تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-06-2022

گلے کی ہڈی

کسی بھی عادت کو تواتر سے اپنائیے تو وہ پختہ ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ کوئی بھی عادت؟ بالعموم منفی عادت ہی پختہ ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ کوئی بھی مثبت عادت انسان سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ ایسی ہر عادت ایثار چاہتی ہے۔ ایثار ہر ایک سے ہو نہیں پاتا اس لیے مثبت عادتیں بہت مشکل سے انسان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ہم زندگی بھر اچھی اور بری عادتوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ دونوں طرح کی عادتیں ہماری زندگی میں نشیب و فراز کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ ہر اچھی عادت ہمارے لیے سہولتوں کا اہتمام کرتی ہے اور ہر بری عادت مشکلات پیدا کرتی ہے۔ یہ بالکل سادہ سی‘ عام فہم حقیقت ہے مگر پھر بھی بالکل عام فہم نہیں۔ لوگ زندگی بھر اچھی اور بری عادتوں کے الٹ پھیر میں پڑے رہتے ہیں۔
زندگی نظم و نسق کا نام ہے۔ نظم و نسق یعنی مثبت سوچ کے ساتھ اپنائی جانے والی ترتیب۔ یہ بات انسان کو بہت چھوٹی عمر سے اچھی طرح سمجھائی جانی چاہیے کہ اس دنیا میں ترتیب کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ کوئی معمولی سی غلطی بھی اچھی خاصی ترتیب کو تہس نہس کردیتی ہے۔ بعض اوقات کسی معاملے کو درست راہ پر رکھنے کی کوشش میں خاصا وقت لگتا ہے مگر کوئی ایک غلط قدم ہمیں غلط راہ پر ڈال دیتا ہے۔ قدرت کا نظام ایسا ہی ہے۔ اس میں ترتیب مشکل ہے اور ترتیب سے گریز بالکل آسان۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ انصاف پر مبنی معاملہ نہیں۔ قدرت کی طرف کسی کے لیے کوئی بلا جواز آزمائش ممکن ہی نہیں۔ اور ظلم کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر معاملہ انسان کے لیے آزمائش کے درجے میں ہے۔ ترتیب اگر مشکل ہے تو اُس کا صلا بھی زیادہ ہے۔ ترتیب سے عاری زندگی بسر کرنے میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
ہمیں زندگی بھر اچھے اور برے کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جینا پڑتا ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ بعض معاملات میں بہتر نتائج کے لیے زندگی کے چند پہلو تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہ دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو اچھی عادتوں کو بھرپور محنت اور ایثار کے ذریعے اپناتے ہیں۔ کوئی بھی بری عادت کسی بھی وقت اپنائی جا سکتی ہے۔ اچھی عادت کو اپنانے اور پروان چڑھانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنے ماحول میں اس سے باہر پورے معاشرے میں یا پھر پوری دنیا میں کسی بھی کامیاب انسان کے حالات و طرز زندگی کا جائزہ لیجیے‘ تجزیہ کیجیے تو اسی نتیجے پر پہنچیے گا کہ مثبت عادتوں کو پوری قوت سے پروان چڑھائے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی بری عادت کو پروان چڑھانے میں چونکہ محنت کرنا ہی نہیں پڑتی اس لیے معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ ہر اس عادت کو اپنایا جائے جو خود بہ خود پنپ جائے‘ محنت طلب نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں بہت سی بری اور انتہائی نقصان دہ عادتیں رفتہ رفتہ ہمارے گلے کی ہڈی بنتی جاتی ہیں۔ کوئی بھی بری عادت اگر پنپ جائے تو بہت مشکل سے جان چھوڑتی ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی غیر منطقی عادتیں بھی ہماری راہ میں دیوار بنی کھڑی رہتی ہیں۔ ہم ان سے نجات پانے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے لیے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت حد تک غیرمحسوس سطح پر رونما ہوتا ہے۔ اور پھر جب تک ہمیں ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
وقت کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے معاملات کو ڈھیلا نہ چھوڑیں‘ لاپروائی کو حرزِ جاں بنانے سے گریز کریں اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ کر گزریں۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اپنے لیے کچھ کرنے کی ٹھان چکے ہوں۔ محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی کا توازن برقرار رکھنے‘ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقی خوش حالی و استحکام کی طرف جانے کے لیے بھرپور عزم کے ساتھ میدان میں آنا پڑتا ہے۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ کوئی بھی بری عادت ہمارے لیے الجھنیں پیدا نہ کرے اور چند اچھی عادتیں بیک اپ کے لیے موجود ہوں یعنی کسی بھی مشکل صورتِ حال میں ہمیں اچھی اور مثبت عادتوں سے سہارا ملنا چاہیے۔
گلے کی ہڈی بن جانے والی ہر بری عادت سے جلد از جلد نجات پانا زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہوکر شعوری کوششیں کرنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ حالات ان کے لیے قدم قدم پر الجھنیں پیدا کرتے رہیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ کسی بھی مرحلے میں لاپروائی نہ برتی جائے‘ اپنے آپ کو ہر وقت کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کسی بھی بری عادت کے آگے ہتھیار نہ ڈالے اور ہر اچھی عادت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کرے۔ یہ سب کچھ محض کہنے کا معاملہ نہیں۔ عمل کی دنیا ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ ہم بھی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر عمل کی دنیا کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔یہ مکمل شعوری حالت کا معاملہ ہے۔ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے شعوری سطح پر کوشش کرنا ہوتی ہے اور کرنی ہی چاہیے۔ جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ اس کے تقاضوں کو نبھانے پر بھی مائل ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ نہ خود بہ خود ہوتا ہے اور نہ ہی راتوں رات واقع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ہم اپنے قریب ترین ماحول میں بھی ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں‘ ان کی زندگی کا تجزیہ کر سکتے ہیں جنہوں نے زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور پھر اس کا شدید خمیازہ بھی بھگتا۔ یہ خمیازہ مختلف شکلوں میں ہو سکتا ہے۔ ایک طرف تو معاشی الجھنیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ دوسری طرف گھر میں سکھ کا ماحول نہیں ہوتا‘ جیون ساتھی اور اولاد کی طرف سے بھی کوئی نہ کوئی تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ اگر کسی نے کریئر کے حوالے سے سنجیدگی نہ اپنائی ہو اور محنت کو شعار بنانے سے واضح گریز کیا ہو تو ڈھلتی عمر یا بڑھاپے میں صرف مسائل رہ جاتے ہیں جنہیں حل کرنے میں ناکامی کی صورت میں زندگی محض تلخابے میں تبدیل ہو رہتی ہے۔ ہم زندگی کی شاہراہ پر جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں بہت کچھ ہمارے بیگیج کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ ہر طرح کے واقعات‘ حادثات‘ احساسات‘ خیالات اور جذبات ہمارے وجود کو بوجھل کرتے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو تھوڑی سی کوشش سے چھوڑا جا سکتا ہے۔ ہر معاملہ اس قابل نہیں ہوتا کہ یاد رکھا جائے۔ ہر واقعہ اور حادثہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم اس کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتے رہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے رہیں۔ ہمیں یہ زندگی بہت کچھ دیتی ہے۔ زندگی کی بخشی ہوئی ہر چیز ہمارے لیے نہیں ہوتی اور سنبھال کر رکھنے کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ حافظے کو بوجھل بناتے رہنے سے ہم تجزیہ کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہو جاتے۔ بری عادتوں کی طرح بہت سے غیرضروری معاملات بھی ہمارے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوتے ہیں۔ بیداری کی حالت میں الرٹ رہنا ناگزیر ہے تاکہ کوئی بھی غیر ضروری معاملہ ہماری حِسّی اور نفسی ساخت پر زیادہ اور غیر ضروری طور پر اثر انداز نہ ہو۔
زندگی جیسی نعمت پورے شعور کے ساتھ بسر کرنے کے لیے عطا کی جانے والی نعمت ہے۔ لاپروائی کی گنجائش ہے نہ تن آسانی کی۔ کسی بھی بری عادت کو جی کا روگ بنانے سے گریز ہی ہمیں معیاری زندگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا کردار بھی غیرمعمولی ہے۔ کچھ سیکھنا ہے تو سیکھنا پڑے گا۔ ہم کوئی بھی ہنر کوشش کے بغیر نہیں سیکھ پاتے۔ زندگی کا ہنر بھی محنت طلب ہے۔ بصورت دیگر پوری زندگی گلے کی ہڈی بن جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved