی سائیفر کی کہانی کی حقیقت کیا ہے؟ صدرِ مملکت نے اُس عرضی میں یہ درخواست کی ہے کہ قوم کو اس روز روز کے جھنجھٹ اور بحث و تکرارسے بچانے کیلئے آپ ہی ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ آپ اس خط کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیں تاکہ قوم بھی جان لے کہ کون ہے وہ جو اس ملک کی قسمت سے کھیل رہا ہے‘ کون ہے وہ جس نے اس پاک وطن کو‘ جو لاکھوں عزتوں اور کئی لاکھ جانوں کی قربانیاں دینے کے بعد اس دھرتی پر اپنا جوبن سجائے کھڑا ہے‘ اسے نقصان پہنچانے کی سازش کی ہے؟
یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر اس درخواست کی سماعت نہیں ہو سکتی اور ایسا کرنے میں کوئی امر مانع ہے یا اس میں کوئی علاقائی یا بین الاقوامی مجبوریاں ہیں تو اسے قومی مفاد اور سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے ایک طرف رکھ دیجیے یا چھوڑ دیجیے تاکہ قوم اس روز روز کی چخ چخ سے بچ جائے۔ لیکن اتنا احسان تو کر دیجیے کہ کوئی تین ماہ سے ہم جو روزانہ یہ سن رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے پھنسا دیا گیا‘عمران خان کی حکومت ملکی معیشت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھاکر گئی ہے‘ عمران خان حکومت ملک کو دیوالیہ کر گئی ہے‘ تیل کی قیمتیں کم کر کے ملک کو تباہ کیا گیا بلکہ بارہا ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل فرما چکے ہیں کہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہی پڑیں گے‘ ڈیفالٹ نہ ہونے کی قیمت تو ادا کرنا پڑے گی اور یہ قیمت کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے جیسے سفید پوش نہ جانے کب سے ادا کر رہے ہیں‘ جس نے اب کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی ہر ٹی وی چینل پر یہ بیانات دیتے رہے کہ عمران خان ہر جگہ بارودی سرنگیں بچھا گئے ہیں‘ انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے بدلہ لینے کیلئے ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے‘ جب انہیں اپنی شکست واضح نظر آ رہی تھی تو انہیں تیل کی قیمت میں دس روپے فی لٹر کمی کرنے اور اسے تیس جون تک ایک جگہ منجمد کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی‘ یہ سب انہوں نے ہمیں پھنسانے کیلئے کیا ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ کا ایک ایک رکن اور ان کے درجن کے قریب سپیشل ایڈوائزر فرماتے رہے ہیں کہ عمران خان کےIMFسے کیے گئے معاہدوںکی وجہ سے تیل اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔ لیکن وہ یہ معاہدے نہیں دکھاتے‘ کاش کوئی ہمت کرکے اس معاہدے کو ہی سامنے لے آئے۔اول تو کوئی بھی اس معاہدے کو عوام کے سامنے لانے کی جرأت نہیں کر سکتا لیکن اگر کسی نے ایسا کرنا بھی چاہا تو یہ معاہدے سامنے آنے سے پہلے تک‘ اسی معاہدے کو بنیاد بنا کر عوام کا بھرکس نکال دیا جائے گا۔ آج مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے‘ ڈالر کو مسلسل پر لگے ہوئے ہیں‘ سٹاک ایکسچینج مندی کا شکار ہے‘ ادارۂ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے‘دودھ‘ دالیں‘ گوشت‘ کوکنگ آئل جیسی اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والا طبقہ تو رہا ایک طرف‘ اچھے بھلے متمول گھرانوں کیلئے اپنے چولہے گرم رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے‘ عوام کی قوتِ خرید میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے‘ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گرانی کے نئے ریکارڈ قائم نہیں ہوتے ‘ لیکن موجودہ حکومت ابھی تک بارودی سرنگوں کا واویلا کر رہی ہے‘ قطع نظر اس کے کہ غریب عوام مہنگائی کی چکی میں اس قدر پس چکے ہیں کہ اُن کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اُن ''بارودی سرنگوں‘‘ کی اصل حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے جن کی وجہ سے حقیقتاً ملکی معیشت کا آج یہ حال ہو چکا ہے۔
کیا ہماری معزز مقتدرہ ملکی یا عوامی مفاد میں ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے عمران خان سمیت پی ڈی ایم کی پوری کابینہ اور اس کے وزیراعظم سے 2008ء سے اب تک کاریکارڈ طلب کر سکتی ہے؟ کتنا اچھا ہو کہ اس کی سماعت اس قدر کھلی اور عام ہوکہ گھر بیٹھا ہر شخص یہ کارروائی دیکھ سکے۔ یہ اس قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا‘ اس ملک کے ہر شہری کا نظامِ عدل اور ملکی اداروں پر بھروسا قائم ہے۔
جب بھی پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے یا پاکستانی روپیہ گہری کھائی میں گرتا ہوا دیکھتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے ادھر ادھر سے بیانات کی بھر مار شروع ہو جاتی ہے کہ وہ چور ہے‘ سب کچھ اس نے کیا ہے‘ دوسرا کہتا ہے کہ نہیںہم نے نہیں بلکہ سارا ستیاناس تو اس نے کیا ہے‘‘ اور یوں عوام کی مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الزام تراشی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ سب تماشا دیکھ دیکھ کر عوام اب اُکتا چکے ہیں‘ مجھے یہ خوش فہمی نہیں بلکہ یقینِ کامل ہے کہ میری اس تجویز سے پاکستانی عوام کی اکثریت ضرور اتفاق کرے گی کہ اگر قومی ادارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو اپنے سامنے پیش ہونے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ کو تمام قومی ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے اوراس کی روشنی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ فیصلہ کر دے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ عوام کی کسی سے رشتہ داری تو ہے نہیں اور نہ ہی وہ چند ہزار یا چند لاکھ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات کسی ایک سیا سی گروہ یاجماعت سے اس طرح وابستہ ہیں کہ انہیں سچ اور جھوٹ کی کوئی تمیز ہی نہیں رہتی‘ ان کا سب کچھ وہ خاندان ہیں جو جس طرف لڑھکتا ہے وہ بھی اس طرف کو لڑھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو‘ ایسے خاندانوں کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کا کیا ہوگا‘ قوم کا کیا ہوگا کیونکہ وہ اپنے حصار اور خاندان کو ہی ملک و قوم سمجھتے ہیں۔
قومی ادارے جب یہ کھوج لگانے لگیں کہ وہ کون ہے جس نے ملک کو دیوالیہ کر دیا یا کرنے کی کوششیں کیں تو اُس وقت وہ 2013ء میں قائم ہونے والی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروںکو بھی بلائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ ''بارودی سرنگیں‘‘ کس نے کب اور کیوں بچھائیں؟ یہ ''بارودی سرنگیں‘‘ عمران خان کے آگے بچھانے کا انہیں حکم کس نے دیا تھا؟ کیونکہ عمران خان کے آگے بچھائی جانے والی مبینہ ''بارودی سرنگ‘‘ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اپنی الواداعی ملاقات میں اس سابقہ عہدیدار نے ملکی معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے جب پوچھا کہ ہم فلاں ملک کو اس کا واجب الادا قرضہ مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد بھی اب تک ادا کیوں نہیں کر پائے‘ تو انہیں بتایا گیا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ یہ ادائیگی کر دی جائے لیکن ہمیں ڈانٹتے ہوئے کہا گیا کہ جانتے ہو اگلی حکومت کن کی ہو گی؟ یہ ادائیگیاں ان کیلئے چھوڑ دو‘ جنہوں نے آپ کے بعد آنا ہے‘ آپ یہ رقوم اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں بانٹ دیں۔ جب کبھی ملک دیوالیہ کرنے کی چھان بین ہو تو اُن صاحب سے پوچھا جائے کہ انہیں یہ حکم دیتے ہوئے کون سے الفاظ استعمال کیے گئے تھے؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کیونکہ اس وقت کی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کو جب طلب کیا جائے گا تو ان کے ریکارڈ فر فر جواب دیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved